خاقان عباسی اور رات کے اندھیرے میں ”سمجھانے والے“


سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنی نااہلی کے بعد نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کومحض 45دنوں کے لئے وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی اس خواہش کو نون کے لاحقے والی پاکستان مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی نے دل وجان سے قبول کیا۔ انہیں امید تھی کہ شاہد خاقان عباسی کے وزیر اعظم ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد،شہباز شریف صاحب لاہور سے نواز شریف کی نااہلی کی وجہ سے خالی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوکر اسلام آباد آجائیں گے۔ ان کے بطور رکن قومی اسمبلی حلف اٹھانے کے چند ہی لمحوں بعد شاہد خاقان عباسی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر شہبازصاحب کو اس منصب تک پہنچانے کی راہ ہموار کردیں گے۔

شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہوگئے تو اپنے دوست چودھری نثار علی خان کی فہم وفراست سے رہ نمائی حاصل کرتے ہوئے موجودہ قومی اسمبلی کا اپنی آئینی مدت پوری کرنا یقینی بنادیں گے۔ ”پنجاب سپیڈ“ کے جلوے وفاق میں بھی رونما ہونا شروع ہوجائیں گے اور ”اداروں“ کو مکمل اطمینان رہے گا کہ ”سب کو ساتھ لے کر چلنے والے“ شہباز شریف ”نیویں نیویں“ رہ کر ڈنگ ٹپارہے ہیں۔

نواز شریف مگر اپنے ساتھیوں کی محبت اور وفاداری پر ضرورت سے کہیں زیادہ اعتماد کربیٹھے۔ NA-120کے لئے شہباز صاحب کی بجائے بیگم کلثوم نواز کو نامزد کردیا۔ پاکستان مسلم لیگ کے مخالفین سے کہیں زیادہ ”گھر سے ہوئی“سازشوں کے باوجود بیگم صاحبہ یہ نشست بالآخر جیت گئیں۔ ان کی جیت کا تمام تر کریڈٹ مریم نواز شریف نے سمیٹ لیا ہے اور یہ حقیقت ہضم کرنا ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کے سرکردہ افراد کے لئے ممکن ہی نہیں۔

شاہد خاقان عباسی کی وزیر اعظم کے منصب پر موجودگی ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کو مسلسل یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس ملک میں حتمی سیاسی قوت واختیار اب بھی نوازشریف کے پاس ہے۔ شاہد خاقان عباسی محض”کٹھ پتلی“ ہیں۔ اس ”کٹھ پتلی“ سے نجات لہذا بہت ضروری ہے تاکہ ”اداروں“ کی شفقت وسرپرستی کے ساتھ گلشن کا ”آئینی اور جمہوری“ کاروبار چلایا جاسکے۔

”کٹھ پتلی“ وزیر اعظم کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لئے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں کورم کے مسائل کھڑے ہونا شروع ہوگئے۔ کورم کی وجہ سے حکمران جماعت کو ملنے والی شرمندگی اس وجہ سے بھی ناقابل فہم تھی کہ اپنے پیشرو کے برعکس وزیر اعظم عباسی تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے اراکین سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔

کئی برسوں سے ہمارے ہاں شور مچارہا کہ سیاسی وعسکری قیادت کو ایک پیج پر لانے کے لئے قومی سلامتی کونسل کے اجلاس ہوں۔ وزیر اعظم عباسی نے اس کمیٹی کے اجلاس بھی تواتر کے ساتھ بلائے۔

ہمارے ہاں کل وقتی وزیر خارجہ کی عدم موجودگی بھی گزشتہ چار سالوں میں سیاپا فروشی کا مستقل موضوع رہی۔ شاہد خاقان عباسی نے خواجہ آصف کو یہ منصب بھی دے دیا۔ اپنی وزارت میں چند روز گزارنے اور قومی سلامتی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کے بعد خواجہ آصف نے مگر جب ”گھر کو ٹھیک“ کرنے کی بات کی توپاکستان مسلم لیگ کے قدآور رہ نما،چودھری نثار علی خان نے انہیں ”دشمن کی زبان“ بولنے والا کہا۔ احسن اقبال اور بعدازاں وزیر اعظم کے تائیدی بیانات بھی خواجہ آصف کی اس ضمن میں کوئی مدد نہ کرپائے۔ چند روز قبل شاہد خاقان عباسی کے وزیر داخلہ ٹی وی کیمروں کے سامنے بے بس ہوئے ”ریاست کے اندر ریاست“ کی دہائی مچاتے ہوئے بھی پائے گئے ہیں۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں اس دو ٹکے کے رپورٹر نے اس کالم میں تواتر کے ساتھ شاہد خاقان عباسی کو سمجھانا شروع کیا کہ وہ طاقتیں جنہوں نے نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل کروایا ہے،ان کی ”کٹھ پتلی“ والی حیثیت برداشت نہیں کرسکتیں۔ وہ اگر نواز شریف کے سائے سے باہر آنے کو تیار نہیں تو قومی اسمبلی کو تحلیل کروانے کے بارے میں سوچیں تاکہ نئے انتخابات کے ذریعے ایک نیا ایوان ہمارے سامنے آئے۔ تازہ مینڈیٹ کے ساتھ آئے ایوان کا چنا وزیر اعظم ہی نواز شریف کی نااہلی کے بعد نازل ہوئے سیاسی بحران سے حقیقی معنوں میں نبردآزما ہوسکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی مگر ”سوجوتے اور سوپیاز“ کھانے کو بخوشی تیار نظر آئے۔اس ضمن میں ان کے ”ڈھیٹ پن“ نے مجھے بھی خاموش رہنے پر مجبور کردیا۔

ایاز امیر صاحب کا شکریہ جنہوں نے اپنے حالیہ کالم کے ذریعے مجھے اطمینان دلایا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو گھر بھیجنے کا بندوبست تیار ہے کیونکہ”بحران کا حل ناگزیر“ ہے۔

ایاز صاحب انگریزی زبان کے ایک جید کالم نگار ہیں۔ مجھ ایسے جاہلوں کو ان کے کالم سمجھنے کیلئے انہیں دو سے زیادہ بار پڑھنا ہوتا تھا۔ انگریزی الفاظ کا اُردو ترجمہ فراہم کرنے والی ڈکشنریوں کا استعمال بھی ان کا کالم سمجھنے کے لئے اشد ضروری تھا۔

مجھ ایسے جاہلوں کی سہولت کے لئے ایاز صاحب اب اُردو میں لکھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہفتے کے روز انہوں نے صراحت کے ساتھ لکھ دیا کہ:”موجودہ بحران کا ایک ہی حل ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم کو دن کے اُجالے کی بجائے رات کے اندھیرے میں سمجھایا جائے کہ ملکی مفاد میں قومی اسمبلی کا تحلیل ہونا ضروری ہے“۔

”دن کے اُجالے“ اور ”رات کے اندھیرے“ میں فرق پر طویل غور کے بعد مجھے اپنے تئیں دریافت ہوا کہ شاید ایاز صاحب کسی ”کاکڑ فارمولے“ کی توقع کررہے ہیں۔ 1993ءمیں آزمایا وہ فارمولہ جس کے ذریعے اس وقت کے آرمی چیف -جنرل کاکڑ- نے صدر اسحاق اور وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ لے کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کی تھی۔ وزیر اعظم عباسی کو ”رات کے اندھیرے“ میں سمجھانے کی تجویز سے مجھے لیکن انگریزی کی Mid Night Knockبھی یاد آگئی جو فوجی آمریتوں سے وابستہ کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاںمگر ہر شے کو جیسے کہ جمعرات کی سہ پہر DG-ISPRنے بھی بتایا تھا،آئین اور قانون کے مطابق ہونا ہے۔ آئین اور قانون کی راہ پر چلتے ہوئے وزیر اعظم کو ”دن کے اُجالے“ میں یہ کیوں نہیں سمجھایا جاسکتا ہے کہ ملکی مفاد میں اسمبلی کا تحلیل ہونا ضروری ہے۔ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر انہوں نے ”رات کے اندھیرے“ میں بتائی بات کو سمجھنے سے انکار کردیا تو پھر کیا؟

اسلام آباد میں کئی لوگ رعونت سے مجھے سمجھارہے ہیں کہ شاہد خاقان عباسی کو ”رات کے اندھیرے“ میں ”سمجھانے والوں“ نے سمجھایا تو وہ انکار نہیں کر پائیں گے۔میں انہیں صرف ایک بات یاد دلاتا ہوں کہ 1999ءمیں نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد پورے دو سالوں تک ”سمجھانے والے“ شاہد خاقان عباسی کو یہ سمجھاتے رہے کہ وہ نواز شریف کے خلاف اس طیارے کو جو 12اکتوبر1999ءکے روز پرویز مشرف کو سری لنکا سے پاکستان لارہا تھا ،”اغوائ“ کروانے کی سازش والے کیس میں وعدہ معاف گواہ بن جائیں۔ شاہد خاقان عباسی مان کر نہ دئیے اور پورے دو سال بہت بردباری سے لانڈھی جیل میں بند رہے۔

مجھے اگر یقین ہوتا کہ ایاز امیر صاحب کی تجویز پر عمل پیرا ہوتے ہوئے”سمجھانے والوں“ نے رات کے اندھیرے میں شاہد خاقان عباسی کو قومی اسمبلی کی تحلیل پر آمادہ کرنا چاہا تو وہ راضی ہوجائیں گے تو میں یقینا ”بحران کا حل ناگزیر“ والے نسخے کی بقیہ تجاویز کے بارے میں بھی کوئی رائے دیتا۔ ہاتھ باندھ کر التجا صرف یہ کرنا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو ”رات کے اندھیرے“ میں قومی اسمبلی کی تحلیل پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں ہٹانا ہوگا۔ ”ہٹانا“ کے نیچے خطِ کشیدہ لگاتے ہوئے میری ایاز صاحب سے دست بستہ عرض ہے کہ وہ ”بحران کے حل“ کے لئے اب کوئی اور نسخہ دریافت کریں۔

شاہد خاقان عباسی کو ہٹانے کے لئے انہیں ”رات کے اندھیرے“ میں سمجھانا ویسے بھی ضروری نہیں۔ ”سمجھانے والے“ آصف علی زداری اور عمران خان کو اس بات پر قائل کیوں نہیں کرتے کہ ان کے اراکینِ قومی اسمبلی ”دن کے اُجالے“ میں اس ایوان سے استعفیٰ دے دیں۔ ان کے ساتھ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے 40کے قریب ”تیار بیٹھے“ اراکین بھی قومی اسمبلی سے استعفے دے دیں تو شاہد خاقان عباسی کو سمجھ آجائے گی۔ آئین اور قانون کی بالادستی بھی اپنی جگہ برقرار رہے گی اور شاید ”بحران کا حل“ بھی اس صورت نکل آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).