سندھ کی تباہی کی داستان


یاران جہاں کہتے ہیں کہ اس خطہ ارض میں ایک علاقہ سندھ ہے جو اس وقت کھنڈر بن چکا ہے، موئن جو دڑو سے بدترحالت میں سندھ ایک ایسا علاقہ بتایا جاتا ہے جہاں سب لوگ بھوک سے مررہے ہیں جبکہ جو زندہ ہیں، وہ کرپشن کررہے ہیں

سندھ کے اسکول اور اسپتال تباہ ہوچکے ہیں، یہاں سڑکیں نہیں ہیں، سندھ میں کوئی ایسی چیز نہیں رہی جو قابل قدر اور قابل ذکر ہو، یہ بیانیہ ہر نیوز اینکر کی زبان پر ہے، سیاست دان اسی بیانئے کو بیان کرتے ہیں، سندھ کی اس منفی منظرکشی کی وجہ کیا ہے، یہ آج کا ایک بڑا سوال ہے

پاکستان کے میڈیا میں اردو بولنے والے افراد کی اکثریت ہے، یہ اردو بولنے والے یا تو ایم کیوایم کی قوم پرست فکر سے متاثر ہیں یا یہ جماعت اسلامی کی خلافت کو پسند کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب سندھ کی بات ہوتی ہے تو کراچی جیسا دنیا کا عظیم شہر کچرے کے ڈھیر پر تعمیر ایک ایسے علاقے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جہاں صرف لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کرنے والوں کے لئے جگہ بچی ہے اور اور چاروں طرف بس کچرا ہے

لوکل میڈیا میں سندھی قوم پرستوں کی اکثریت ہے، قوم پرست تعداد میں قلیل مگر اشتعال میں دس پر بھاری ہوتے ہیں، میں سکھر میں سادھو بیلہ جانے لگا تو ایک دن پہلے کراچی کی ایک کانفرنس میں آئے سکھر کے صحافیوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے ایک گھنٹے تک مجھے سکھر کی تباہی کے وہ قصے بیان کیے کہ الامان الحفیظ۔ میں نے آخر میں دریافت کیا کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ میں آپ کے شہر کا بطور سیاح دورہ کروں

سندھ میں ایک مسئلہ شہری ودیہی کا فرق بھی ہے، سندھی زبان بولنے والا شہری بھی پسند نہیں کرتا ہے کہ دیہات سے اٹھ کر لوگ آئیں اور ان پر حکمرانی کریں اور اردو بولنے والے قوم پرستوں کے نزدیک تو یہ ان توہین ہے اور یوں یہ اپنی ازخود طے کردہ ذلت کا انتقام سندھ کے مسائل کے بیان میں مبالغہ آرائی کرکے لیتے ہیں

سندھ کی منفی منظر کشی کی عمدہ ترین مثال تھر کا جعلی قحط ہے، موسمی خشک سالی کو قحط قرار دے کر اپنے پاس سے آٹھ ہزار بچے ماردیئے گئے، نومولودوں کی اس سے زیادہ ہلاکت تو جولائی 2016 کی صوبائی محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں ہوئی کہ جب صرف تین ماہ میں روزانہ 40 نومولودوں کے حساب سے تین ہزار بچے دم توڑ گئے، جان سے جانے والوں میں 150 مائیں بھی شامل تھیں، تھر میں مبینہ ہزاروں بچوں کو ہلاک کردیا گیا مگر ٹی وی چینلز کے پاس صرف ایک انکیوبیٹر کی فائل فوٹیج ہے، قبر میں لیٹ کر رپورٹنگ کرنے والے میڈیا نے کسی بچے کے والدین کو دکھایا نہ تدفین کے عمل کو مگر بہرحال بچے مار دیئے گئے، بچے مارنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ مٹھی سول اسپتال میں ایک رپورٹر کی ڈاکٹر سے لڑائی ہوگئی، رپورٹر نے دھمکی دی کہ ابھی دیکھ میں کیا کرتا ہوں اور اس نے باہر آکر اپنے ٹی وی چینل کو بیپر دیتے ہوئے ایک ساتھ 300 بچے ماردیے

سندھ تعلیمی شرح کے اعتبار سے ملک کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، یہاں دیہی علاقوں میں مطالعے کا زبردست رجحان ہے، سندھی زبان کی کتب کی حیران کن اشاعت اور فروخت ہوتی ہے، پیپلزپارٹی پر سڑکوں کے حوالے سے ہمیشہ تنقید کی جاتی رہی ہے اور اتنی تنقید کے بعد فطری طور پر یہ سیاسی لوگ اپنا دفاع کرتے ہیں اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا، پنجاب میں تو صرف لاہور یا سینٹرل پنجاب کی تعمیر ہوئی مگر سندھ میں کراچی سے کشمور تک کی سڑکوں کی تعمیر کی گئی، ننگرپارکر میں بھارت کی سرحد تک سڑکیں بنادی گئیں، آپ کو یہ بات جھوٹ لگ رہی ہے اور آپ کا لگنا غلط نہیں ہے کیونکہ لگنے والے تمام ذرائع یہی کہتے ہیں کہ سندھ تباہ ہوچکا ہے

سندھ میں تعلیمی شعبے میں زبردست کام ہوا، کراچی میں لیاری یونی ورسٹی تعمیر ہوئی، لاڑکانہ اور نواب شاہ میں بے نظیر بھٹو یونی ورسٹیاں بنیں، نواب شاہ میں بختاور کیڈٹ کالج کی تعمیر ہوئی، لاڑکانہ میں شہید شاہنواز بھٹو لائبریری اور لا کالج بنایا گیا مگر میڈیا نے کچھ بتایا ہی نہیں

سندھ میں صحت کے شعبے میں غیرمعمولی کام ہوئے، کراچی، نواب شاہ، سکھر اور جامشورو میں ریجنل بلڈبینک سینٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں دولاکھ بلڈ بیگز اسٹور کیے جاسکتے ہیں، ٹنڈوجام محمد میں بینظیر بھٹو کارڈیک کئیر اسپتال کا قیام ہوا، لاڑکانہ میں کارڈیو ویسکولر ڈیزز اور دل کے مریضون کے علاج کے لیے اسپتال بنائے گئے، کراچی میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا 18 آپریشن تھیٹرز کے ساتھ سینٹرلی ائیرکنڈیشنڈ ٹراما سینٹر بنایا گیا، پاکستان میں ریپ سے متاثرہ خواتین کی بحالی کا پہلا مرکز بھی کراچی میں تعمیر ہوا، پاکستان میں جگر کی پیوند کاری کا پہلا مرکز بھی گمبٹ میں بنا، سندھ کے چھ کروڑ باشندوں کی ہیلتھ انشورنس ہے کہ اگر حادثے میں وہ زخمی یا معذور ہوجائیں تو سندھ حکومت معاوضہ ادا کرتی ہے، جاں بحق ہونے کی صورت میں متاثرہ فیملی کو معاوضہ دیا جاتا ہے مگر میڈیا نے کبھی کچھ بتایا ہی نہیں

توانائی کے شعبے میں سندھ میں بجلی کی پیداوار کے لیے سات ونڈ پاور ٹربائن کی تعمیر کی گئی، سومیگاواٹ کے تھرکول پاور پلانٹ کا آغاز ہوگیا، نوری آباد میں سومیگاواٹ گیس فائر پاور پلانٹ کی تکمیل کردی گئی، صوبائی خودمختاری کے بعد انٹرنیٹ پر سے وفاق کا 19 فیصد ٹیکس ختم کردیا گیا، سندھ میں بجلی کی ترسیل کے لیے سرکاری ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا، ٹھٹہ اور ٹنڈو محمد جان کو جوڑنے والا جھرک ملا کٹیار میں پاکستان کے سب سے بڑے پونے دو کلومیٹر طویل پل کی تعمیر کی گئی مگر یہ سب ہمیں نہیں بتایا گیا

کچھ دنوں پہلے ایک سندھی صحافی نے فیصل آباد کی ایک تصویر دکھائی کہ جس میں گٹر کے پانی سے بچتے ہوئے ایک جنازہ لے جایا جارہا تھا، تصویر پر کیپشن لکھا تھا کہ یہ لاڑکانہ کا منظر ہے، میں نے اصلاح کرائی تو جواب ملا کہ کیا فرق پڑتا ہے، لاڑکانہ بھی ایسا ہی ہے، ایسے ہی ایک رویے کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب ایاز لطیف پلیجو نے تھر میں ایک ایسے جوڑے کے قتل کو افلاس کا نتیجہ لکھ کر ان کی تصویر کو ٹویٹر پر شئیر کیا، جسے محبت کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی، کیا یہ واقعات دنیا بھر میں نہیں ہوتے مگر سندھ میں ایسے واقعات کا مطلب افلاس ہوتا ہے، راجھستان کی ویڈیوز کو سندھ کی بنا کر پیش کیا جاتا ہے یعنی اینٹی سندھ مہم ایک حادثاتی فعل نہیں بلکہ ایک منظم مہم ہے

پورے پاکستان سے لوگ سندھ روزگار کے لیے آتے ہیں، سندھ سے روزگار کے لیے باہر جانے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، لاڑکانہ، خیرپور اور نواب شاہ میں بھی غیرمقامی افراد روزگار کے لیے آتے ہیں اور کراچی میں مقامیوں کی تعداد کم ہے اور غیرمقامی زیادہ ہیں، اگر سندھ تباہ حال ہوتا تو یہاں کیوں باہر سے دوسرے لوگ کمانے آتے، کوئی یہ سوال نہیں کرتا

سندھ کے حوالے سے مثبت بات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ سندھ پیرس بن گیا، سندھ میں بدترین انتظامی مسائل ہیں مگر پاکستان کے دوسرے صوبوں سے موازنہ کیا جائے تو سندھ میں کم مسائل ہیں، مسائل اور تباہی میں فرق ہوتا ہے، تباہی کے تذکرے کی وجہ سے مسائل پر سے فوکس ہٹ گیا ہے، تباہی کا ذکر کرنے والوں کو مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ بس انتقام لینا چاہتے ہیں

کراچی میں کچرے کو مسئلہ کشمیر بنادیا گیا، کراچی میں یومیہ 15 ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے، اگر یہ ٹھکانے نہ لگایا جائے تو صرف تین دن میں کراچی میں کچرے کے علاوہ کچھ اور نہ ہو، شہرقائد کے چھ اضلاع ہیں جن میں سے ابتدائی طور پر دو میں چینی کمپنی صفائی کا کام کررہی ہے جبکہ اس کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے، اگر کسی مخصوص انتظامی غفلت کو بنیاد بنا کر پورے کراچی کی منفی منظرکشی کی جائے گی تو یہ ڈیڑھ کروڑ افراد کے گھر کی توہین ہے

میں نے پیپلزپارٹی والوں سے رابطہ کیا اور ان سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جو کام کرتے ہیں، اسے منظرعام پر کیوں نہیں لاتے، مجھے بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے اپنے کاموں کو بیان کرنے کے لیے 82 نیوز کانفرنسز کیں مگر میڈیا نے کسی نیوز کانفرنس کو کوریج نہیں دی، یہ پیپلزپارٹی والوں کا عذر ہے ورنہ یہ جماعت میڈیا کے محاذ پر بری طرح فلاپ ہوچکی ہے، سندھ کی منظم منفی منظرکشی کی ایک وجہ پیپلزپارٹی کا اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونا بھی ہے گویا سندھ اپنی بدنامی کی صورت میں پیپلزپارٹی والوں کی سیاسی دشمنیوں کی قیمتیں بھی ادا کررہا ہے

سندھ میں سندھ کی منفی منظرکشی کرنے والوں کا ذہنی رجحان قوم پرستانہ اور مذہبی شدت پسندی سے عبارت ہے، ان کی باتیں سن کر معتدل یا سندھ سے باہر رہنے والا طبقہ بھی یہی رائے بناتا ہے، معتدل طبقے کی رائے کو مکالمے سے تبدیل کرنا ممکن ہے مگر بپھرے ہوئے اس اینٹی سندھ طبقے کو کیسے روکا جائے جو ایک جانب سندھ کی محبت کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور دوسری جانب سندھ کے امیج کی دھجیاں بھی اڑارہا ہے، حقیقت میں یہ سندھ کا اہم ترین مسئلہ ہے

مسائل کو تباہی قرار دینا اور صرف سندھ کا منفی تذکرہ کرنا بدنیتی ہے، خبروں کی ترسیل کے نظام میں یہ ایک گڑبڑ ہے، سوشل میڈیا پر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے، ان کو اشتعال دلا کر ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیا جارہا ہے، ایسے میں صحافیوں کے لیے درست منظرکشی ایک سوہان روح ہے کہ انہیں سب سے پہلے درباری اور لفافہ ہونے کے الزام سے گزرنا پڑتا ہے مگر درست بات کا بیان کلمہ حق کے مترادف بھی ہے اور صحافیوں کو یہ مزاحمت کرنا ہوگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).