ڈھیٹ لڑکیاں اور نامعلوم افراد


‘کراچی شہر میں ایک جنونی مرد عورتوں پہ تیز دھارے آلے سے وار کرتا پھر رہا ہے۔ ڈیڑھ دو ہفتے میں بارہ سے زیادہ خواتین کو زخمی کیا گیا ہے۔ مجرم تاحال آزاد۔’

یہ خبر پڑھ کے مجھے ذرا بھی ڈر نہ لگا میں اس قدر ڈر چکی ہوں کہ اس پیمانے میں اب مزید ڈر کی گنجائش ہی نہیں۔ بچپن ہی سے ہر مرد رشتے دار، ملازم،د کاندار، استاد، ہم جماعت، کزن، بھائی، بہنوئی کی آ نکھ میں نفرت اور مجرمانہ چمک، ہمارے معاشرے کی ہر عورت دیکھتی آئی ہے۔

بچی کے پیدا ہوتے ہی باپ کو ڈرایا جاتا ہے، ’بیٹی والے ہو!‘ اس گالی کو سن کے باپ کے کندھے جھک جاتے ہیں اور ماں جیتے جی مر جاتی ہے۔ گود سے لے کے سکول جانے کی عمر تک ماں بچی پہ چیل کی نظر رکھتی ہے اور چپکے چپکے سرگوشیوں میں ڈرائے جاتی ہے کہ بٹو، کوئی زیادہ قریب آئے، ٹافی کے بہانے بلائے، چھونے کی کوشش کرے تو پا س مت جانا، انکل بہت گندے ہوتے ہیں۔‘

بچیاں حیرت سے جھوٹی ماں کو دیکھتی رہتی ہیں، مگر جوں ہی گھر سے نکل کے سکول جانے کی عمر آتی ہے انھیں پتہ چل جاتا ہے کہ ماں جھوٹی نہیں تھی۔

گلی کے نکڑ پہ حقہ گڑگڑاتے جگت دادا جی، وین والے انکل، ٹک شاپ والے بھائی جی، ہائی جین والے سر، یو نیفارم کی دکان والے شاہ جی، سب کے سب، بے خبر معصوم بچیوں کو ہراساں کرنے میں یکساں مشغول۔

ڈھیٹ لڑکیاں ذرا بڑی ہو جاتی ہیں تو گلی محلے کے تازہ تازہ جوان ہوئے لونڈے، خالہ زاد، چچا زاد، یہ زاد، وہ زاد، خوفزدہ کر دینے والے انداز میں اظہارِ عشق کو پھڑکتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے بچنے کو کچی پکی عمروں میں گھبرا کے ‘ایک ذرا کم ضرر بھیڑئیے’ سے شادی کو ہاں کر دی جاتی ہے۔ تب یہ راز کھلتا ہے کہ جس معاشی سکھ اور چار دیواری کے تحفظ کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا تھا وہ تو یہاں بھی نہیں ہے۔

چیختا چلاتا، مارتا پیٹتا،دھاڑتا، ہر وقت کردار کی صفائی کے ثبوت مانگتا شوہر، بدن ٹٹولتی نظروں والے دیور، جیٹھ، بہانے بہانے سے ٹانگیں دبوانے والا سسر اور غسل خانے کی جھریوں سے جھانکنے والے نندوئی اس چار دیواری میں بھی عفریتوں کی طرح منڈلا رہے ہوتے ہیں۔

گھر کے باہر اشیائے ضرورت لینے نکلتی ہیں تو دکانوں پہ، گلیوں بازاروں میں فحش گانے گاتے، کھلے عام جسم کے مختلف حصے کھجاتے، درّانہ موتتے مرد، جن کی زبان پہ ماں بہن کی گالی اور جسم میں عورت کے خلاف جرم کاجذبہ مسلسل موجزن۔

ذرا مزید ڈھیٹ لڑکیاں جو کسی نہ کسی طرح اپنا معاشی بوجھ خود ڈھونے کی سعی کر لیتی ہیں ان کے سامنے ان مجرموں کی سب سے بھیانک قسم آ تی ہے۔ رال بہاتے افسر، چپکتی جنسی تجاویز سے بھری آ نکھوں والے دفتری ساتھی، اور ان کی اخلاقیات پہ نظر رکھنے والا دفتری سٹاف۔

سب سے ڈھیٹ خواتین وہ ہیں جو زندگی کے کسی نہ کسی میدان میں کسی طور شہرت حاصل کر لیتی ہیں۔ ان کے صبر کی داد نہ دینا بہت ناانصافی ہو گی۔ سب سے پہلے تو یہ مان لیا جاتا ہے کہ یہ بد کار ہیں۔ شریف ہوتیں تو گلی کے چاچے سے ہی نہ بچ پاتیں۔ اس کے بعد ہر کانے ٹیڑھے کو یہ خوش فہمی لاحق ہو جاتی ہے کہ ان خواتین کا اس دنیا میں آنے اور یہاں تک پہنچنے کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے ان کی دل بستگی۔ پہاڑ سی زندگی، محنت کر کر کے اس لیے گزاری کہ ایک روز ان کی کیچ بھری چندھی آنکھوں میں محبت نظر آ جائے۔

عورت تو ذہین ہو ہی نہیں سکتی اس لیے وہ جو کچھ کرتی ہے یا تو وہ کسی کی مہربانی کا نتیجہ ہے یا کوئی مرد ہی اس کے حصے کا کام کر رہا ہے۔ اداکاراؤں پہ کیے جانے والے حملے بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ کامیاب عورت پہ اٹھنے والے خنجر تو ایسے زہر میں بجھے ہوتے ہیں کہ اگر واقعی انسان کی روح کو دیکھا جا سکتا ہے تو ان عورتوں کی روح نیلو نیل نظر آئے گی۔

ایسے معاشرے میں اگر ایک شخص کھلے عام خنجر لے کے عورتوں پہ پل پڑا ہے تو حیرت کیسی؟ اسے تلاش کرنا ہے تو ازراہِ کرم سی سی ٹی وی نہیں آئینہ دیکھیں۔ پھر بھی نہ ملے تو ڈھونڈنے کی زحمت نہ کریں، وہ نہیں ملنے والا۔ اس کی فائل پہ نامعلوم فرد لکھ کر داخلِ دفتر کر دیجیے،خدا جزائے خیر دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).