شہباز تاثیر۔۔۔ بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں


\"farnood\"شہبازتاثیر دل وجاں سلامت لوٹ آئے ہیں۔ ان کے آنے پہ دو ہی چیزیں زیر بحث آئیں۔ ایک تو ان کا نورانی حلیہ۔  دوسرا یہ کہ وہ بازیاب ہوئے تو ہوئے کیسے؟ سیکورٹی اداروں کی کارروائی کے نتیجے میں یا پھر مٹھی گرم کرنے کے نتیجے میں؟

نورانی حلیے میں زیادہ دلچسپی الہامی طبعیتوں کی تھی۔ انہیں گمان گزرا کہ برطانوی صحافی یوآن رڈلے کی طرح شہباز تاثیر بھی طالبان کے رویے سے متاثر ہوکر لوٹے ہیں۔ امید یہ باندھ لی گئی تھی کہ موصوف دامے درمے سخنے اب خلافت کے احیا کے لئے  اپنی توانائیاں صرف کرتے نظر آئیں گے۔ اس جھوم جھمیلے میں کچھ سنجیدہ آوازیں بھی سنائی دیں۔ فرمایا کہ طالبان نے شہباز تاثیر کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا ہے، جو شہباز تاثیر کے حلیے سے ظاہر ہے۔ مزید یہ فرمایا گیا کہ میڈیا شہباز تاثیر کے ساتھ ہونے والے حسنِ سلوک سے عوام کو اس خوف سے آگاہ نہیں کرے گا کہ کہیں لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل نہ ہوجائیں۔ کچھ مطمئن نابغوں کو تواندھیرے میں اتنی دور کی سوجھی کہ وجدان کی سانسیں بھی چڑھ گئیں۔ چار قدم کریز سے باہر آئے اور فرمایا کہ اگر طالبان کے حسنِ سلوک سے متاثر ہوکر شہبازتاثیر نے اسی نوارنی حلیئے میں رہنے کا فیصلہ کرلیا تو خدا بیزاروں پہ کیا گزرے گی۔ حیرت، یعنی کہ بہت حیرت ہے۔ حیرت اس لئے کہ یہ وہی آوازیں ہیں جنہیں طالبان کی ہمنوا کہو تو صاف مکرجاتی ہیں۔ گاہے یہ بھی کہہ دیتی ہیں کہ یہ سب را کے ایجنٹوں کا کیا دھرا ہے۔ کچھ نہ بن پڑے تو حوالے دیتے ہیں کہ ہم خود کش حملوں، اسکولوں پہ حملوں، عوامی مقامات پہ حملوں اور مساجد پہ حملوں کو جائز ہی نہیں سمجھتے۔ اسی جملے کی تشریح مانگ لیجئے تو برا بھی مان جاتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ چارسدہ یونیورسٹی پہ حملے کے بعد ہم نے اپنے کالم ’’چارسدہ سے باچا خان پکارتے ہیں‘‘ میں لکھا تھا

’’یہ جو شخصیات فرماتی ہیں کہ ہم عوامی مقامات پہ حملے ناجائز سمجھتے ہیں، ان کی مراد سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل کہنا چاہتے ہیں کہ حملہ اگر کرنا ہی ہے تو جی ایچ کیو پہ، تھانوں پہ، ہوائی اڈوں پہ، سرکاری عمارتوں پہ، فائیو اسٹار ہوٹلوں پہ اور سینماؤں پہ کیجئے‘‘

یعنی یہ اہلِ علم طالبان سے نرم الفاظ میں یہ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ یار جبر کی بھی تو کوئی اخلاقیات ہوتی ہیں۔ ذبح کیوں کرتے ہو، گولی ماردیا کرو۔ مسجد میں کیوں پھٹتے ہو، سینما میں پھٹ پھٹا لیا کرو۔ اغوا کاری کی اخلاقیات یہ ہیں کہ اٹھا لیا کرو، پہاڑوں میں رکھ لیا کرو، دھمکیاں دے لیا کرو، اہل خانہ کو ذہنی تشدد کا شکار کردیا کرو، لواحقین سے ساری جائیداد بکوا کر تاوان وصول کرلیا کرو، سب کرلیا کرو مگر مغوی سے اسلامی تعلیمات کے مطابق حسنِ سلوک سے پیش آیا کرو۔ کتنے معصوم ہیں کہ شہباز کا حلیہ دیکھتے ہی گمان کر گئے کہ طالبان حسن اخلاق سے پیش آئے ہوں گے۔ صبح ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا کہ دیکھ لیا جائے کہ اس روحانی حلیے کے پیچھے ریزر بلیڈ کی عدمِ دستیابی ہے یا اخلاق حسنہ کی کارفرمائی ہے۔ بس حلیہ دیکھتے ہی دستار پھینک کر اور دوپٹہ پھاڑ کر رقص شروع کردیا۔ گویا کہ اچھل اچھل کر بتارہے ہوں کہ بیشک اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، دیکھیئے نا اس نے تو اغواکاری کے بھی آداب سکھلائے ہیں۔ الحمدللہ ہم تو تڑی بھی اس قدر باادب باملاحظہ لگاتے ہیں کہ لوگ برضا وتسلیم اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ برا ہو شہباز تاثیر کا کہ صبح سویرے منہ اندھیرے اپنا نوارنی حلیہ واپس رومانی حلیے میں بدل کر ساری آرزوئیں خاک کردیں۔ پھر برا ہو شہباز تاثیر کے اہل خانہ کا جنہوں نے طالبان کی طرف سے ایک برس قبل موصول ہونے والی تصاویر بھی جاری کردیں۔ ان تصاویر میں شہباز کو کہیں منہ تک ریت میں دھنساہوا دکھایا گیا ہے، تو کہیں اس کی پشت پر تازیانے برستے دکھائے گئے ہیں۔ بدلتے حلیے اور جاری تصاویر کے بعد سربکف اور سربلند حق آشنا مردان مومن تو نظریں چرا کر ایسے غائب ہوئے جیسے کچھ روز قبل مفتی تقی عثمانی صاحب کے ایک کلپ سے کنی کترا کے نکل رہے تھے۔ اب ایسی بھی کیا ندامت میرے دلدار، کہہ دیجیئے کہ طالبان نے شہباز تاثیر کو صرف تزکیہ نفس کی خاطر ریت میں دھنسا کے رکھا تھا۔ اگر پیر صاحبان ان دنوں اپنے مریدوں کو گیارہ ہزار واٹ کے کرنٹ مار کے ماہیِ بے آب کی طرح تڑپتا چھوڑ سکتے ہیں تو ایک فاسق ابنِ فاسق کو ریت میں دھنسا دینے سے کون سا افتاد ٹوٹ پڑے گا۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ شہباز کو احساس ہو کہ جب شداد نے حضرت بلال کو ریت میں دھنسایا تھا تو ان پہ کیا گزری تھی۔ یوں شہباز کے اور اہل خانہ کے دل کی راہیں کھلیں گیں اور بہتری کا امکان پیدا ہو گا۔ اس طرح شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات۔ یا پھر شاید کہ تری جیب میں اترجائے میرا ہاتھ۔، جو بھی ہو، پہلو دونوں بھلائی کے ہیں۔

قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ بالآخر شہباز کی فیملی حسنِ اخلاق سے متاثر ہو بھی گئی تھی، کچھ زمینیں بیچیں، کچھ اثاثے اونے پونے نکال دیے، کچھ بینکوں سے قرضے لئے، دونوں ہاتھوں سے طالبان کو ادا کردیے۔ طالبان نے پوری دیانت داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہباز کو سود سمیت واپس بھجوا دیا۔ اگر چاہتے تو ٹوپی ویسٹ کوٹ، مسنون زلف و داڑھی اور شرعی لباس واپس بھی لے سکتے تھے، مگر طالبان نے ایسی کسی بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بدتمیزی کا مظاہرہ اب شہباز کی فیملی کررہی ہے کہ طالبان سے پوچھے بغیر تصاویر سوشل میڈیا پہ چڑھائی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ امانت ہے۔ فرمایا کہ جو امین نہیں وہ مومن نہیں۔ ایک نری بدیانتی شہباز کا اپنا حلیہ بدلنا ہے، مگر شہباز یاد رکھے کہ ایک دن سب نے مر جانا ہے۔ وہاں حساب دینا ہو گا۔ طالبان اپنے حصے کا کام کرچکے، سو وہ جوابدہ نہیں ہیں۔ وہ کہہ سکیں گے کہ اللہ میاں! ہم نے تو سلمان والے شہباز کو بال وپر لگا کر اقبال والا شہباز بنا دیا تھا، اب کنٹونمنٹ ایریا کے کسی نسواری نائی نے اسے چھیل چھال کے گنجا سلطان بنا دیا تو تسی دسو اس دے وچ ساڈا کی قصور اے۔

میں ذاتی طور پہ اس پورے معاملے میں حسنِ سلوک کے صرف ایک پہلو کا معترف ہوں۔ جانے کیوں کسی عارف باللہ کا گمان اس جانب نہیں گیا۔ بس جی ہماری دورنگاہی کے بھی کیا کہیئے۔ دیکھیئے طالبان نے شہباز تاثیر کو ساڑھے چار برس قبل او ایل ایکس پہ ڈال دیا تھا۔ اس عرصے میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جہاں شہباز تاثیر کو قربانی کا بکرا بنا کر بھینٹ چڑھایا جا سکتا تھا۔ حد مگریہ ہوئی کہ ممتاز قادری کو پھانسی ہوجانے کے بعد بھی شہباز تاثیر کو اوایل ایکس سے نہیں اتارا گیا۔ پورے تحمل کے ساتھ مال بیچ کر ہی دم لیا۔ یہاں کچھ لوگوں کے پیٹ میں قیامت کا مروڑ اٹھ رہا ہے کہ طالبان نے تاوان لینے کے بجائے ممتاز قادری کے بدلے شہباز تاثیر کو طویلے میں ٹھنڈا کیوں نہیں کردیا۔ استدلال یہ پیش کررہے ہیں کہ محمود غزنوی نے کہا تھا ’’ہم بت شکن ہیں، بت فروش نہیں ہیں‘‘۔ پھر افغان طالبان کو بھی تو دنیا نے بدھا کے مجسموں کے بدلے سونے کی پیشکش کی تھی، مگر انہوں نے بت فروشی کے بجائے بت شکنی کو ترجیح دی۔ افسوس۔۔۔  بہت افسوس ہوا کہ تاویل نہ ملنے پر فکری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ معصوم اہلِ علم ہاتھ کھڑے کر کے دم سادھ گئے۔ انہیں اخبار وآثار سے آراستہ پیراستہ قضیوں کی روشنی میں بتانا چاہیئے تھا کہ ایک بت میں اور ایک انسان میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ پگلو۔! مارا اس انسان کو جاتا ہے جو ہاتھ نہ لگے یا ہاتھ سے نکل جائے۔ ہاتھ لگے انسان کو لونڈی بنایا جاتا ہے۔ یہ لونڈی قلب کو گرمانے اور روح کو تڑپانے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو تو آگے بیچ دیا جاتا ہے۔ یہ مرغی نہیں ہے کہ کاٹ پیٹ کے ڈکار جاؤ۔ ابھی تفصیلات کا وقت نہیں ہے، فی الحال داعش پاکستان کے شعبہ نشرو اشاعت سے اٹھتی آوازوں سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کسی رئیس زادے کو قتل کردینا اچھا رویہ ہے؟ یہ حسنِ سلوک ہے؟ انسانوں کو بتوں پہ قیاس کر کے شرک کی ایک نئی قسم ایجاد کی گئی ہے۔ یونہی بے ڈھنگے قیاس ہوتے رہے تو کل جب ہم ضمیر بیچنے لگیں گے تو یہ کہہ دیں گے کہ ہم ضمیر فروش نہیں ہیں ضمیر شکن ہیں۔ چنانچہ ضمیر نہ بیچیئے۔ حد ہے اور بے حد ہے۔ کمال ہے اور مصطفی کمال ہے۔ بھائی میرے! ضمیر بیچو گے نہیں تو ضمیر جاگے گا کیسے؟ انسان نہیں بیچوگے تو اسلام کیسے پھیلے گا؟ گھوڑا گھاس سے دوستی کرلے کیا؟ ایک ارب میں کتنا اسلام پھیلتا ہے، سوچ ہے آپ کی۔ اشرفی برانڈ آٹا کھا کر ’’ہمہ تن گوشت‘‘ ہوجانے والے مولانا خاس مشروب سے تو زیادہ ہی پھیلتا ہے۔ حسنِ اخلاق میرے بھائی حسنِ اخلاق۔ کیا ہوگیا یار۔

حلیئے اور خلوص کی بحث تمام شد، اگلی نشست میں اس بات پہ بشرطِ زندگی غور کریں گے کہ سیکورٹی فورسز نے شہباز تاثیر کو کیسے بازیاب کروایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
10 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments