میری امی نے امیر جماعت اسلامی سے شادی کی


سوال: دوسری شادی کے بارے میں بتائیں؟

جواب: اپنے حالات دیکھتے ہوئے یہی مناسب سمجھا کہ ایک طاقت ور اور مالدار آدمی سے شادی کروں‌ تاکہ میرے بچے پل جائیں۔ اس جگہ کے لحاظ سے یہی ٹھیک تھا۔ میرے دوسرے شوہر سکھر میں امیر جماعت اسلامی تھے اور جماعت میں کافی انوالوڈ تھے۔ ان کی وجہ سے مجھے الیکشن دیکھنے اور درس سننے کا موقع ملا۔ قاضی حسین احمد ہمارے گھر میں آکر ٹھہرتے تھے۔ پروفیسر غفور احمد بھی ہمارے گھر آتے تھے۔

سوال: جماعت اسلامی کی سمت کے بارے میں‌ آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: میرے خیال میں جماعت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ وہ دینی باتیں‌ کرسکتے ہیں لیکن دین کو خود پر لاگو نہیں کرسکتے۔ وہ سیاسی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ جہادی وغیرہ تو بن سکتے ہیں لیکن ان کو حکومت چلانا یا ادارے چلانا نہیں آتا۔ جماعت اسلامی کے افراد مذہب کی طاقت سے لوگوں‌ کو استعمال کرکے خود کو طاقت ور بنانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے وسائل اور اثرورسوخ میں‌ اضافہ ہو۔ عوام کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

سوال: جماعت اسلامی کی خواتین سے آپ نے کیا سیکھا؟

جواب: جماعت اسلامی کی خواتین اچھے صاف ستھرے کپڑے پہنتی تھیں، ان کے برقعے اچھے مٹیریل کے سلے ہوتے تھے، ان کے گھروں میں کتابیں تھیں اور وہ شائستگی سے گفتگو کرسکتی تھیں لیکن وہ ان خواتین سے بہتر نہیں تھیں جو اندر باہر سے ایک جیسی تھیں۔ میں‌ نے دیکھا کہ جن لوگوں‌ کے کپڑے اچھے نہیں‌ تھے، انہیں جوتوں‌ کے پاس بٹھایا گیا۔ مجھے اچھا نہیں لگا۔ اگر میرے کپڑے معمولی ہوتے تو کیا وہ میرے ساتھ بھی یہ سلوک کرتیں؟ وہ اندر سے ایسے لوگ نہیں تھے جیسا وہ خود کو ظاہر کرتے تھے۔

سوال: خواتین کے جن درسوں میں‌ آپ شامل تھیں، ان کے بارے میں بتائیں۔

جواب: انسان میں‌ بہت کچھ کرنے کی صلاحیت ہے۔ جماعت اسلامی کی کافی خواتین مالدار گھرانوں سے تھیں اور انہوں‌ نے اپنے گھروں‌ میں‌ ان اجتماعی محفلوں کا بندوبست کیا ہواتھا جہاں‌ کئی شہروں‌ سے خواتین آ کر جمع ہوتیں‌ اور ایک دوسرے کو اسلام سکھاتی تھیں۔ وہاں پر کچھ باتیں‌ ایسی ہوئیں جو مجھے ابھی تک چبھتی ہیں۔ ایک تو وہ یہ کہتیں کہ دینی طبقہ خواتین کو گھروں میں‌ واپس بند کرنے کے لئیے نکلا ہے۔ حالانکہ میرا خیال تھا کہ خواتین کو ہر میدان میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ میری والدہ کی طرح یا میری طرح‌ کے حالات کا شکار نہ ہوں۔

اس بات کو سن کر ان کے تضادات بھی ظاہر ہوئے کیونکہ یہی خواتین تھیں‌ جن کے ساتھ ہم در در جا کر ووٹ مانگ رہے تھے اور الیکشن میں‌ کام کر رہے تھے۔ ایک دن میں واپس آئی تو دیکھا کہ میرے بچے آپس میں لڑے ہیں اور انہوں‌ نے کھانا نہیں کھایا۔ اس دن کے بعد میں نے جانا چھوڑ دیا۔ ان بچوں‌ کے ابو کی وفات ہوچکی تھی اور میں‌ ان کو اس طرح ان کے حال پر نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ میں‌ نے ایسا محسوس کیا کہ جماعت اسلامی طاقت حاصل کرنے کے لئیے خواتین کو اپنے مقصد کے لئے گھر سے باہر بھیجنے پر راضی ہے لیکن انہی خواتین کی اپنی خوشی، تعلیم اور صحت کے لئیے نہیں۔

دوسری بات یہ بری لگتی تھی کہ وہ چن چن کر ایسی پرانی روایتیں‌ ڈسکس کرتیں‌ جن میں‌ واضح‌ طور پر خواتین کی بے عزتی کی جاتی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں‌ آتا تھا کہ وہ ایسا کیوں‌ سمجھتی ہیں‌ کہ سب خواتین کی زندگی ان کی طرح‌ آسان ہے اور وہ ان کے راستے پر چل کر یہ ٹھاٹ باٹ والی زندگی گذار سکتی ہیں۔ میرے خیال میں‌ ان کو محض باتیں‌ کرنے کی نہیں‌ بلکہ صحت اور تعلیم کے شعبوں‌ میں‌ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو معاشرے کی عام خواتین کی مدد کرنا چاہئیے۔ ان تمام خواتین کو اس لائق بنائیں کہ وہ خود اپنی زندگی اور صحت بہتر بناسکیں۔ میں‌ ان خواتین کو بہتر سمجھتی ہوں جو تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باوجود ہاتھ پیر اور زبان سے اپنے معاشرے کے دیگر افراد کی زندگی بہتر بنانے میں‌ مصروف ہیں۔

سوال: جماعت اسلامی کا کیا مستقبل ہے؟

جواب: مولانا مودودی کی زندگی تک صحیح تھا، اس میں‌ معاشرے کے لائق ترین اور قابل ترین افراد اکھٹے ہو رہے تھے اور وہ سماج کو جیسا وہ ٹھیک سمجھتے تھے اسی لحاظ سے آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ وہ ان کتابوں سے اور ان کے فلسفے سے متاثر تو تھے لیکن وہ ان کو اپنی زندگی پر لاگو نہیں کرسکتے تھے۔ ان کو بعد میں‌ لاگو کرنے کی کوشش کی گئی تو معاشرے میں فساد ہوا اور کتنے لوگوں‌ نے اپنے بیٹے جنگ میں‌ گنوائے۔ میرا اپنا ڈاکٹر بھتیجا ان باتوں‌ سے متاثر ہوکر افغانستان چلا گیا۔ میرے بھائی اس کو بارڈر سے پکڑ کر واپس لائے۔ معلوم نہیں وقت پر نہ ملتا تو وہ زندہ بچتا کہ نہیں۔ یہ سیدھے سادے لوگ تھے جنہوں نے ان باتوں‌ پر یقین کیا۔ یہ آج کے باشعور افراد کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سادہ زہنوں کو تعمیری راستے پر چلائیں۔ مولانا کی اپنی اولاد نے ترقی پسند راستہ اختیار کیا اور جدید سائنسی تعلیم حاصل کی۔

سوال: کیا جماعت اسلامی کا وقت ختم ہوچکا ہے؟

جواب: ان کا وقت آج نہیں‌ بلکہ بہت پہلے ختم ہوچکا ہے۔ آج وہ صرف اس لئیے قائم ہے کیونکہ وہ ایک منظم گروہ ہے جس کا اسٹرکچر ہے۔ اس کو ری پلیس کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی میں‌ شامل اسٹوڈنٹس کافی تشدد میں‌ شامل تھے۔ کبھی کسی کے ہاتھ پیر توڑ دئیے، کبھی کسی سے جھگڑے اور کبھی گولیاں‌ چلائیں۔ جس طرح‌ امریکہ میں بھانت بھانت کے گروپ ہیں۔ کوئی اسپورٹس کا، کوئی باکسنگ کا، کوئی موسیقی کا، کوئی تقریری مقابلوں کا، کوئی لکھاریوں کا تو اسی طرح‌ اسٹوڈنٹس کو جماعت چھوڑ کر اپنی اپنی دلچسپیوں‌ کے گرد گھومنے والے گروپ بنانے ہوں گے جن سے وہ خود کو بھی آگے بڑھائیں اور اپنے معاشرے کو بھی۔ نوجوانوں‌ میں‌ بہت توانائی ہوتی ہے اور اس کو مثبت رخ میں‌ استعمال کرنے سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔

سوال: جماعت کی خواتین کے لئیے آپ کے پاس کیا نصیحت ہے؟

جواب: دین آپ کا ذاتی معاملہ ہے لیکن معاشرے میں اہمیت حاصل کرنے کے لئیے ایدھی کی طرح خدمت کا راستہ اختیار کریں۔ آپ دیکھیں کہ آج تک قران کی کسی خاتون نے تشریح نہیں‌ کی ہے۔ یہ کام کون کرے گا؟ آپ وہ روایات کیوں‌ چنتی ہیں جن میں‌ خواتین کو کمزور بتایا جائے جبکہ ایسی بھی بہت سی روایات ہیں جن میں‌ وہ طاقت ور ہیں۔ صرف کہانیاں سن کر، یاد کر کے دہرانے کے بجائے خود اپنا زہن استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سمجھنے کی کوشش کریں‌ کہ آپ کی زندگی کا راستہ یا اس کے نتائج تمام افراد پر لاگو نہیں‌ کیے جاسکتے۔

سوال: جماعت اسلامی کو معاشرے کو بہتر بنانے کی نیت سے کس طرح‌ استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب: ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ “ینگ کرسچن مین اسوسی ایشن” یا “ینگ ومن کرسچن اسوسی ایشن” کی طرح‌ کے صحت بہتر بنانے کے ادارے بنائیں‌ جہاں‌ دوڑنے، کھیلنے، سوئمنگ کرنے اور ورزش کرنے کی مشینیں ہیں۔ وہاں‌ مذہب کوئی نہیں سکھا رہا ہوتا وہاں‌ عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح‌ کیتھولک ہسپتال مرسی یا مشن ہسپتال یا سینٹ میریز اور سینٹ سیویر کی طرح‌ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے بنائیں جہاں ہر مضمون کو اہمیت حاصل ہو۔ عوام یہ سمجھنے کی کوشش کریں‌ کہ جو بھی مذہب کا نام لیکر لیڈر بنے ہیں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے فائدے کے لئیے ہمیں استعمال کرتے آئے ہیں۔

سوال: آپ نے اپنے بچوں‌ کے لئیے کون سی تعلیم کو بہتر سمجھا اور وہ کیا بنے؟

جواب: مجھے اسلامی اسکول پسند نہیں ہیں کیونکہ وہ معیار میں‌ بھی کم ہیں اور وہاں کئی اہم مضامین نہیں پڑھائے جاتے ہیں۔ انسانی دماغ کو پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لائق بنانے کے لئیے تاریخ، زبان، سائنس، کھیل، موسیقی اور آرٹ کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے بچوں‌ کو سینٹ میریز بھیجا اور ان کو سائنسی تعلیم دلائی۔ میری دو بیٹیاں ڈاکٹر بنیں، ایک سائنسدان تھی، اس کے بعد نرس ہے۔ دونوں‌ بیٹوں کا اپنا بزنس ہے۔ اپنی بہو کی بھی حوصلہ افزائی کررہی ہوں‌ کہ ڈاکٹر بن جائے۔ میری بیٹیاں اپنا اور ان خواتین کا خیال کرنے کے لائق ہیں جو ان مشکلات کا سامنا کررہی ہیں جن کا میں نے خود اپنی زندگی میں کیا۔ لیکن جن حالات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا، میں‌ نہیں چاہتی ہوں کہ اور کسی کو کرنا پڑے۔

اس انٹرویو کا پہلا حصہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

http://www.humsub.com.pk/78800/lubna-mirza-89/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).