عورت اور ادب


تقریباً دو یا تین سو قبل مسیح لڑی گئی مہا بھارت کا سبب ایک گل اندام دروپدی تھی، دروپدی ریاست پنجال(موجودہ بھون ضلع چکوال) کے فرمانروا شگل دروپد کی بیٹی تھی۔ کہتے ہیں کہ دروپدی اس قدر حسین تھی کہ دیوتاؤں کی سی طاقت رکھنے والے پانڈوؤں اور کورؤںں کو بھی لے ڈوبی۔ دروپدی کے شہر کو بعد میں سکندر اعظم نے برباد کیا۔ دروپدی کے حسن کا شہرہ ہندوستان بھر کے دیگر راجاؤں کی طرح کورو اور پانڈوبھائیوں کو بھی پنجال کھینچ لایا۔ جہاں پر سوئمبر کی رسم میں جیت کر دروپدی کو حاصل کیا جاسکتا تھا۔ پانڈو سورماؤں میں ارجن نے یہ مقابلہ جیت کر دروپدی کو جیت لیا۔ راجہ پنجال نے دروپدی اور کٹاس راج کا علاقہ پانڈوؤں کے سپرد کر دیا ،کورومگر اس تاک میں تھے کہ ان سے نہ صرف ان کا علاقہ بلکہ زہرہ جبیں دروپدی کو بھی حاصل کیاجائے۔ لکشمی دیوی کے تہوار پر پانڈوؤں میں سے ایک بھائی یدھشڑ جوئے میں نہ صرف حکومت اور مال و زر بلکہ پانچوں بھائیوں کی مشترکہ بیوی دروپدی کو بھی ہار گیا۔ جیتنے والے دریودھن اور دیگر بھائیوں نے دروپدی کو سرعام برہنہ کرنا چاہا لیکن دھرت راشڑ نے بات پانڈوؤں کی بارہ سالہ بن باس پر ختم کرا دی۔ یوں پانڈو یہ بن باس کاٹنے کٹاس راج آ گئے۔ بن باس ختم ہوا تو پانڈو واپس اپنی آدھی حکومت مانگنے ہستنا پور(ضلع میرٹھ) انڈیا گئے۔ پھر کوروراجہ دریودھن کی وعدہ خلافی اور دروپدی کی پھانس نے اٹھارہ روزہ مہا بھارت کی شروعات کر دی جو کوروؤں کی عبرتناک شکست پر ہی ختم ہوئی۔ مہابھارت تقریباً ایک لاکھ رزمیہ اشعار پر مشتمل نظم ہے۔ یہ قصہ وہاں نظم ہے


ہیلن آتش گیر حسن کی حامل تھی۔ قدیم یونان کے شہر ٹرائے میں ہیلن پر تسلط کے لیے سات سال تک جنگ چھڑی رہی۔ معلوم نہیں نابینا شاعر ہومر کا حسنِ تخیل ہے یا ہیلن واقعی اس قدر حسین تھی کہ یونانی دیوتا اگر خود اسے دیکھ لیتے تو شاید صدیوں تک جنگ کرتے۔ جمال کے قصے ہندوستان اور یونان میں ہی نہیں عرب کی الف لیلویٰ داستانوں میں بھی پُر ہیں۔
ہارون الرشید کی بہن عباسیہ جسے لعل شب چراغ( وہ موتی جس کی مدد سے اندھیرے میں دیکھا جا سکے) کہا جاتا تھا کو حاصل کرنے کے لیے جعفر برمکی نے اپنی جان داؤ پر لگائی اور دے دی۔
ابوبکر والبی نجد کے آفتاب لیلیٰ سے ملاقات کے بارے لکھتا ہے کہ ’’اس عورت نے اپنے اور میرے درمیان حائل پردہ اٹھا دیا، بس پھر کیا تھا ایسے لگا جیسے حسن و جمال کا آفتاب طلوع ہو گیا ہو، میری آنکھوں نے اس سے بڑھ کر خوبصورت شکل نہ دیکھی تھی‘‘۔
غزال آنکھوں والی ہندوستانی دوشیزائیں ہوں، نیلی آنکھوں والی یونانی حسینائیں ہوں یا پھر نجد کی لیلائیں دنیا بھر کا قدیم و جدید ادب عورت کے سحرکے گرد گھومتا ہے۔ اس خوبصورت تخلیق کے بعد بھی فسوں طرازوں نے جل پری،Sphinx(بالائی دھڑ عورت کا باقی جسم شیرنی کا) اور شاہ پری( بدیع الجمال) جیسے کردار تخلیق کرنے ضروری سمجھے یوں ان حضرات نے عورت بارے تخیل کی حد کو لامحدود کر دیا۔ رام جی کی گوپیاں ہوں، گامش و گلگیش کا قصہ ہو، قلوپطرہ ہو یا پھر انارکلی جمال گویا تصورِ زن سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔


قدیم شاستروں میں تو عورت کی اقسام پدمنی، سنکھنی اور چترنی وغیرہ کی صورت میں بھی لکھ چھوڑی گئیں، اجنتا کے غاروں میں سنگتراشوں کی زندگیاں بیت گئیں تب جا کر وہ کہیں اس قابل ہوئے کہ عورت سے ملاپ کے سینکڑوں آسن پتھروں میں ابھار سکیں، کالیداس کی شکنتلا ہو یا سعادت حسن منٹو کی جانکی تخلیق کو سراپا دینے کے لیے عورت کا انتخاب ہوا۔ اقبال جیسے زاہد خشک کو بھی تصویر کائنات میں رنگ بھرنے کے لیے وجودِ زن کی ضرورت پڑی تو نرے زاہدان پارسا میاں محمدبخش اور وارث شاہ کو بھی۔ قدیم عرب شاعر امرؤالقیس تو اپنی جنسی معرکوں کو بھی غزل کا رنگ دینے سے نہ چوکتا تھا۔اس طرح پنڈت کوکا رام رام جی نے بھی اپنا سارا ’’ادب ‘‘اسی کے گرد تخلیق کیا تھا کہ عورت سے ہمبستری کب، کیوں،کہاں اور کیسے کرنی ہے، شعرائے کرم تو خیرقدیم ہوں یا پھر جدید اکثر اپنے مضمون کی ہوا اسی کے گرد باندھتے ہیں۔ تنہائی کے سو سال جیسے بڑے ناول بھی جنسی معرکوں سے مبرا نہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ ظاہر ہے عورت کا ٹھرک قدیم اور جدید دور میں بھی عام رہا ہے۔ اگر سب کا نہیں تو زیادہ تر تخلیق کاروں کا ذہنی میلان اسی سمت رہا ہے، انسانی فطرت کا بھی تقاضا ہے کہ وہ ہر حال میں شہوانی حالت سے نکلنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ بعض غیر فطری عوامل سے بھی گریز نہیں کرتا۔ فطری تقاضے اپنی جگہ درست سہی لیکن ہر عمل کی تان وہیں جا کر ٹوٹنا یا اکثر کی ٹوٹنا درست نہیں۔ حتیٰ کہ ادبی تخلیقات کو بھی ۔مندرجہ بالا مثالیں دریا میں سے کوزہ نکالنے کے برابر سمجھیں۔ تخلیق کاروں کے اذہان اس سمت کیوں ڈولتے ہیں اور پھر اس سارے قصے میں عورت ہی کیوں مظلوم رہتی بنتی ہے؟
دروپدی ،قلو پطرہ، انار کلی، عباسیہ، لیلیٰ ہو یا پھر ہیر ہمیشہ وجہ نزع یا مظلوم ٹھہرتی ہے۔ اسے جنسی تشدد سہنا پڑتا ہے اور زہر بھی اسے ہی پینا پڑتا ہے۔ یہ ادب کی دوسری اہم بیماری ہے۔ عورت کو کیا ظلم سہنے اور تسکین بہم پہنچانے کا ہی کردار ادا کرنا ہے؟ کیا آپ کو ہزار ہا سال پہلے اور آج کے ادب میں جمود سا دکھائی نہیں دیتا؟ گھریلو تشدد اور گھورنے کے خلاف تو قانون بنا دئیے گئے ہیں کیا کوئی انسانی حقوق کا علمبردار ادارہ عورت کے ادب میں اس کردار کے خلاف بھی جدوجہد کرے گا؟ اگر ایسا ہوا تو شاید آئندہ ہزاریے تک اسے یہ حقوق بھی مل سکیں۔ سوچیئے کہ اگر ادبی تخلیقات ہزارہا سال سے یہی بات کرتے چلے آئیں کہ عورت مظلوم اور تسکین کا سامان ہے تو پھر دیگر معاشرے سے اس کی جانب کوئی مثبت پیش رفت مشکل نہیں ناممکن دکھائی دیتی ہے کیونکہ ادب اور ادیب اذہان کی پرورش بھی کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).