تاج محل بھی پاکستان بھجوا دیں!


ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ آدتیاناتھ کسی شخصیت کا نہیں مخصوص نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی شخص پر طاری ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک صاحب نے جو اچھے بھلے ڈاکٹر ہیں ایک دن فون کیا۔

وسعت صاحب آپ سے یہ امید نہ تھی؟ میں نے بوکھلا کر کہا کک کک ۔۔کیا امید نہیں تھی؟ کہنے لگے اچھا پہلے یہ بتائیے کہ آپ مسلمان ہیں؟ میں نے کہا الحمداللہ بالکل پکا؟ پھر پوچھا آپ پاکستانی ہیں؟ میں نے کہا اس میں کیا شک؟ کہنے لگے اگر آپ واقعی مسلمان اور سچے پاکستانی ہیں تو پھر آپ بی بی سی ہندی سروس کے لیے کیوں لکھتے ہیں؟ہندی تو ہم مسلمانوں کی زبان نہیں۔

میں نے کہا میں تو تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتا ہوں تو کیا میں کرسٹان ہوگیا اور عربی تو نیتن یاہو بھی جانتا ہے تو کیا وہ مسلمان ہو گیا؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا وہ الگ بات ہے۔ انگریزی ان کی زبان ہے جو بائبل پر یقین رکھتے ہیں اور نیتن یاہو بھی یہودی ہونے کے ناطے اہلِ کتاب میں سے ہے۔

مگر ہندی اور وہ بھی سنسکرت سے آلودہ زبان بولنے والے اہلِ کتاب تو نہیں۔ بہرحال آپ جو بھی کہیں کم ازکم آپ سے یہ امید نہ تھی۔

مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ ادتیاناتھی ڈاکٹر صاحب مسلمان کے بجائے ہندو ہوتے تو بھی ایسے ہی ہوتے۔ اب دیکھیے نا کہ تاج محل بھلے ہندوستان میں سہی اور چار سو برس سے سہی اور اتر پردیش میں سہی مگر بقول یوگی ادتیاناتھ بھارتی تاریخ سے اس کا کیا لینا دینا۔

ان حالات میں یہ دلیل دینا بھی محض وقت اور الفاظ کا زیاں ہے کہ شاہ جہاں جب پیدا ہوا تو اس کے ہاتھ میں اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزیناں کا پرمٹ نہیں تھا بلکہ شاہ جہاں پانچ نسلوں سے ہندوستانی تھا۔ وہ تو دفن بھی اسی زمین پر ہے۔

شاہ جہاں شاہی خزانے کا پیسہ اونٹوں پر لاد کے غزنی یا بذریعہ ہنڈی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں نہیں لےگیا بلکہ ہندوستان میں ہی خرچ کیا۔ آگرے میں اس کی محبوب بیوی ممتاز محل کا تاج محل نامی مزار آئی ایم ایف کے قرضے سے نہیں بلکہ ہندوستانی پیسے سے بنا۔

رہی یہ بات کہ جس طرح یو پی کے محکمۂ سیاحت نے اپنی فہرست سے تاج محل اڑا دیا اسی طرح بی جے پی کی زیرِ سرپرستی ایک اور ریاست مہاراشٹر کی سکولی کتابوں سے مغلوں کو نکال دیا گیا تو میں اس قدم پر کس منہ سے تنقید کروں جب میرا بچہ بھی چندر گپت موریا اور اشوکِ اعظم کے کارنامے نہیں جانتا۔ حالانکہ اس کا باپ پاکستان کے جس سرکاری سکول میں پڑھتا تھا اس میں موریا راج اور اشوک کا سنہری دور پاکستانی تاریخ کا ہی حصہ تھا۔

اب قدما میں صرف سکندرِ اعظم بچا ہے کیونکہ نوے فیصد بچے سکندرِ اعظم کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ جیسے ہم اپنے پسندیدہ شاعر اور نقاد فراق گھورکھپوری کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ جب پتہ چلا کہ ان کا نام تو رگھوپتی سہائے ہے تب بھی دل کو تسلی دیتے رہے کہ فراق نام کا آدمی بھلا ہندو کیسے ہو سکتا ہے ۔ فراق کی وجہ سے تو آج بھی اردو ادب کی تاریخ رچی ہوئی ہے اور اردو تو مسلمانوں کی میراث ہے۔

ویسے اندر سے مانو تو ہم اس خبر پہ بہت خوش ہیں کہ تاج محل اب اتر پردیش کی تاریخی وراثت سے باہر کر دیا گیا ہے۔

بھگوان یوگی جی کی سرکار قائم رکھے اور لمبی عمر دے۔ جب وہ کل کلاں تاج محل کی جگہ تیجو مالیہ مندر کا سنگِ بنیاد رکھیں تو تاج محل بھی یوپیائی مسلمانوں کے سامان میں بندھوا کر فتح پور سیکری کی بلٹی کے ساتھ پاکستان بھجوا دیں۔ اس بہانے ہم بھی چار پیسے کما لیں گے اور یوگی جی کے سر سے بھی تاریخ کا بار اتر جائے گا ( جانے کیوں امید سی ہو چلی ہے کہ کوئی دن جاتا ہے بھارت کوہ نور پر دعویِ ملکیت سے بھی دستبردار ہونے والا ہے )

معلوم نہیں یوگی جی نے مودی جی سے بھی پوچھا کہ ابھی پچھلے ہی مہینے رنگون میں آخری ہندوستانی مغل روہنگیا بہادر شاہ ظفر کے مزار پر کیوں حاضری بھری۔ ہو سکتا ہے کسی نے مودی جی کے کان میں کہا ہو کہ بہادرشاہ ظفر برما کے ایک مشہور بادشاہ گذرے ہیں۔ آپ ان کی قبر پر جائیں گے تو برمیوں کو اچھا لگے گا۔

اور اگر مسلم ہندوستان اور اس کی یادگاروں کا بھارتی تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں تو مودی جی جاپانی وزیرِ اعظم شنزو ایبے کو احمد آباد کے صابر متی آشرم یا صابر متی ایکسپریس دکھانے کے بجائے سنگی جالی کے کام میں یکتا مشہورِ عالم سدی سئید مسجد میں کاہے کو لے گئے۔

کیا کریں! نگوڑی سیاست کے بازار میں سب چلتا ہے۔ تاج محل بھی، بہادر شاہ ظفر بھی، شنزو ایبے بھی اور یوگی ادتیاناتھ بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).