اداکارہ بازغہ، ادبی صفحہ اور فوجی حکومت


اَسی (80) کی دہائی کا ابتدائی اور میرے شعری جوبن کا زمانہ تھا۔ مجھے اسلام آباد میں ایک تعمیراتی کمپنی کی ملازمت کرتے ہوئے تین چار سال ہو گئے تھے۔ دن بھر مٹی، اینٹوں، بلاکوں کے ڈھیروں، سریے کے جالوں اور کنکریٹ کی چھتوں پر نقشوں کے پلندے اٹھائے مصروف رہتا، شام کو اسلام آباد کی سڑکوں پر اور پارکوں میں آوارہ گردی یا سپر مارکیٹ، میلوڈی اور آب پارہ میں ونڈو شاپنگ کرتا، کسی سستے ریستوران سے رات کا کھانا کھاتا اور رات گئے اپنے ٹھکانے پر واپس آ کر سو جاتا۔ تب ایف 10 مرکز، جناح سپر اور سینٹورس نہیں تھے اور بلیو ایریا بھی خالی تھا۔ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ میلوڈی سنیما میں فلم کا آخری شو دیکھنے کا پروگرام بھی بن جاتا۔ ایسی صورت میں پیدل واپسی پر کسی نہ کسی چوک میں پولیس کی گشتی پارٹی کے ساتھ ضرور ٹاکرا ہوتا جو سنیما کے ٹکٹ دکھانے کے باوجود مشکوک اور وارداتیے کہہ کر روک لیتی۔ ان کے پاس فوکسی گاڑی اور اونچی آواز میں بولنے والے وائرلیس سیٹ ہوتے تھے۔ یہ خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں وہ خود ہی جیبوں میں چرس کی گولیاں ڈال کر منشیات کا سمگلر نہ بنا دیں اس لیے پانچ دس روپے یا سگرٹوں کا ایک پیکٹ یا کسی شناسا افسر کا حوالہ دے کر جان چھڑا لیتے تھے۔ اس وقت پولیس کا یہی ریٹ اور “طریقہ واردات” ہوتا تھا۔ دہشت گردی کا لفظ پولیس اور شہریوں کے لیے نامانوس تھا۔ البتہ سیاسی اور مارشل لائی گوشمالی اور “ڈنڈا ڈولی” عام تھی۔

اگر کسی شام کہیں نہ جانا ہوتا تو رات کو بیٹھ کر روکی ہوئی آدھی ادھوری نظمیں مکمل کرتا یا کوئی کتاب پڑھ لیتا۔ کتاب محبوبہ سے کم دل ربا نہیں ہوتی تھی، جس سے ملنے کو ہر وقت دل بے چین رہتا تھا اور اچھی کتاب کا ہاتھ لگنا  اور پڑھنا سب سے بڑی عیاشی ہوتی تھی۔ زیادہ تر مارکسی ادب اور کئی مذہبی اور ممنوعہ کتابیں میں نے اسی زمانے میں پڑھی تھیں۔ ضیا الحق کی فوجی حکومت کے باوجود اسلام آباد میں گزارے شروع کے وہ چند سال مختلف النوع سرگرمیوں، سیر سپاٹوں، دوستیوں، نظریاتی و ادبی بحث مباحثوں کے لحاط سے یادگار تھے۔ دوستوں کے درمیان مصلحتوں اور منافقتوں کا غلبہ نہیں تھا۔ سماجی مقام و مرتبے اور دولت  کی ہوس جیسی طلب نہیں تھی۔ حسد کے بجائے مسابقت تھی۔ تب سفارت کار اور سیاح عورتیں جینز اور ٹی شرٹس پہنے عام گھومتی تھیں۔ کہیں آنے جانے، ملنے ملانے کی پابندی نہیں ہوتی تھی۔ بدیسی بڑی جلدی دوست بن جاتے تھے۔ ماہِ صیام میں بھی غیر ملکیوں، مسافروں اور بیماروں کے لیے مخصوص ریستوران کھلے ہوتے تھے اور روزے خوروں سے بھرے رہتے تھے۔ “مارشل لائی” قسم کے اسلام اور نظریاتی اتھل پتھل اور سیاسی پکڑ دھکڑ کے باوجود کئی سیکولر قدریں برقرار تھیں۔ اسلام آباد اگرچہ اپنی ابتدا ہی سے گریڈوں، طبقوں اور سیکٹروں میں بٹا ہوا شہر تھا جس کا اپنا کوئی تہذیبی و ثقافتی ورثہ نہیں تھا لیکن تب اتنی پولرائزیشن نہیں تھی۔ ادھر دوسری طرف سوویت یونین افغانستان پر قابض ہو چکا تھا اور دنیا گرم پانیوں، اقتصادی گزرگاہوں اور مذہبی بنیادوں پر ایک نئے تہذیبی ٹکراؤ اور نئی جنگوں کی طرف بڑھ رہی تھی، تاہم نفرت اور تفاوت کا اس حد تک شکار اور اتنی تقسیم نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ امریکی ڈالر پر “نووس آڈم سیکلورم” یعنی نیو آرڈر آف دی ایجز کے الفاظ اگرچہ 1935ء میں طبع ہو چکے تھے لیکن “نیو ورلڈ آرڈر” کی اصطلاح اپنے اصل معانی اور موجودہ خوفناک عملی شکل میں رائج نہیں ہوئی تھی۔

اتوار کا دن عام طور پر دوستوں کے ساتھ اسلام آباد کے ارد گرد کے علاقوں، ندی نالوں، سبزہ زاروں، ویرانوں اور مرگلہ کی پہاڑیوں میں پیدل گھومتے یا صدر میں پرانی کتابوں کے تھڑوں پہ گزر جاتا۔ مجھے یاد ہے ایک بار ہم چند دوست چلتے چلتے بلکہ چڑھتے چڑھتے پیر سوہاوہ سے بھی آگے چلے گئے تھے۔ واپسی پر رات ہو گئی اور نادیدہ چیتوں کے خوف سے اور راستہ مختصر کرنے کے چکر میں ڈھلوانوں سے پھسلتے، کانٹے دار جھاڑیوں، پستہ قد بیریوں، پھلاہیوں، جنگلی کیکروں اور اس نوع کے کئی تنوں والے دیگر درختوں، پودوں اور پتھروں  سے الجھتے الجھتے کپڑے اور جوتے یوں پھٹے کہ قابلِ مرمت نہ رہے۔ گرمیوں میں سید پور کے گرد و نواح کے چشموں، آبشاروں پہ سارا سارا دن نہانا، کھانا پینا اور شعر و شاعری تو ہفتہ وار معمول ہوتا تھا۔ اسی طرح ہم کچھ دوست کتابیں دیکھتے ہوئے تھڑوں پہ بیٹھے بیٹھے پوری پوری کتاب یا رسالہ مفت میں پڑھ لیتے تھے اور کتب فروش خاموشی سے دیکھتے رہتے تھے۔ اسی زمانے میں نیف ڈیک سینما بھی نیا نیا بنا تھا جس کے دو ہال تھے۔ بڑے ہال میں اردو فلم چلتی تھی جبکہ چھوٹے ہال میں کسی نہ کسی ملک کی فیچر اور دستاویزی فلموں کا ہفتہ چل رہا ہوتا تھا جس میں داخلہ مفت ہوتا تھا۔ عام طور پر روس، جرمنی اور مشرقی یورپی ممالک کے فلمی میلے منعقد ہوتے تھے۔ نیف ڈیک سنیما پہ نئی نئی کافی شاپ کھلی تو ہم دفتر کے کچھ دوست جب زیادہ عیاشی کا موڈ ہوتا تو وہاں چلے جاتے تھے۔ دس روپے کا کپ ہوتا تھا لیکن اس دَور کے حساب سے بڑا مہنگا لگتا تھا۔ مہینے کے آخری دنوں میں جیب خالی ہوتی تھیں اور تنخواہ ملنے تک چائے سموسہ تک کی عیاشی موقوف ہو جاتی تھی۔

میں جب نیا نیا اسلام آباد آیا تو اسی زمانے میں پہلی بار حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی میں غزل تنقید کے لیے پیش کی۔ اجلاس کی صدارت احمد فراز کر رہے تھے۔ میں نے ابھی مطلع کا ایک مصرعہ “جب پرندہ سفر پہ نکلا تھا” ہی پڑھا تو انھوں نے برا سا منہ بنایا۔ ظاہر ہے کہ مصرعہ ان کے مزاج و معیار کا نہیں تھا اور پھر میں تھا بھی نوجوان۔ جب میں نے دوسرا شعر پڑھا

جس جگہ وہ بچھڑ گیا مجھ سے
راستہ ۔۔۔۔۔۔۔ راستے سے ملتا تھا

تو انہوں نے ایک بار پھر مجھے گھور کر دیکھا۔ میری غزل میں پیکر تراشی اور مظاہر اور کیفیات کی تجسیم کی گئی تھی جبکہ وہ رومانی حقیقت پسند تھے اور ممتاز و معروف نام، ان کا تفوق و تفاخر بجا تھا۔ میں نے باقی غزل ان کی طرف دیکھے بغیر جلدی جلدی پڑھ دی۔ لیکن وہاں موجود شاعروں ادیبوں نے غزل پر خوب گفتگو کی جن میں رشید امجد، مظہر الاسلام، سمیع آہوجہ اور انوار فطرت کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ اگلے ہفتے کے روزنامہ “جنگ” کے ادبی صفحے میں نمایاں طور پر اس اجلاس کی کارروائی شائع ہوئی۔ تاہم میرا مزاج شروع ہی سے مجلسی نہیں تھا اس لیے کئی سال اسلام آباد قیام کے باوجود میں چند بار ہی حلقے میں گیا ہوں گا۔

اُس دور میں اخبارات کے ادبی صفحے بلیک اینڈ وائٹ لیکن بڑے معیاری ہوتے تھے۔ ہر ہفتے باقاعدہ ان کا انتطار رہتا تھا اور ان میں چھپنا اہم سمجھا جاتا تھا۔ ادبی صفحوں کے انچارج بھی ممتاز ادیب یا شاعر ہوتے تھے جو اپنی پروجیکشن کی بجائے اچھی تخلیقات کو ترجیح دیتے تھے اور صفحہ بنانے میں بڑی محنت کرتے تھے۔ اب شاید کسی کو یقین نہ آئے کہ روزنامہ “جنگ” راولپنڈی کا ادبی ایڈیشن دو صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ معروف افسانہ نگار مظہر الاسلام اس کے ایڈیٹر تھے۔ میری نظمیں جنگ کے ادبی صفحے میں بڑے اہتمام سے باکس کے اندر سنگل کلر میں شائع ہوتی تھیں۔ فوجی حکومت تھی اس لیے اخبارات پر سینسر شپ عائد تھی۔ ریڈیو، ٹی وی پر صلیب، قاتل وغیرہ جیسے الفاظ بولنے پر پابندی تھی۔ اس ادبی گھٹن میں ادیبوں شاعروں نے علامتی اسلوب اپنا لیا تھا۔

انہی دنوں میں نے ایک نظم “جنگ” راولپندی کے ادبی صفحے کے لیے دی۔ صفحہ شائع ہونے سے ایک روز قبل مجھے بتایا گیا کہ نظم لگ گئی ہے۔ اگلے روز اخبار دیکھا تو نظم کہیں نظر نہ آئی۔ البتہ صفحے میں نمایاں جگہ پر اس وقت کی ایک فلمی اداکارہ بازغہ کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ بازغہ غالباً وہ اداکارہ تھیں جنھوں نے بعد میں گلوکار عطا اللہ عیسیٰ خیلوی سے شادی کر لی اور اداکاری چھوڑ دی۔ ایک ادبی صفحے پر فلمی اداکارہ کی تصویر دیکھ کر حیرت ہوئی۔ تجسس دور کرنے کے لیے اخبار والوں سے پوچھنے پر پتا چلا کہ جب کاپی پرنٹنگ کے لیے جانے والی تھی تو نظم کے ایک دو لفظوں پر اعتراض ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ادبی ایڈیشن کا انچارج موجود تھا نہ شاعر سے رابطہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ کاپی پیسٹر سے کہا گیا کہ اس نظم کی جگہ کوئی اور چیز لگا دو۔ اسے جلدی میں جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اداکاراؤں کی تصاویر میں سے بازغہ کی تصویر جو اس جگہ پر فٹ آئی لگا دی۔ مجھے اب یاد نہیں کہ کون سی نظم تھی، شاید “اپنے قاتل کے لیے ایک نظم” تھی اور اسی عنوان پر فوجی حاکمہ کا اعتراض ہو سکتا تھا۔ یہ ایک عام سا واقعہ تھا لیکن اس سے لفظ کی اخلاقی، سیاسی، سماجی اور ادبی اہمیت و طاقت اور مقتدر طبقے کے دبے دبے خوف کا احساس ہوتا تھا۔ اور اس پر ہنسی بھی آئی تھی۔ اب کیا ذرائع ابلاغ اور کیا شعر و ادب، وہ ارزانی و فراوانی الفاظ ہے کہ قدریں بھی گڈ مڈ ہو گئی ہیں۔ قاتل و مقتول کے معانی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہنسیں یا روئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments