آصف زرداری کو جہانگیر ترین تو قبول ہیں عمران خان نہیں


ایک انٹرویو میں جناب آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جہانگیر ترین کے ساتھ تو بات ہو سکتی ہے مگر عمران خان کے ساتھ نہیں۔ غالباً پاناما فیصلے کے بعد ہونے والے جلسوں میں آصف زرداری صاحب کی جناب عمران خان نے جو عزت افزائی کی ہے، اسے زرداری صاحب دل پر لے گئے ہیں اور اب خان صاحب کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے سے انکاری ہیں۔ نوٹ کریں کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ بات کرنے سے انکاری نہیں ہیں بلکہ ان کو صرف ایک شخص پر اعتراض ہے۔

عمران خان کو یہی بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ ٹاپ لیول کے سیاستدانوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ خواہ کوئی قانون منظور کروانا ہو یا کسی حکومت قانون کو روکنا ہو، اس کے لئے دوسری پارٹیوں سے مل کر حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ اس لئے بڑے لیڈر ایسی زبان استعمال نہیں کرتے کہ کسی دوسرے لیڈر کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔ آج بھی عمران خان صاحب کو ایک تقریر کے دوران یاد آیا ہے کہ ”آصف زرداری سینما کے ٹکٹ بلیک کیا کرتے تھے“۔

لیکن جیسا ہمارا ماحول ہے، اس میں عوام کو ایک پرجوش زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو ایک سوچتا سمجھتا لیڈر نہیں چاہیے۔ ان کو گنڈاسے والا سلطان راہی پسند ہے۔ اس عوامی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بیشتر پارٹیوں میں گندی زبان استعمال کرنے کے ماہر افراد تیسری صف میں رکھے جاتے ہیں تاکہ پیغام بھی ڈیلیور ہو جائے اور پہلی صف کی قیادت بھی صاف ریے۔

اب بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان خود تیسرے درجے کی قیادت کا رول ادا کرتے ہیں اور جب اپوزیشن لیڈر کی تعیناتی یا کسی دوسرے معاملے میں ایم کیو ایم یا اے این پی جیسی ان پارٹیوں کی حمایت کی ضرورت پیش آتی ہے جن پر وہ دشنام طرازی کرتے رہے ہیں، تو مجبوری میں دوسرے درجے کی قیادت کو ان سے مذاکرات کرنے بھیجتے ہیں۔

اگلے الیکشن میں بہترین کارکردگی دکھانے پر بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی ہے کہ عمران خان اکیلے پچاس فیصد سیٹیں جیت سکتے ہیں۔ ان کو ایسے اتحادیوں کی ضرورت پڑے گی جن کے بارے میں وہ پانچ سات سال سے غیر مہذب زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ اتحادی زرداری بھی ہو سکتے ہیں اور مولانا فضل الرحمان بھی جو تحریک انصاف کو وزارت عظمی دلا سکتے ہیں۔ عمران خان اگر تمام صوبوں میں بھی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو یہ بھی اتحادیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

لیکن ان اتحادیوں کی ایسی ہی شرط ہو گی جیسی آصف زرداری صاحب نے بیان کی ہے کہ وزیراعظم کے لئے جہانگیر ترین یا شاہ محمود قریشی تو قبول ہیں مگر عمران خان کسی قیمت پر نہیں۔

دوسری طرف بین الاقوامی فرنٹ پر دیکھیں تو دھرنے کے دوران مغربی سفارت کاروں کو عمران خان نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ریڈ زون میں نہیں جائیں گے۔ چلے گئے۔ اس زمانے میں چینی صدر کے سی پیک کے سلسلے میں دورے کا معاملہ گرم تھا۔ ہمارے بے خبر سے ذرائع کے مطابق خان صاحب نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ چینی صدر آ جائیں، ہم نہ صرف ان کو راستہ دیں گے بلکہ ان کی مکمل حفاظت کریں گے۔ اس پر سفیر نے پوچھ لیا کہ دھرنے کے دوران ٹی وی سٹیشن پر حملہ کن فسادیوں نے کیا تھا تو خان صاحب نے فرمایا کہ وہ کوئی باہر کے لوگ تھے۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ ایک زمانے میں چین اور عمران خان صاحب کے درمیان ایک گرم جوشی موجود تھی جو اب دکھائی نہیں دیتی ہے۔ نہ چین خان صاحب کی ذات پر اعتبار کرنے کو تیار ہے اور نہ مغربی ممالک اور نہ ہی ملکی طاقتیں۔

ایسے میں جب زمین آسمان سب ہی مخالف ہوں تو کیا صرف سینٹرل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے زور پر عمران خان صاحب چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومت بنا لیں گے؟ عمران خان کو ایک پاپولسٹ لیڈر کی بجائے ایک مدبر کے طور پر اپنا امیج بنانے کی ضرورت ہے ورنہ تحریک انصاف کے الیکشن جیتنے کی صورت میں بھی وزیراعظم کوئی ایسا شخص ہی بنے گا جس سے مذاکرات کرنے کو باقی پارٹیاں تیار ہوں۔

اس پر غور نہ کیا گیا تو عمران خان صاحب کے ہم جیسے دکھی مداح ان کی بجائے جہانگیر ترین کو وزیراعظم بنتا دیکھ کر عطا اللہ عیسی خیلوی کی درد بھری آواز میں یہ نیا گانا سنیں گے اور سر پیٹا کریں گے: دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar