منٹو اور خدا


منٹو میاں، ہم تو ٹھہرے جج، ہمارا تو کام ہی تم جیسے ادبی تخریب کاروں کی گوشمالی کرنا ہے۔
تم کٹہرے میں، ہم کرسی پر، تو ظاہر ہے ہماری تمہاری دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے۔ کوئی ملزم منصف کا دوست کیسے ہوسکتا ہے۔ لیکن تم نے تو اپنے قبیلے کے لوگوں کو بھی ناراض کیا۔ فلم پروڈیوسرز بھی تم سے خفا، ادبی نقاد تمہارے خلاف، رُجعت پسند تمہارے دشمن، ترقی پسند تم سے بیزار۔

اور تو اور تمہیں لاہور میں نوکری دینے والے مدیر مولانا چراغ حسن حسرت کے بارے میں تم نے اپنا مشہور مضمون ان کی موجودگی میں پڑھا تو انہوں نے فرمایا یہ منٹو کیا بکواس کر رہا ہے۔ اسے چپ کراؤ۔
کیا زندگی میں اتنے دشمن کافی نہیں تھے کہ اپنے خالق سے بھی مقابلہ کرنے بیٹھ گئے وہ کیا کہہ گئے تھے کہ میرے کتبے پر لکھا جائے کہ یہاں منٹو دفن ہے اور ابھی تک سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا۔

وہ تو بھلا ہو تمہارے لواحقین کا جنہوں نے تمہاری بات نہ مانی ورنہ تمہاری قبر کا کتبہ بھی کسی جج کے کٹہرے میں پایا جاتا۔ انہوں نے اچھا کیا کہ غالب کے مصرعے کا حوالہ دیا کہ یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں تھا۔

غالب کے بہت سارے فوائد ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ باقی لوگوں کی طرح ججوں کو بھی سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔
منٹو میاں سچی بات یہ ہے کہ تمہاری تحریروں سے ہمارے نئے ملک کو ہی نہیں بلکہ ہمارا قدیم مذہب بھی خطرے میں پڑجاتا تھا۔ تمہارے جانے کے بعد تو ہمارا ایمان ہر وقت خطرے میں رہتا ہے۔ کیا کریں معاملات ہی اتنے نازک ہیں۔

تم تو لکھتے تھے، تمہاری کہانیاں لوگ پڑھتے تھے اس لیے ان کا ایمان خطرے میں پڑتا تھا۔ اب تو ہمارے پاس ایسے ایسے کیس آتے ہیں کہ تمہاری کہانیاں بچوں کی الف لیلیٰ لگتی ہیں۔
بلقیس نامی ایک گنوار عورت ہے نہ پڑھ سکتی ہے نہ لکھ سکتی ہے کھیتوں میں دوسری عورتوں سے جھگڑا ہوا پتہ نہیں کیا کہ بیٹھی، سالوں سے کال کوٹھڑی میں بند ہے۔ اب ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ اس نے کیا کیا تھا۔ معلوم کریں گے تو ہم بھی اس جرم کے مرتکب ہوں گے جو اس نے کیا تھا۔ اب اس نے کس شانِ کریمی میں کیا گستاخی کی تھی کچھ پتہ نہیں۔ اب دوسروں کے گناہوں کو ثابت کرتے کرتے خود تو گناہ گار نہیں بن سکتے۔ اس لیے بلقیس کے لیے بھی اور ملک خداداد کے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ وہ کال کوٹھڑی میں ہی بند رہے۔

اب بتاؤ کون ہو گا منٹو جو یہ کہانی لکھ پائے گا۔ شکر کرو جوانی میں اس ذلت کی زندگی سے جان چھوٹی۔ امید ہے اب حوضِ کوثر کے کنارے جی بھر کے پی رہے ہو گے اور اپنے خالق کے ساتھ وہی پرانی بحث چھیڑ کر بیٹھے ہوگے کہ بڑا افسانہ نگار کون ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).