سپورٹس سائنسز کانفرنس اور سپورٹس سائنسز کے طلبہ و طالبات کے رویے


ہمارے ملک میں کھیل کے میدان میں پرفارمنس اتار چڑھاؤ کا شکار رہتی ہے، ریسرچ، ٹیچنگ اور کوچنگ کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے صرف ٹیلنٹ پر انحصار کیا جاتا ہے، اگر ٹیلنٹ نہیں ملے تو ہم کھیل کے میدان میں پیچھے رہ جائیں گے۔ دنیا ہر فیلڈ میں ریسرچ پر یقین رکھتی ہے سپورٹس سائنسز پر دنیا میں بہت زیادہ ریسرچ ہورہی ہے اور ریسرچرز کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں سپورٹس سائنسز پر ریسرچ پر توجہ نہیں دی جارہی۔ اس مقصد کے لئے گزشتہ ہفتے اپنے ادارے کی جانب سے منعقد ہونے والی سپورٹس سائنسز کے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں مصروف رہا جس کو سرحد یونیورسٹی پشاور، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان، یونیورسٹی آف پنجاب اور ہائیر ایجوکیشن سمیت کچھ انٹرنیشنل اداروں نے ارگنائز کیا تھا۔

وہاں جاکر مجھے پاکستانی قوم کے نوجوانوں لڑکے اور لڑکیوں یعنی سپورٹس سائنسز کے طلبہ نے بہت مایوس کیا۔ وہ جس انداز میں برتاؤ کر رہے تھے اس سے لگ رہا تھا کہ یہ کانفرنس نہیں بلکہ انجوائمنٹ کے لئے آئے ہیں۔ نوجوانوں میں ملک سے دور بھاگنے یعنی ملک چھوڑ کر جانے کی خواہش زوروں پر رہی جبکہ لڑکیاں سیلفیوں کی جنون میں اپنی اقدار بھلا بیٹھی تھیں۔ سپورٹس سائنسز پاکستان میں ایمرجنگ شعبہ ہے جس میں پاکستان میں اتنی تحقیق نہیں ہورہی جتنی یورپ اور باہر دنیا میں ہورہی ہے جس کا اندازہ اس کانفرنس میں ہوگیا۔ ڈاکٹر عبدالوحید مغل نے طلباء کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا تھا۔ مگر وہاں مجھےسپورٹس سائنسز کے لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے رویوں نے نے مایوس کیا۔

کانفرنس میں فرانس، جرمنی، سلوانیہ، چین، امریکہ، مصر، کولمبیا اورچیک ری پبلک سمیت دیگر ممالک سے سے13ریسرچرز سکالرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور ماہرین شریک تھے۔ ہمارے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ان انگریزوں کے پیچھے تھی۔ جب بھی موقع ملتا یعنی وہ تحقیق کے سیشن سے فارغ ہوتے پاکستانی نوجوان انگریزوں کا گھیراؤ کرتے۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ یہ نوجوان اُن سے علمی بحث کرتے مگر افسوس ہمارے نوجوان اُن سے ایک ہی بات کرتے۔ ہمیں اپنے ملک میں اپنی یونیورسٹی میں داخلہ دیدو۔ ہم وہاں انا چاہتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کا کانفرنس میں آنے کا شاید یہی مقصد تھا کہ وہ ملک چھوڑ کر نکل جائیں۔ جس سے مجھے بہت خفت ہوئی کہ ہماری نوجوان نسل کہاں جارہی ہے۔ مگر یہاں ہم ان کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ جہاں انصاف نہ ہو اور میرٹ کی دھجیاں بکھیری جارہی ہوں وہاں یہ کچھ ہی ہوگا۔ ہر فرد ملک سے باہر بھاگنے کے لئے جائز اور ناجائز طریقے اپنائے گا۔ جو اس کانفرنس میں مجھے نظر ایا کہ ہماری قوم مایوسی کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔

دوسری جانب کانفرنس میں لڑکیوں کے طور طریقوں نے پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔ وہ لڑکیاں جن کو اگر پاکستانی مرد صرف گھور لیں تو آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں کہ ہمیں جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ ہماری عزتیں کہیں بھی محفوظ نہیں مگر اس کانفرنس میں آبیل مجھے مار والی کہاوت کی سمجھ آگئی کہ یہ محاورہ کیوں میدان میں آیا ہے جو ڈریسنگ سپورٹس سائنسز کی موصوفاؤں نے کی تھی اُس سے شرفاء کا پھسلنا بھی لازمی امر تھا۔ ان سپورٹس سائنسز کی لڑکیوں کا محور فیشن تھا اور سیلفیوں کا جنون تھا۔ جن کی کانفرنس کے دوران علمی بحث میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔

کانفرنس جس مقصد کے لئے منعقد کی گئی تھی اس میں اُن کا کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔ کیونکہ اُن کا سارا زور فیشن پر تھا یا پھر غیر ملکی مندوبین کے ساتھ سیلفی لینے کاجنون تھا۔ سیلفی کے اس جنون میں وہ اپنے اقدار بھی بھول گئیں تھی سیلفیوں کے اس جنوں نے انہیں پاگل بنا لیا تھا ماہرین کا تو خیال ہے سیلفی کے جنون لوگوں کی یہ عادت درحقیقت انسان کے اندر چُھپی سرپرستی کی عادت یا کم تری کی عادت کو ظاہر کرتی ہے۔ مگر یہاں کچھ اور ہی ظاہر کیا جا رہا تھا۔ کانفرنس میں شریک لڑکیوں کو جوں ہی کوئی موقع ملتا گوروں کے ساتھ چمٹ جاتی اور عجیب سا مُنہ بنا کر اُن کے ساتھ سیلفی بنا لیتی۔ ان لڑکیوں نے انگریزوں کو پریشان کر لیا تھا وہ ان سے کھنچے کھنچے سے رہتے تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ پاکستان کا کلچر کیسا ہے اگر لڑکیوں کے نزدیک جائیں گے تو شاید یہ برا منائیں۔ مگرہماری پاکستانی لڑکیوں نے اپنی قدریں بھلا دیں تھیں وہ ان کے ساتھ چپک کر تصویریں نکال رہی تھیں۔ اور پاکستانی نوجوان اپنی قسمتوں کو کوس رہے تھے کہ لڑکیاں پاکستانی نوجوانوں کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھیں اور انگریزوں کے ساتھ سیلفیاں لے کر ملک کا نام روشن کر رہی تھیں اس سیلفی کے سرطان میں مبتلا لڑکیوں اور ملک سے دور بھاگنے والے لڑکوں نے مجھ پر اس کانفرنس کی بہت سی جہیتیں واضح کردیں۔

سیلفی کا بخار اب سرطان بن چکا ہے، وہ بھی لاعلاج! یہ سیلفیاں خودپسندی کے جراثیم اتنی تیزی سے پھیلا رہی ہیں کہ خود جراثیم پریشان ہوگئے ہیںاور سوچ رہے ہیں، ہم اتنے برے تو نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).