کیا ماونٹ بیٹن نے کشمیر بھارت کو دیا؟ (2)


گورنمنٹ ہاﺅس ۔ نئی دہلی ۔ 29 اکتوبر 1947ء

آج صبح ماﺅنٹ بیٹن نہرو سے ملنے گئے۔ پٹیل بھی گفت و شنید میں شریک تھے۔ دورہ لاہور کے بارے میں لگی لپٹی رکھے بغیر بات چیت ہوئی ماﺅنٹ بیٹن تنہا لاہور جانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دو مملکتوں کو تباہی کے دہانے سے واپس لانا مقصود ہو تو ان کے لیے ذاتی وقار کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ پٹیل نے کہا کہ وہ خود اور کابینہ کے دیگر ارکان نہرو یا ماﺅنٹ بیٹن کے لاہور جانے کے شدید مخالف ہیں۔ ماﺅنٹ بیٹن نے بتایا کہ لیاقت بھی صاحب فراش ہیں اور یوں بھی مشترکہ دفاعی کونسل کا اگلا اجلاس بہرصورت اسی ہفتے منعقد ہونا ہے نہرو اور خود ان کے لیے یہ خیر سگالی کے اظہار کا اچھا موقع ہے ۔ نہرو رضامند ہو گئے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے فوراً گورنمنٹ ہاﺅس پہنچ کر جناح سے بات کی جنھوں نے اس تجویز پر مسرت کا اظہار کیا۔

ماﺅنٹ بیٹن نے آج نوے منٹ تک گاندھی سے بات چیت کی۔ مہاتما نے کل کی پرارتھنا کے دوران کشمیر کے بارے میں چرچل جیسا لب و لہجہ اختیار کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا ”نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں تو بس یہ کرنا ہے کہ دشمن کو ختم کر دیں یا خود ختم ہو جائیں اگر انڈیا یونین کی ننھی سی فوج سپارٹا کے بہادروں کی طرح دفاع کرتے ہوئے ختم ہو گئی یا کشمیر کے لیے لڑتے ہوئے شیخ عبداللہ اور ان کے ہندو مسلم اور سکھ رفقا ایک ایک کر کے اپنے مورچوں پر مارے گئے تو میں ایک آنسو نہیں بہاﺅں گا۔ یہ واقعہ باقی ہندوستان کے لیے شاندار مثال ہو گا۔ ایسے شجاعانہ دفاع کے اثرات پورے برصغیر پر پڑیں گے اور ہر کوئی یہ فراموش کر دے گا کہ ہندو، مسلم اور سکھ کبھی آپس میں دشمن تھے۔“

اس وقت فوری فوجی صورت حال سنگین ہے پیر کے روز کشمیر میں اتاری جانے والی بٹالین کا کمانڈنگ افسر مارا جا چکا ہے۔ فوج کو پیچھے ہٹناپڑا ہے ۔ سری نگر کے مغرب میں ساڑھے چار میل کے فاصلے پر زوردار لڑائی ہو رہی ہے۔

گورنمنٹ ہاﺅس ۔ نئی دہلی ۔ 30 اکتوبر 1947ء

پیٹریس ڈنر کے بعد ازراہ کرم مجھے دن بھر کی خبروں سے آگاہ کرنے آئے۔ انھوں نے بتایا کہ کشمیر میں صورت حال غیر واضح ہے اور اطلاعات کا مناسب نظام موجود نہیں ہے۔ انھیں یقین ہے کہ اگر قبائلیوں کی لوٹ مار کو جاری رہنے دیا جاتا تووہ اب تک سری نگر پہنچ چکے ہوتے لیکن خوش قسمتی سے آئی این اے کے سابق افسروں کی قیادت میں یہ لوگ کافی محتاط نظر آتے ہیں۔

دفاعی کمیٹی کے ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد لاہور میں مشترکہ دفاعی کونسل کے اجلاس کے لیے نہرو کی روانگی طے پا گئی تھی اور اس کا اعلان بھی کر دیا گیا لیکن اب نہرو نے ماﺅنٹ بیٹن کو پیغام بھیجا ہے کہ ڈاکٹر ابھی ان کی صحت کو تسلی بخش نہیں سمجھتے چنانچہ ماﺅنٹ بیٹن کو بالاآخر اکیلے ہی لاہور جانا ہو گا۔ نہرو پاکستان حکومت کے ایک بیان پر خاصے جز بز ہوئے ہیں۔ اس بیان کے لیے وقت کا انتخاب جناح کے خاص سفارتی ترکش کا تیر معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ اس قسم کے ہتھکنڈے سفارتی سرگرمیوں کو سرے سے ناممکن بنا دیتے ہیں۔ اس بیان کے مطابق “کشمیر کا الحاق، دھوکہ دہی اور جبر پر مبنی ہے۔ چنانچہ اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس امر کا ناقابل تردید ثبوت وجود ہے کہ کشمیری فوجیوں کو ریاستی مسلمانوں پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا اور پاکستان کے سرحدی علاقوںمیں واقع مسلم دیہات پر حملے کئے گئے چنانچہ پٹھان حملہ آور مشتعل ہو گئے وغیرہ وغیرہ“ اس بیان کا لہجہ اتنا تند و تیز ہے کہ ماﺅنٹ بیٹن کے لیے نہرو کو اپنے ہمراہ لے جانا مشکل ہو گیا ہے۔

جونا گڑھ کے قضئیے سے پاکستان کے کشمیر موقف کو نقصان پہنچا ہے۔ کشمیر کے ہندوستان سے الحاق میں جو ”فریب اور تشدد“ شامل ہے جونا گڑھ کے پاکستان سے الحاق کے ضمن میں وہ عین قانونی قرار پا جاتا ہے۔ فی الوقت ہندوستان کے لیے جونا گڑھ پر عملی قبضے کی نسبت اس کی پروپیگنڈہ اہمیت زیادہ ہے۔ تاہم جونا گڑھ کے سلسلے میں پٹیل اپنے لئے وزیر اطلاعات کی بجائے وزیر ریاستی امور کی حیثیت کو ترجیح دیتے ہیں۔

گورنمنٹ ہاﺅس ۔ نئی دہلی ۔ 2 نومبر 1947ء

ماﺅنٹ بیٹن نے خوشگوار موڈ میں بتایا کہ وہ لاہور میں جناح کے ساتھ اپنی ساڑھے تین گھنٹے کی گفتگو سے بہت مطمئن ہیں۔ دونوں گورنر جنرل اپنے وزرائے اعظم کی غیر موجودگی میں کھل کر تبادلہ خیال کر سکتے تھے۔ جناح نے گفتگو کے آغاز میں شکایت کی کہ ہندوستان حکومت نے اپنے ارادوں کے بارے میں پاکستان حکومت کو بروقت آگاہ نہیں کیا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے جواب دیا کہ کشمیر میں فوج روانہ کرنے کا فیصلہ ہوتے ہی نہرو نے فورا ً ًٰلیاقت کو اطلاعی تار ارسال کیا۔ جناح نے اپنا شائع شدہ بیان دہرایا کہ الحاق قانونی اعتبار سے محل نظر ہے اور اس کی بنیاد فریب اور تشدد پر ہے ۔ پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔

اس کے بعد استدلال اور رد استدلال کا دور چلا ۔ ماﺅنٹ بیٹن نے اتفاق کیا کہ الحاق تشدد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہے لیکن تشدد قبائلیوں نے کیا جس کا ذمہ دار ہندوستان کی بجائے پاکستان قرار پاتا ہے۔ جناح نے جواب دیا کہ ہندوستان نے کشمیر میں فوج اتار کے تشدد کا ارتکاب کیا ۔ ماﺅنٹ بیٹن قبائلیوں کو تشدد کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے حتیٰ کہ جناح ماﺅنٹ بیٹن کی”ہٹ دھرمی“ پراپنا غصہ چھپا نہ سکے۔

ماﺅنٹ بیٹن نے جناح کو سری نگر میں موجود ہندوستانی فوج کی تعداد اور اگلے چند روز کے دوران اس میں ہونے والے ممکنہ اضافے سے آگاہ کیا۔ انھوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اب قبائلیوں کے لیے سری نگر پر قبضہ کرنا بعید از امکان تھا۔ اس موقع پر جناح نے پہلی تجویز پیش کی کہ دونوں فریقین کو فوراً اور بیک وقت اپنی افواج واپس بلا لینا چاہئیں، اس پر ماﺅنٹ بیٹن نے وضاحت چاہی کہ اگر قبائلی لشکر کے حملے پر پاکستانی حکومت کا اثر نہیں تھا تو پھر وہ قبائلیوں کو کیسے واپس بلائیں گے۔ جناح نے جواب دیا ”اگر آپ فوج واپس بلا لیں تو میں اس معاملے کو ختم کر دوں گا“

اس سے کم از کم یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ عوامی پروپیگنڈہ کہ قبائلیوں کے حملے میں پاکستانی حکومت کا کوئی دخل نہیں تھا، اب نجی مذاکرات میں نہیں دہرایا جائے گا۔ استفسار پر ماﺅنٹ بیٹن کو معلوم ہوا کہ استصواب رائے کے بارے میں جناح سمجھتے ہیں کہ سری نگر پر قابض ہندوستانی فوج اور انتظامیہ کے سربراہ شیخ عبداللہ کی موجودگی کے باعث اوسط درجے کا مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دینے سے خوفزدہ رہے گا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے تجویز کیا کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کرا لی جائے لیکن جناح کا دعویٰ ہے کہ صرف دونوں گورنر جنرل اس کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ ماﺅنٹ بیٹن نے فوراً اس تجویز کو رد کر دیا اور زور دیا کہ جناح کا استحقاق خواہ کچھ بھی ہو ماﺅنٹ بیٹن کی آئینی حیثیت بھارتی حکومت کے مشورے پر عمل کی پابند ہے ۔

ماﺅنٹ بیٹن کی رجائیت اور صاف گوئی کے باوجود گزشتہ چند روز میں جناح اور ان کے درمیان خلیج ناگزیر طور پر وسیع ہوئی ہے اور گزشتہ ملاقات سے صورت حال میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوئی۔ جناح اپنے اختیارات کے پیمانے سے ماﺅنٹ بیٹن کی حیثیت جانچ کر فرض کر رہے ہیں کہ ماﺅنٹ بیٹن کو ابھی تک وائسرائے کے اختیارات حاصل ہیں چنانچہ جناح اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ماﺅنٹ بیٹن ہی الحاق کشمیر منصوبے کے اصل خالق ہیں اور انھوں نے ہندوستانی افواج کے کشمیر میں داخلے اور دیگر امو رمیں فیصلہ کن کردا رادا کر کے پاکستان کے مفاد اور خواہشات پر کڑی ضرب لگائی ہے…

نہرو نے ایک اہم نشریے کے ذریعے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کرانے کی پیش کش کی ہے۔ یہ پیشکش ماﺅنٹ بیٹن نے جناح سے ملاقات کے دوران بھی کی تھی ۔ نہرو کا لب و لہجہ معتدل اور مدلل ہے تاہم لاہور کی ملاقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جناح کو استصواب رائے کی تجویز پر اعتراض نہیں بلکہ انھیں استصواب کے دوران وادی میں ہندوستانی فوج کی موجودگی سے اختلاف ہے۔ ان کے خیال میں اس سے استصواب رائے کی غیر جانبداری محل نظر ٹھہرے گی۔ پٹیل اور نہرو دونوں کا خیال ہے کہ موسم سرما میں استصواب رائے کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا۔ یوں بھی اس کے انتظامات کے لیے وقت درکار ہے۔ ماﺅنٹ بیٹن کشمیر کے بارے میں رہنماﺅں کی خوش فکری پر متفکر ہیں۔ انھوں نے بار بار اس امر پر زور دیا ہے کہ ایک بڑے محاذ پر لمبے عرصے کے لیے کشیدگی کے فوجی عواقب کو مدنظر رکھا جائے۔

گورنمنٹ ہاﺅس ۔ نئی دہلی ۔ 4 نومبر 1947ء

آج لیاقت نے بستر علالت سے ایک دھواں دھار بیان دیا ہے۔ جس میں انھوں نے بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کا ذکر کر کے کشمیر پر قبضے کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ بیرونی ہمدردوں کی امداد کو قبائلی حملہ قرار دینے والوں کو تاریخ مسخ کرنے کا مجرم ٹھہرایا ہے۔ ایک بزدل حکمران اور ہندوستانی حکومت کی جارحانہ ملی بھگت کے باعث کشمیری عوام سے ہونے والے فریب کا ذکر کیا ہے اور مقطع میں نہرو کی ناسازی طبع کے حقیقی ہونے پر شک کیا ہے۔ اگر یہ زبان شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے وضع کی گئی ہے تو یقینا یہ دوستی کی ایک بالواسطہ جہت ہے۔

مزید برآں دفاعی کمیٹی نے ابھی ابھی محاذ سے لوٹنے والے پٹیل اور بلدیو سنگھ کی زبانی ایک بے حد مایوس کن رپورٹ سن کر فوج کو ہدایت دی ہے کہ بارہ مولا پر دوبارہ قبضے کو ترجیح دی جائے جس پر قبائلیوں نے پہلے ہی ہلے میں قبضہ کر یا تھا۔ خیال ہے کہ بارہ مولا پر دوبارہ قبضے سے قبائلیوں کے ریاست میں گھس آنے کا امکان مزید کم ہو جائے گا۔ ریاست میں یورپی باشندوں کی خاصی تعداد ماری گئی ہے اور ”ڈیلی ایکسپریس“ کے نمائندے سڈنی سمتھ سمیت کچھ برطانوی شہری ابھی تک لاپتہ ہیں۔

گورنمنٹ ہاﺅس ۔ نئی دہلی ۔ 8 نومبر 1947ء

جناح اور لیاقت کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے ماﺅنٹ بیٹن کی طویل اور بے نتیجہ مساعی کے بعد آج مشترکہ دفاعی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔ پاکستان کی نمائندگی وزیر مواصلات نشتر اور حکومت کے جنرل سیکرٹری محمد علی نے کی ۔ ماﺅنٹ بیٹن نے نشتر اور محمد علی کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر نہرو اور وی پی مینن کو بھی مدعو کر لیا۔ بعدازاں دو مختلف کمروں میں گفتگو کا آغاز ہوا۔ نہرو اور نشتر نے سیاسی پہلوﺅں پر گفتگو کی جبکہ محمد علی اور مینن نے انتظامی سطح پر مسئلے کا جائزہ لیا۔

پہلی مرتبہ نشریاتی لعن طعن اور کشیدگی کو عارضی طور پر موقوف کر کے مسئلے کا تفصیلی حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ فریقین میں توقع سے زیادہ اشتراک فکر پایا گیا۔ تاہم افواج کے انخلا پر سخت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ پاکستان چاہتا ہے کہ دونوں ممالک بیک وقت ریاست سے اپنی فوج واپس بلائیں جبکہ ہندوستان بضد ہے کہ فوج کی واپسی سے پہلے وادی کو حملہ آوروں سے پاک ہونا چاہئے۔ مذاکرات میں اس خبر سے ہندوستان کی پوزیشن مستحکم ہوئی کہ منگل کو دیے گئے حملے کے احکامات پر کامیابی سے عمل درآمد ہوا ہے۔ اور بارہ مولا پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا ہے۔

گورنمنٹ ہاﺅس ۔ نئی دہلی ۔ 10 نومبر 1947ء

میں نے ابھی ابھی شعبہ تعلقات عامہ کے لیے ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں۔

”کشمیر، جونا گڑھ اور حیدر آباد کی پیچیدہ صورت حال کی وضاحت آسان نہیں ہے۔ خاص طور پر کشمیر کی جنگی صورت حال پر قابل اعتماد اطلاعات حاصل کرنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ماﺅنٹ بیٹن نے جون میں دورہ کشمیر کے دوران ہر ممکن کوشش کی تھی کہ مہاراجہ 15اگست سے قبل دونوں مجوزہ مملکتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیں نیز یہ کہ فیصلے میں عوام کی رائے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔علاوہ ازیں ماﺅنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو پٹیل کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی دی تھی کہ اگر کشمیر نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تو ہندوستان اسے غیر دوستانہ اقدام نہیں سمجھے گا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو متنبہ کیاتھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے آپ کی ریاست تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی“

بلاشبہ موجودہ بحران میں مہاراجہ کی ہچکچاہٹ اور بعدازاں ریاست میں قبائلیوں کی در اندازی روکنے میں حکومت پاکستان کی نااہلی یا عدم رضامندی کو بے حد دخل ہے۔ اگر قبائلی پوری قوت سے سری نگر تک نہ آن پہنچتے تو غالباً مہاراجہ کے لیے گومگو سے نکل کر الحاق کا اعلان کرنا محال تھا۔

ہندوستانی حکومت نے مہاراجہ کی درخواست پر فوجی امداد فراہم کرنے سے قبل الحاق کی منظوری دینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قطعی طور پر درست ہے اور پھر ہندوستانی حکومت نے یکطرفہ طور پر الحاق کو ایک عبوری قدم قرار دیا ہے تاکہ بعدازاں استصواب کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا قطعی فیصلہ ہو سکے۔ اس حقیقت پر زور دیا جانا چاہئے کہ برطانوی حکومت اور جناح کے واضح پالیسی بیانات کی روشنی میں الحاق قطعی طور پر قانون کے مطابق ہے ناقابل تلافی تباہی کے دہانے سے کس قدر نزدیک جا کر مراجعت اختیار کی گئی ہے اس کا اندازہ جناح کی طرف سے حملے کے اس ڈرامائی حکم سے کیا جا سکتا ہے جو 27 اکتوبر کی شب پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو دیا گیا تھا۔ یہ حکم صرف اس لئے منسوخ ہو سکا کہ جنرل گریسی نے اس سلسلے میں جنرل آکن لیک کو اعتماد میں لینا مناسب سمجھا۔ آکن لیک کی فوری مداخلت پر جناح کو سوچ بچار کا موقع مل گیا اور یوں دونوں ممالک کھلی جنگ کے خطرے سے بال بال بچ گئے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).