امریکی سازش اور ختم نبوت


ہارلے اسٹریٹ سے ٹیکسی میں بیٹھا، بائیس نمبر چونگی کو جانے والی سڑک کی خستہ حالی پر ڈرائیور نے تبصرہ کیا، کہ مشرف دور میں جو سڑکیں بنی تھیں، وہ بہت مضبوط تھیں؛ اس کے بعد کی سیاسی حکومتیں لوٹ مار میں لگی ہیں۔ میرا علم ٹیکسی ڈرائیور جتنا نہیں ہے، اس لیے بات بدلنے کی کوشش کی، لیکن ڈرائیور جنرل پرویز مشرف کے سنہرے دور کے ناسٹیلجیا سے نکل کر نہ دیا۔ راول پنڈی شہر کا مزاج جیسا کبھی چھوڑ کر گیا تھا، برسوں بیت گئے ویسا ہی پایا۔ راول پنڈی میں کیپٹن ریٹائرڈ ڈاکٹر، میجر ریٹائرڈ ڈاکٹر کلینک کھول لے تو مریضوں کو لگتا ہے، یہی اصلی اور قدیمی دواخانہ ہے، چلو یہیں سے دوا لیتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے میں بیمار کم کم پڑتا ہوں، اور نزلہ زکام کا علاج تو گھریلو ٹوٹکوں سے ہوجاتا ہے؛ اس لیے یقین سے کچھ کہ نہیں سکتا، کون اتائی، کون مسیحا ہے۔

بائیس نمبر چونگی سے سیدھا صدر کو جانے والی سڑک کے دائیں بائیں چھاونی کے دفاتر ہیں، مشرف دور ہی میں اس سڑک کو عوام الناس کے لیے بند کر دیا گیا تھا، جیسے بہت سے مقامات پر ہوا؛ کیوں کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوچکا تھا؛ سو راستوں کے بیچ میں دیواریں کھڑی کردی گئیں۔ بائیس نمبر چونگی سے آدڑے والی طرف مڑیں اس جانب کو ایک دو رویہ سڑک نکالی گئی، اب وہاں سے گھوم کر صدر بازار جایا جاتا ہے؛ یہی سڑک ایم ایچ اسپتال سے ہوتی ہوئی پشاور روڈ کو چھوتی ہے، اور آگے جا کر بائیں ہاتھ مڑ جائیں تو رینج روڈ کا آغاز ہوتا ہے۔ رینج روڈ تک پہنچتے ٹیکسی ڈرائیور نے انکشاف کیا کہ نواز شریف نے ختم نبوت کی شق ختم کرنے کے لیے امریکا سے سودے بازی کرلی تھی، لیکن یہ سازش چھپی نہ رہ سکی۔

مجھے بالکل حیرانی نہیں ہوئی کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے یہ عالمی سازش بھانپ لی تھی۔ کئی بار یہود و ہنود کی سازش کی خبر، مجھے محلے کے سبزی والے سے مل جاتی ہے۔ ذکر اسمبلی میں ہونے والی ترمیم کا تھا، لیکن اس میں ختم نبوت کا حوالہ تھا؛ چناں چہ حساس موضوع پر کوئی رائے دینے سے پہلے مجھے ہزار بار سوچنا تھا، کہ کیسے لفظوں کا انتخاب کروں، جو ڈرائیور کی نظر میں میرے ایمان کو مشکوک نہ کردیں؛ مذہبی معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر بات کرتے، خدا سے زیادہ تو اس کے بندوں سے ڈر لگتا ہے۔ جب تک میں محتاط الفاظ کا انتخاب کرتا، اس وقفے میں ڈرائیور سے پوچھ بیٹھا، یہ ٹیکسی آپ کی ہے؟ ڈرائیور نے ایک سرد آہ بھری؛ میں یہ سمجھا وہ میری بے حسی پر ماتم کررہا ہے، کہ میں اس کی بات کو اہمیت نہیں دے رہا؛ جب وہ بولا تو میری غلط فہمی دور ہوئی۔ ”میرا ٹرانسپورٹ کا بزنس تھا، پنڈی سے لاہور تک میری اپنی بسیں چلتی تھیں، وہ لوگ جو کبھی مجھ سے کم تر تھے، وہ اب مجھ سے امیر ہوچکے ہیں، اور میں یہ جو ٹیکسی چلا رہا ہوں، یہ بھی میری نہیں ہے۔ “

سفر کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے، کہ آپ نت نئے کرداروں سے متعارف ہوتے ہیں؛ بڑوں کا فرمایا ہے، جتنے کردار ہیں اتنی کہانیاں ہوتی ہیں؛ کہانی میرا شعبہ ہے، کہانی سے مجھے دل چسپی رہی ہے۔ میں نے مزید کریدا تو اس نے بتایا، وہ جوے میں اپنا سب کچھ ہارتا چلا گیا۔ اس نے کرکٹ میچ سے لے کر، گھوڑوں تک ہر قسم کے کھیل پر داؤ لگائے ہیں۔ بزرگوں کا فرمان ہے، کہ جوے کی لت اور طوائف کے دام میں آنے والا چاہے بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، ایک دن بھکاری بن کے رہتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور کا کہنا تھا، کہ جوے کے سبب اس کا سب کچھ بک گیا، بس ایک اس کا آبائی مکان تھا، جو بکنے سے بچ رہا، ورنہ اس کے بچے در در خوار ہوجاتے۔ ایسے میں وہ ٹیکسی چلا کر دو سے تین ہزار دیہاڑی کماتا ہے؛ اس کے بقول جس شخص نے لاکھوں کروڑوں دیکھے ہوں، اس کے لیے دو تین ہزار کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اپنی داستان سنانے کے بعد اس نے اللہ تعالی کا ازحد شکر ادا کیا، کہ اس معمولی رقم میں بھی اس کا گزارا ہوجاتا ہے۔ میں نے سوال کیا، کیا آپ نے جوا چھوڑ دیا ہے یا ابھی کھیلتے ہیں؟ اس کے چہرے پر جھینپو سی مسکان پھیل گئی۔ ”کھیلتا ہوں۔ آج بھی کچھ پیسے جمع ہوجائیں تو میں جوا ہی کھیلنے جاوں گا۔ “ اس نے لگی لپٹی بغیر کہا۔

میری منزل آگئی تھی، اس کو کرایہ ادا کیا اور اپنی راہ لی۔ دل میں بہت کچھ تھا، پر کہہ نہ سکا۔ کہنا یہ تھا کہ ”جوا کھیلنا نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات کے برعکس ہے۔ “ وہ حیران ہوتا، تو میں یہ بتا کر اس کی حیرانی دور کرتا، ”ابھی آپ ختم نبوت کی شق پر حکمرانوں کو برا بھلا کہ رہے تھے، اور اس کا سبب ان کو دین سے دوری بتارہے تھے، آپ دین میں کتنے ہیں، آپ نے کبھی سوچا؟ “ یہ سن کے اس کے چہرے پر تناؤ پیدا ہوجاتا، اور وہ کھنچے لہجے میں جواب دیتا، ”ختم نبوت پر جان بھی قربان ہے۔ “ میں کہتا، ”بالکل! آپ ختم نبوت پر جان بھی قربان کیجیے گا، لیکن اس سے پہلے خاتم الانبیا کے دین میں جینا بھی سیکھ لیں۔ “

میں یہ سب نہ کہ سکا؛ کیوں کہ میں تو خود اس سے بڑا گنہ گار ہوں؛ میں نے کب صراط مستقیم کو پایا ہے، جو اسے ہدایت کرتا! ایسی کام کی باتیں بہت سے دلوں میں رہ جاتی ہیں، ایسی کام کی باتیں بہت سے سمجھانا چاہتے ہیں، اور جو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ مطعون بھی ہوتے ہیں؛ افسوس! یہ باتیں کوئی نہیں سمجھنا چاہتا! کوئی بھی تو نہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran