میاں صاحب، بار بار اکہتر کا ذکر کیوں؟


حامد میر صاحب نے آج اپنے کالم میں وہ بات نوٹ کر ہی لی جس کو میڈیا اگنور کرتا آ رہا ہے۔ نوازشریف آج کل بار بار اکہتر کا ذکر کر رہے ہیں۔ حامد میر نے بتایا کہ کس طرح ممبران اسمبلی ان کی اس بات سے پریشان ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے کہ شاید میاں صاحب مجیب الرحمان بننے کے اشارے دے رہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔

یہ بالکل الگ کہانی ہے۔ امریکیوں نے افغانستان میں لمبی رقمیں لگا کر جو کچھ حاصل کیا ہے وہ جو بھی ہو مگر فتح ہرگز نہیں ہے۔ امریکی افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ چین جارحانہ معاشی پیش قدمی کر رہا ہے جبکہ امریکی معیشت جنگ کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے۔ امریکی جب اپنی ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو اپنی غلطیاں حماقتیں چھپانے کو قصور وار ڈھونڈتے ہیں۔ پاکستان ایک آسان ٹارگٹ ہے جس پر الزام دھر کے امریکی خود کو دھوکہ دے سکتے ہیں۔

ستمبر الیون کے بعد جب امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان اترا تو طالبان اپنی حکمت عملی کے تحت تحلیل ہو گئے۔ طالبان کئی مہینوں بعد میں ظاہر ہوئے امریکی بیس پر جو پہلا بڑا حملہ ہوا اس میں ایک پاکستانی بدر منصور بھی شامل تھا۔ تب تک امریکی دہشت کا یہ عالم تھا کہ طالبان حلقوں میں بھی کہا جاتا تھا کہ ہماری بندوقیں جام ہو جاتی ہیں، راکٹ اپنے لانچر میں پھٹ جاتے ہیں۔ پہلے حملے بعد سے طالبان نے امریکیوں کو آگے لگا رکھا ہے۔ امریکی سمجھتے ہیں طالبان ایسا پاکستان کی حمایت کے بغیر نہیں کر سکتے۔

اتحادی فورسز افغانستان آئیں تو برطانیہ بہادر کی افواج کی تعیناتی بلوچستان کے ملحقہ افغان صوبوں نمروز ہلمند وغیرہ میں ہوئیں۔ حیران کن طور پر برطانوی دستوں نے وہاں بڑا پر امن وقت گزارا۔ ایک دلچسپ حقیقت سنیں۔ برطانوی سکون کا براہ راست تعلق بلوچستان کی بے سکونی سے تھا۔ امریکیوں نے اس سے اپنا سبق سیکھا پاکستان میں شدت پسندی کی ایک بھرپور لہر اٹھی۔ اس لہر میں مذہبی اور مقامی جواز تو تھے ہی بیرونی حمایت بھی تھی کہ حساب برابر کیا جا رہا تھا۔ مشرف دور گزرا، پاکستان میں سیاسی حکومت آئی تو ریاست پاکستان نے اپنے زور بازو سے دہشت گردی کی اس لہر کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ اصل اور بڑا کردار فوج کا ہی تھا سیاسی قیادت نے عوامی حمایت فراہم کی۔

دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کا زور کبھی نہ توڑا جا سکتا اگر باچا خان کے ماننے والے اپنی جانوں کے نذرانے نہ دیتے۔ اے این پی کے کارکنان اور لیڈروں نے خود پر اور اپنے بڑوں پر لگنے والے غداری کے الزامات کو اپنے خون سے دھویا۔ اس پس منظر کے ساتھ اب ہم حال کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا ہے کہ ہمارے ہاں سول ملٹری ایشو موجود ہے۔ قومی سلامتی کے سوال پر، کشمیر پر اور افغانستان پر سیاسی اور فوجی قیادت میں پالیسی پر بہت سے اختلافات ہیں۔ اسلام آباد میں ہر طرف سسٹم لپیٹ کر تین سال کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

امریکی انتظامیہ پاکستان کو سزا دینا چاہتی ہے۔ بطور واحد عالمی طاقت کے اس کو برداشت ہی نہیں کہ وہ سترہ سال سے افغان جنگ میں پھنس کر بیٹھے ہیں جب کہ پاکستان شدت پسندی کی لہر کا رخ واضح طور پر موڑ چکا۔ افغان طالبان کی حمایت اور حقانی نیٹ ورک کی مدد کے ثبوت پبلک کرنے کی بات اب امریکی کرنے لگ گئے ہیں۔

نوازشریف طاقت کے اہم کھلاڑی رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی انتظار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں سسٹم لپیٹا جائے۔ اس کے بعد جب نگران سیٹ اپ آئے گا تو دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھائی جائے گی۔ پشتون بیلٹ میں علیحدگی کی ایک تحریک کو ہوا دی جائے گی۔ اس کی کامیابی یا ناکامی تو بعد کی بات ہے، اس کی وجہ سے ہم اک نئی مصیبت میں ضرور پھنس جائیں گے۔ نوازشریف اسی بات کا ذکر بار بار کر رہے ہیں کہ ہوش کیا جائے اور کسی ٹریپ میں آئے بغیر سسٹم کو چلنے دیا جائے ۔ ہمیں کسی ڈر خوف خدشے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان ایک مضبوط فوج اور ادارے رکھنے والا ملک ہے۔ اس کا سسٹم ہچکولے لیتا ایک دہائی سے ٹھیک سمت میں چل رہا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ بالکل نظرانداز کرنے والا معاملہ بھی نہیں ہے۔

ہمارے میڈیا نے نوازشریف کی اکہتر والی بات کو نوٹ نہیں کیا تھا۔ حامد میر کا شکریہ کہ انہوں نے اس پر توجہ کی۔ ہم نے ایک اہم بات مزید مس کی ہے۔ ٹرمپ کی تقریر کے بعد سے افغان قیادت نے پاکستان پر الزام لگانے بالکل بند کر دیے ہیں۔ اس کا یقینی مطلب یہی ہے کہ ہماری تربور افغان قیادت گیم سمجھ گئی ہے۔ وہ اسی لیے خاموش ہے کہ نئے ایڈونچر سے کسی کے عزائم تو پورے نہیں ہوں گے الٹا تکلیف مصیبت کا شکار ہمارے ہی لوگ ہوں گے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi