سندھ کے صوفی لندن میں نیلام


پورا سندھ لندن صوفی فیسٹیول پر سراپا احتجاج ہے۔ سوشل میڈیا سے لیکر سندھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سندھ حکومت کے سیاحت و ثقافت کے محکمے کی طرف سے منعقد کردہ لندن صوفی فیسٹول پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ سندھ کے عوام کے پیسوں پر صوفیوں کرام اور ثقافت کے نام پر لوٹ مار کافی عرصے سے جاری ہے۔ دیکھا جائے تو سندھ حکومت کی کارکردگی اور کرپشن کی داستانوں کے قصے اور کہانیاں تو سب کے سامنے ہیں۔ سب کو پتا ہے کہ سندھ کا ترقیاتی بجٹ سندھ کے عوام پر خرچ ہونے کے بجائے دبئی، لندن اور سوئیزرلینڈ کے بینکوں میں جمع ہوتا ہے۔ ابھی تو موہن جو دڑو فیسٹول و کانفرس، تھر فیسٹیول، اور بین الاقوامی صوفی کانفرس میں سندھ حکومت کے محکمہ سیاحت و ثقافت کی کروڑوں روپوں کی مبینہ کرپشن پر تنقید جاری ہی تھی کہ اچانک لندن صوفی فیسٹول کے انعقاد کا منصوبہ بنا لیا گیا۔

سندھ حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وہ صوفیاء کرام کے پیغام کو فروغ دینے کے لیے لندن میں صوفی فیسٹیول کا انعقاد کر رہے ہیں جس میں صوفی راگ رنگ اور ڈانس کا مظاہرہ کیا جائے گا اور صرف 96 لاکھ 30 ہزار روپےخرچ ہونگے اور باقی پیسے سندھی ایسوسی ایشن یورپ ادا کرے گی۔ مگر سندھ کے سماجی، صحافتی حلقے اس فیسٹیول کو سندھ حکومت کی کرپشن اور بدنیتی قرار دے رہے ہیں کیوں کہ یہ اس محکمے کے سربراہ، بابوؤں اور تھرڈ پارٹی کو ملا کر پیسوں کی لوٹ مار کرتے ہیں۔ ویسے تو محکمہ سیاحت و ثقافت کا سب سے پہلا اور اہم کام یہ ہوںا چاہیے کہ سندھ کی سیاحت و ثقافت اور آثار قدیمہ کی دیکھ بھال کرے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ 9 برس سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی کارکردگی پر ہزاروں سوالیہ نشان ہیں۔ سندھ کا ہر محکمہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ تعلیم کا برا حال ہے محکمہ صحت کا تو اللہ ہی حافظ، روڈ راستے گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار۔ گٹروں اور پینے کے پانی کی لائینز ایک ہو گئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود ابھی تک لوگ گٹر آلود پانی پینے پر مجبور ہیں۔

سندھ کے آثار قدیمہ کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ موہن جو داڑو سے مکلی کے قبرستان تک، یونیسکو اور ڈونر پریشان و حیران ہیں کہ پیسہ کہاں پر لگ رہا ہے کیوں کہ دونوں مقامات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ موہن جو داڑو کی زمین پر بھی لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ میڈیا اور عدلیہ کے نوٹسز کے باوجود ابھی تک سندھ حکومت کے یہ با اثر لوگ ان آثار قدیمہ کی زمین پر قابض ہیں۔ بھمبور، عمر کوٹ، کوٹ ڈیجی قلعہ، ستیوں کا آستانہ اور ثقافتی مقامات کی حالت زار دیکھنے والی ہے۔ سمجھ لیں کہ ان مقامات پر جیسے جن بھوتوں نے قبضہ کر لیا ہو۔ نہ سیاح نہ ہی ان کے لیے سہولیات۔ ان اثاثوں کی کوئی دیکھ بھال نہیں کی جا رہی، نہ میوزیم محفوظ ہے نہ ہی یہاں کسی لائبریری کا وجود ۔

اگر سندھ کے سیاحتی مقامات کو دیکھا جائے تو ان کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ساحل سمندر کراچی سے لیکر کینجھر جھیل کا آلودہ اور بو زدہ پانی ہے۔ نیشنل کیرتھر پارک کے بہت سے جانور دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مر کھپ گئے ہیں۔ سندھ کے باشعور لوگ کا سندھ کے پیسوں کی لوٹ مار پر رونا جائز ہے کیوں کہ ایک طرف تو سندھ حکومت کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے دوسری طرف یہ عوام کے پیسوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر اس کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔

جہاں تک صوفی ازم اور ثقافت کے فروغ کی بات ہے تو سندھ میں صوفی راگ رنگ کے فنکار فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور وہ مہ خانوں تک محدود ہو کے رہ گئے ہیں۔ باقی رہی سیاحت اور ثقافت سوائے سندھی ٹوپی اور اجرک کے سب کچھ تباہ و برباد ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے شروعات اپنے گھر سے کرنی چاہیے کیوں کہ اس وقت سب سے زیادہ صوفی ازم کی ضروت ہمارے معاشرے کو ہے۔ دہشت گرد، انتہا پسند ہماری نوجوان نسل اور تدریسی اداروں تک پہنچ گئے ہیں۔ فرقہ واریت، مذھبی منافرت میں روز برواز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے صوفیاء کرام کے پیغام و تعیلمات کی سب سے زیادہ ضرورت تو یہاں کے نوجوانوں کو ہے۔ مگر جب بھی یہاں پر اس طرح کے فیسٹیول منعقد ہوتے ہیں تو ان میں صرف اور صرف بلاول بھٹو زرداری اور ان کے خاندان کے مہماںوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر عام عوام اس میں شریک نہیں ہو پاتے۔ اپنے دیس میں لوگ یرغمال بن کے رہ جاتے ہیں۔ ابھی بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ لندن فیسٹیول دوستوں کو خوش کرنے کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہ سندھ کی ثقافت، سیاحت و نوادرات ڈیپارٹمنٹ کی یہ پرانی واردات ہے کہ اپنی جیبیں بھرنے کے لیے صوفی ازم کے نام کو نیلام کرتے رہتے ہیں۔ چاہے صوفی ازم سندھ کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں نیلام ہو یا پھر لندن میں۔ اس سے نہ ہی صوفیاء کرام کا پیغام پھیلے گا نہ ہی سندھ کی سیاحت و ثقافت کو فروغ ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).