مذہب کے ٹھیکیدار اور وزیر داخلہ کی مجبوری


وزیر داخلہ احسن اقبال نے کل قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں فتوے جاری کرنے کی فیکٹریاں بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کرنے کو ریاست کا استحقاق قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے ’’ حب اللہ اور حب رسول کسی کی فرنچائز نہیں ہے۔ کسی کے پاس یہ ٹھیکہ نہیں ہے کہ اس سے سرٹیفکیٹ نہ لیا تو تعلق ٹوٹ جائے گا ‘‘۔ وزیر داخلہ نے مذہبی جذبات کی بنیاد پر سیاست کو گھناؤنا جرم بھی قرار دیا۔ دو روز پہلے رینجرز سے پنجہ آزمائی کے بعد اب احسن اقبال ملک کے مختلف فرقوں سے نبرد آزما ہونے کا اعلان کر رہے ہیں لیکن کیا وہ یہ بتا سکیں گے کہ ان کی حکومت کس حد تک اس موقف پر قائم رہ سکتی ہے۔ اور کسی بھی مذہبی گروہ کی حمایت کےلئے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کرنے کا حوصلہ کرتی ہے۔ ملک کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کی سیاست صرف بیان بازی کی حد تک ہے۔ جب عملی اقدامات کا وقت آتا ہے تو یہ صرف سمجھوتوں اور سیاسی ضرورتوں کے مطابق کئے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال مولانا فضل الرحمان کی مسلسل حکومت میں موجودگی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) متوازن سوچ، سیکرلر معاشرہ اور مذہبی رہنماؤں کو سیاسی ہتھکنڈے سے پرے رکھنے کے ہر اس اصول کے خلاف ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے سننے میں آتا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ باتیں سہانی اور ضروری ہونے کے باوجود ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیاد پر کوئی بیانیہ استوار نہیں ہو سکا ہے۔ قومی ایکشن پلان کا ذکر اکثر سننے میں آتا ہے۔ حتیٰ کہ فوج کی قیادت بھی یہ اشارے دیتی رہتی ہے کہ اس نے تو فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیئے ہیں لیکن حکومت قومی ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے دہشت گردی اور انتہا پسندی پر مکمل طور سے قابو نہیں پایا جا سکا۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں قابل ذکر کمی ہوئی ہے گویا فوج کی طرف سے آپریشن ضرب عضب، ردالفساد اور خیبر آپریشنز جیسے اقدامات کا کچھ اثر تو بہرحال ہوا ہے۔ اس کے باوجود جب ہر مختصر وقفے کے بعد دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے یا دہشت گردی کرنے والوں کا کوئی گروہ پکڑا جاتا ہے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دو سال قبل قومی ایکشن پلان کے نام سے ملک میں مذہبی منافرت، فرقہ واریت، تقسیم، الزام تراشی اور فتویٰ بازی کے خلاف اقدامات کرنے کا جو عہد کیا گیا تھا، اس پر عمل نہیں ہو سکا ہے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اس حوالے سے سامنے آنے والے سوالوں پر بپھر جاتے تھے اور اب احسن اقبال بھی انہی پامال باتوں کو دہرا رہے ہیں۔ حکومت کے عہدیدار جو باتیں کرتے ہیں، ان پر عملدرآمد دکھائی نہیں دیتا۔ نہ ملک میں مذہبی شدت پسندی کے خلاف بیانیہ استوار کیا جا سکا ہے اور نہ ہی حکومت مدرسوں کے نصاب، انتظام اور مالی معاملات کی نگرانی کرنے کا کوئی طریقہ وضع کر سکی ہے۔ جب بھی اس حوالے سے کوئی آواز بلند ہوتی ہے اور حکومت کا کوئی وزیر عملی اقدام کی بات کرتا ہے تو سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے قریب ترین حلیف مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھی پوری سیاسی قوت کے ساتھ میدان میں نکل آتے ہیں اور پھر صورتحال جوں کی توں رہتی ہے۔

سچ یہ ہے کہ ملک میں صرف مذہبی عقائد کو بنیاد بنا کر ہی سیاست کی جا رہی ہے اور حکمران پارٹی بھی اس میں بقدر ضرورت اور صورتحال کے مطابق حصہ ڈالنے سے گریز نہیں کرتی۔ احسن اقبال کو جان لینا ہوگا کہ جب تک سیاسی راستہ ہموار کرنے کےلئے مذہبی عناصر سے سودے بازی کا راستہ ہموار ہوتا رہے گا کوئی حکومت بھی ملک میں ایک ایسا متوازن معاشرہ تشکیل دینے میں کردار ادا نہیں کر سکے گی جہاں مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر تعصب اور ظلم و تشدد کا راستہ مسدود کیا جا سکے۔ ستم ظریفی ہے کہ انتخابات میں عوام نے ہمیشہ مذہبی عناصر کو شکست سے دوچار کیا ہے لیکن ووٹ لے کر حکومت بنانے والے سیاستدانوں نے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور اقتدار برقرار رکھنے کےلئے ہمیشہ ان ہی شکست خوردہ مذہبی عناصر سے تعاون بھی حاصل کیا اور ان کی باتوں کو تسلیم بھی کیا۔ یعنی جو ایجنڈا ملک کے مختلف مذہبی گروہ براہ راست عوام کو فروخت کرنے اور اس کی بنیاد پر ان کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اسے قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں چند نشستوں کی وجہ سے بھاری اکثریت حاصل کرنے والی پارٹیوں سے منوانے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔

یہ سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے شروع ہوا جنہوں نے مذہبی گرویوں کے دباؤ میں جمعہ کی تعطیل، شراب پر پابندی اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے کئے تھے اور اب تک جاری ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی انتخابی ترمیمی قانون میں ختم نبوت کے حلف نامہ کے سوال پر جو تنازعہ کھڑا ہوا اور مسلم لیگ (ن) نے اس پر جس طرح سیاسی قلابازی کھائی، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بعض معاملات کو سیاسی پارٹیوں کی کمزوریوں کی وجہ سے کس قدر حساس اور ’’قابل فروخت‘‘ بنا دیا گیا ہے کہ اس پر حکمران اکثریتی جماعت بھی واضح سیاسی موقف اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی۔ حتیٰ کہ پاک فوج کے جو ترجمان وزیر داخلہ کی طرف سے جوڈیشل کمپلیکس میں رینجرز کی زیادتی کو تو ان کی اعلیٰ ترین کارکردگی قرار دے رہے تھے، وہ بھی ملک کے منہ زور مذہبی گروہوں کی خوشنودی کےلئے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتے تھے کہ فوج ’’ختم نبوت‘‘ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ جب ملک کے سیاستدان اور فوج مذہبی عناصر کے سامنے جھکنے پر راضی ہوں گے تو یہ مذہبی لیڈر کیوں کر انتہا پسندی کے خاتمہ میں حکومت کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہوں گے۔

وزیر داخلہ اگر ملک میں تعصب اور مذہبی نعرے بازی سے پاک معاشرہ کی تشکیل چاہتے ہیں تو انہیں حکومت کو واضح سیاسی موقف اختیار کرنے اور اس پر پرعزم طریقے سے قائم رہنے پر مجبور کرنا ہوگا۔ اگر ایسا ہو سکے تو قومی ایکشن پلان ایک بہترین رہنما دستاویز کی حیثیت سے حکومت کے ہاتھ میں موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ ملک کی سیاسی حکومت اگر یہ قدم اٹھانے میں ناکام رہتی ہے تو مذہبی انتہا پسندی کے جس زہر کو ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے، وہ ملک و قوم کے رگ و پے میں تیزی سے پھیلتا رہے گا اور اس کے ذمہ دار عناصر صرف اسمبلیوں اور جلسہ گاہوں، مدرسوں یا مساجد میں ہی حکومت کو چیلنج نہیں کریں گے بلکہ انتخابات میں بھی وہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں لاہور کے حلقہ این اے 120 میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب میں اس کا عملی مظاہرہ سامنے آ چکا ہے۔

اس انتخاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے بعد لبیک یا رسول اللہ اور ملی مسلم لیگ نے بالترتیب تیسری اور چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ اس حلقہ میں پیپلز پارٹی اور مذہبی سیاست کرنے والی جماعت اسلامی بھی خاطر خواہ تعداد میں ووٹ حاصل نہیں کر سکیں۔ لیکن نعرے بازی اور انتہا پسندی کی بنیاد پر ابھرنے والے دو نئے مذہبی گروہوں نے حلقہ کے 11 فیصد ووٹ حاصل کرکے یہ واضح ضرور کیا ہے کہ مذہبی فرقہ پرستی کا نعرہ اور مذہب کے نام پر لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنے والے عناصر کو عام لوگوں کی طرف سے پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں ان گروہوں کے مقابلے میں اصولی موقف اختیار کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اور جب بھی کوئی تنازعہ سامنے آتا ہے تو ان قوتوں کے مقابلے میں پسپائی اختیار کی جاتی ہے۔ جس ملک میں تحریک لبیک یا رسول اللہ اور ملی مسلم لیگ جیسے گروہ پروان چڑھ رہے ہوں اور ملک کی فوج کے ترجمان اسے عام شہریوں کا آئینی حق قرار دے رہے ہیں، اس ملک کے وزیر داخلہ کن مفتیوں سے مفاہمت قائم کرنے اور کفر کے فتوے جاری نہ کرنے کا وعدہ لیں گے۔

تحریک لبیک یا رسول اللہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کرنے کے نام پر استوار کی گئی ہے۔ اس گروہ کے لیڈر علامہ خادم حسین رضوی اپنی اشتعال انگیزی، دشنام طرازی اور بدکلامی کےلئے مشہور ہیں لیکن حکومت کا کوئی ادارہ ان کی گرفت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ اب یہ گروہ 2018 کے انتخابات میں سب سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اترنے کی تیاری کر رہا ہے۔ حکومت تو یہ بھی نہیں بتا سکتی کہ کون سے عناصر ان لوگوں کو مالی تعاون فراہم کر رہے ہیں اور اقتدار کے کون سے ایوانوں سے ایسی احتجاجی تحریکوں کو سرگرم ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ اسی طرح ملی مسلم لیگ بدنام زمانہ حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ کا سیاسی ونگ ہے۔ امریکہ کی سرکردگی میں پوری دنیا حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کی روک تھام کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن پاکستان کے مقتدر حلقے ملی مسلم لیگ کی صورت میں اسے سیاسی قوت کے طور پر سامنے لا کر انتہا پسند اور مذہبی منافرت پھیلانے والے گروہوں کو مین اسٹریم میں لانے کا اہتمام کر رہے ہیں۔

ان حالات ہی کی وجہ سے اب مذہبی انتہا پسندی اور متعصبانہ رویوں کی تعلیم و تبلیغ کا کام صرف فرقوں کی بنیاد پر قائم کئے گئے مدارس تک محدود نہیں رہا بلکہ ملک کی مسلمہ درس گاہوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پانے والے اچھے گھرانوں کے نوجوان شدت پسندانہ اور دہشت گردی کی طرف مائل کرنے والے نظریات کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ اس کے باوجود ملک پر حکمرانی کرنے والے سیاسی یا غیر سیاسی عناصر یہ تسلیم کرنے کےلئے آمادہ دکھائی نہیں دیتے کہ تعلیمی اداروں میں منفی مذہبی رجحانات کا فروغ ملک میں انتہا پسندی کے پروان چڑھنے کی بڑی وجہ بن رہا ہے۔ جب تک ان تمام اداروں کو موضوعات پر مبنی سلیبس پڑھانے کا پابند نہیں کیا جاتا اور درسی کتب سے گمراہ کن، حقائق کے برعکس اور نفرت انگیز مواد نکالنے کا کام شروع نہیں ہوتا، صورتحال میں بڑی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔

ایسے میں وزیر داخلہ احسن اقبال کی تقریر نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ وزیر داخلہ ایک تقریر کرنے کے بعد عملی اقدام کرتے ہوئے اس کے برعکس سمجھوتوں پر مجبور بھی ہو جائیں گے۔ پھر کون اور کیوں ان کی باتوں پر یقین کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali