ایک تحریک کی گمشدگی کا اشتہار


پاکستان مزدور کسان تحریک کے نام سے ایک فعال تحریک 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بہت مشہور ہوا کرتی تھی۔ عرصہ ہوا ہے یہ تحریک گم ہوگئی ہے۔ اگر خود پڑھے تو فوراً گھر آجائے اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا کوئی اور پڑھے تو اس کو گھر بھیج دے صبح کا بھولا شام کو گھر آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے۔ یہ ایک خیالی اشتہار ہے جو ایک عرصے سے میرے ذہن کی سکرین پر نمودار ہوتا ہے۔ میں آنکھیں پھیر لیتا ہوں۔ اس طرح یہ اشتہار مجھ سے آنکھ مچولی کھیلتا رہتا ہے۔ یہ سرد جنگ کا نوحہ اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کا ماتم ہے۔ مظلوم قوموں اور محکوم طبقوں کے لئے سرد جنگ بھی غنیمت تھی۔ سوویت یونین کا سایہ بھی غنیمت تھا۔

اگر افغان خانہ جنگی نہ ہوتی، امریکہ اور سعودی عرب افغانستان میں مداخلت نہ کرتے تو 2017ء میں افغانستان بھی ملائشیا، تھائی لینڈ اور ویت نام کی طرح ایشیا کا ترقی یافتہ صنعتی ملک بن چکا ہوتا۔ پاکستان میں مزدور کسان تحریک ایک طاقتور سیاسی طاقت بن چکی ہوتی اور دنیا میں مسلمانوں کی ساکھ دہشت گرد ہونے کے بجائے مہذب شہری کی حیثیت سے اُجاگر ہوچکی ہوتی۔ یہاں روشن خیال، لبرل اور سیکولر کی جگہ مہذب شہری کی ترکیب استعمال کی گئی۔ اس کا مطلب واضح ہے۔ ایک قوم دہشت گرد نہیں ہوگی تو یقیناً مہذب قوم ہوگی اور اس قوم کے افراد مہذب شہری شمار ہوں گے۔

آخر مزدور کسان تحریک کدھر گئی اُس کو آسمان نے کھالیا یا اُس کو زمین نگل گئی یا وہ ہوا میں کہیں تحلیل ہوگئی؟ میں نے دادو، گھوٹکی، رحیم یارخان، ڈیرہ غازی خان، مردان، صوابی، اور ایبٹ آباد میں احباب سے اس پر گفتگو کی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دوستوں سے ملا، کراچی میں مزدور تحریک سے وابستہ احباب سے تبادلہ خیال کیا۔ سب سے پیاری بات وہ تھی جو ڈاکٹر احسن واگھا نے کہی۔ اُن کا خیال ہے کہ مزدور کسان تحریک کی جڑیں ہمارے وطن کی مٹی میں پیوست ہوتیں تو یہ تحریک کبھی دم نہ توڑتی۔ اس کی جڑیں سرد جنگ میں پیوست تھیں، سرد جنگ ختم ہوگئی تو مزدور کسان تحریک کی جڑیں سوکھ گئیں۔ ان جڑوں کو پانی دینے والا کوئی نہ رہا۔ راجن پور سے لے کر مرغُز صوابی تک مزدور کسان تحریک سے وابستہ دانشوروں نے اپنا قبلہ تبدیل کردیا۔ پہلے ان کا رخ مشرق کی طرف تھا۔ اب اُن کا رُخ مغرب کی طرف ہے انسانی حقوق کے علم برداروں نے اپنا قبلہ تبدیل کیا۔

مزدور اور کسان جیل میں جاتا ہے۔ تو اس کے لئے آواز اُٹھانے والا نہیں ملتا۔ طبقاتی کشمکش کا نام اگر کوئی لیتا ہے تو اس کو ملحد، لادین اور سیکولر ہونے کا طعنہ دے کر خاموش کردیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں مزدور کسان تحریک بائیں بازو کے دانشوروں کی تحریک تھی اس کو معاشرے کے پِسے ہوئے طبقوں کا تعاون حاصل تھا۔ سامراج اور استعمار کے خلاف یہ تحریک سول سوسائیٹی کی توانا اور طاقتور آواز تھی۔ اس آواز کو دبانے کے لئے سردجنگ کے بعد دو کامیاب حربے آزمائے گئے۔ ملک کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو افغان خانہ جنگی کا ایندھن بنایا گیا۔ نوجوانوں کو بھرتی کرکے دہشت گرد گروہوں میں داخل کیا گیا۔ نوعمر لڑکوں کے ہاتھوں میں اسلحہ آیا، بے پناہ دولت آگئی۔ بڑی بڑی گاڑیاں مل گئیں۔ عربوں کی حمایت مل گئی۔ مجاہد کا لقب مل گیا۔ جنت کی بشارت مل گئی۔ ایسے حالات میں کسی کو کیا پڑی ہے کہ مشال خان کی طرح غریبوں کے حقوق کی بات کرکے وحشی درندوں کے ہاتھوں اپنے آپ کو سنگسار کرائے۔

پہلے معاشرتی طبقوں کی فطری تقسیم تین طرح کی تھی غریب، متوسط اور امیر۔ اس تقسیم کو جاگیردار، کسان، کارخانہ دار، مزدور اور سفید پوش کے ناموں سے پہچانا جاتا تھا۔ افغان خانہ جنگی کےلئے جو حکمت عملی بنائی گئی اُس میں واشنگٹن والوں نے مزدور کسان اور سفید پوش طبقوں کو ختم کر دیا۔ جاگیردار، کارخانہ دار اور سہولت کار سامنے آگئے۔ چار ایجنسیاں باہر سے آگئیں 13 مذہبی گروہ بنا لئے گئے۔ غریب، مزدور اور کسان کو ان گروہوں میں تقسیم کرکے اسلحہ ان کے ہاتھوں میں دیدیا گیا۔ غریب طبقے کا مفاد گول کردیا گیا۔ مزدور اور کسان کے مفادات کو کچل دیا گیا۔ 8 لسانی اور قبائلی لشکر تیارکیے گئے۔ ان کو اسلحہ دیدیا گیا۔ بے پناہ دولت دیدی گئی۔ بلوچستان اور سندھ سے لے کر پنجاب اور خیبر پختونخواہ تک غریب اور متوسط طبقے کی آواز کو منظم طریقے سے دبا دیا گیا۔ بائیں بازو کی سیاست کو دفن کردیا گیا۔ اب واشنگٹن، نئی دہلی، کابل اور ریاض سے سب کچھ کنٹرول ہورہا ہے۔ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست اور مزدور کسان تحریک غریبوں اور پسے ہوئے طبقوں کے لئے غنیمت تھی۔ اب تلاش گمشدہ کا اشتہار ہی مسئلے کا حل ہے۔
آئے عُشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب ڈھونڈ اُنہیں چراغِ رخ زیبا لیکر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).