تھوڑی سی عزت چاہیے


ہمیں تھوڑی سی عزت دے دو نام، ہم عزت کے بھوکے ہیں ہم عورتیں جو ماں باپ کے گھر ایک سے دوسری بیٹی پیدا ہوتے ہی قابل تعزیر ٹھہرائی جاتیں ہیں۔ بیٹے کے پیدا نہ ہونے میں ان کا قصور نہیں پھر بھی جھینپی جھینپی رہتی ہیں۔ گھر میں بیٹے کے پیدا ہوتے ہی بیٹیوں کو کچرے کی طرح ایک طرف کر دیا جاتا ہے، ہر اچھی چیز کا حقدار بیٹا یہاں تک کہ کھانا کھاتے وقت بھی گرم روٹی اور بوٹیاں بیٹے کی پلیٹ میں اور بچا کھچا شوربہ بیٹیاں کھاتی ہیں۔ اسکول جانے کی باری آتی ہے بیٹے کو پرائیوٹ اسکول میں داخل کروایا، ارے لڑکیوں کو کونسا نوکری کرنی ہے انھیں گورنمنٹ اسکول میں ڈال دو پڑھ لیں گی نہ پڑھیں تو شادی کردیں گے، بھولے بھٹکے ان لڑکیوں میں کوئی اچھا پڑھ گئی تو اسے آگے پڑھنے کے لیے کتنی منتیں کرنی پڑتیں ہیں یہ وہی جانتی ہے۔

کچھ گھر سکون کے بھی ہوتے ہیں دولت کی ریل پیل بیٹی آنکھ کا تارا تو بیٹا راج دلارا لیکن یہاں دولت پیسہ آڑے آتا ہے، گھر کی دولت گھر میں رہے پڑھی لکھی لڑکی کو خاندان کے میٹرک پاس سے بیاہ دیتے ہیں، اب اس کی زندگی تو روز عذاب سہتی ہے کچھ کہتی ہے تو تعلیم کا رعب مارتی ہے کچھ نہیں کہتی تو غرور ہے ابھی چوٹی سے پکڑ کر چار چوٹ کی مار دوں گا سارا غرور خاک میں مل جائے گا۔

غیرت کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے اگر پڑھی لکھی لڑکی نوکری کی بات کرے، کچھ سمجھدار ہوتے ہیں تو پڑھی لکھی جاب کرتی بیوی کی قدر کرتے ہیں جب موقع ملتا ہے کہہ دیتے ہیں یہ نہ سمجھنا تمھارے پیسوں کی وجہ سے چپ ہوں، زیادہ نخرہ دکھایا تو نوکری چھوڑو گھر بیٹھو۔ نوکری کرنے والی کتنی مصیبتوں اور مشکلوں سے گھر سے دفتر آتی ہے وہاں بھی گھورتی نظریں اس کا پوسٹ مارٹم کررہی ہوتیں ہیں، ارے ایسے ویسے گھر کی ہوگی جو کمانے نکلی ہے یہ رویہ اکثر و بیشتر ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ، بازار، دفاتر راستوں پر جان بوجھ کر عورت کو کندھا مارتے یا ہاتھ چھواتے گزرنا پست ذہنیت کے مردوں کا شیوا ہے، کسی سے ہنس کر بات کر لی تو آوارہ کا خطاب مل جاتا ہے۔ ایک خاصی مشہور شخصیت پانامہ کیس میں بڑا نام سننے میں آیا فرماتے ہیں ” ایک کلو میٹر دور سے عورت کا کردار پہچان جاتا ہوں“، آنکھوں میں لیزر گن فٹ ہے جو اتنے دوربین ہیں۔ کاش یہ سب عورت کی عزت کرنا سیکھ جائیں، عورت کو اس کے ہر روپ میں عزت دیں تھوڑی سی عزت کی بھوکی ہے یہ عورت۔ عورت کو اد کا جائز مقام تو دو پھر دیکھو معاشرے میں کیسے سکون آتا ہے، اپنے آپ کو ماوارائی مخلوق سمجھنے کے بجائے عورت کے برابر لاکھڑا کرو وہ جیتی جاگتی انسان ہے، وہ عزت تو دو جس کی حقدار ہے پھر دیکھو وہ کیسے تم پر اپنا آپ نچھاور کرتی ہے کیسے تمھارے روم روم میں بس جاتی ہے۔

کاش مردوں کے اس معاشرے میں عورت کی عزت کا شعور بیدار ہوجائے، حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے کسی انسان کے لیے نہیں۔ گھر کی عورتون کی عزت کرو چاہے ماں، بہن، بیوی یا بیٹی جس روپ میں ہو ایسے ہی باہر کلاس فیلوز، کولیگز، راستے میں چلنے والی اجنبی عورت، گھروں میں کام کرنے والیاں ہر عورت عزت کے لائق ہے۔ مانا کہ کچھ بدکردار ہوتیں ہیں تو کیا مرد بد کردار نہیں ہوتے لیکن مٹھی بھر کے کیے کی سزا سب کو نہیں دی جاسکتی بلکہ بد کردار کو بھی حسن سلوک سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ تھوڑی سی عزت درکار ہے ملے گی! کی عورتوں کی عزت کرو چاہے ماں، بہن، بیوی یا بیٹی جس روپ میں ہو ایسے ہی باہر کلاس فیلوز، کولیگز، راستے میں چلنے والی اجنبی عورت، گھروں میں کام کرنے والیاں ہر عورت عزت کے لائق ہے۔ مانا کہ کچھ بدکردار ہوتیں ہیں تو کیا مرد بد کردار نہیں ہوتے لیکن مٹھی بھر کے کیے کی سزا سب کو نہیں دی جاسکتی بلکہ بد کردار کو بھی حسن سلوک سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ تھوڑی سی عزت درکار ہے ملے گی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).