کیپٹن صفدر ۔۔۔۔ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ


نجانے اللہ تعالیٰ کو اس قوم کی آزمائش کب تک منظور ہے ۔ کیسے کیسے بالشتیئے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں، قوم کے سر پر سوار ہیں، کن ہاتھوں میں عنان حکومت ہے۔ اور یہ لوگ قانون سازی کرکے اس ملک کی تقدیر اور آنے والے کل کے فیصلے کر رہے ہیں ۔

کیپٹن صفدر کی دس اکتوبر کو قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کی بازگشت آج سارا دن سنی جاتی رہی۔ موصوف اسمبلی کے فلور پہ خوب گرجے، برسے۔ لیکن تان اس بات پر توڑی جس کا سارے فسانے میں کہیں ذکر نہ تھا۔ ملک میں عمران خان کے دھرنوں، جے آئی ٹی، نواز شریف صاحب کی نااہلی، نیب کیسز، موصوف کی گرفتاری، اہل خانہ کو اشتہاری قرار دیئے جانے سمیت وہ کون سی بات تھی جو آج کی ان کی تقریر سے مطابقت رکھتی تھی۔ اس میں پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کا کیا کردار تھا یا ہے کہ موصوف نے سارا غصہ ان پر نکال دیا۔ کس احمدی نے پانامہ کیس میں کیا کردار ادا کیا کہ تان ٹوٹی تو احمدیوں پر؟

کیپٹن (ر)صفدر صاحب کو یاد کرایا جائے کہ اگر ختم نبوت کی ترمیم آپ کی اس تقریر کی وجہ بنی تو وہ ترمیم صحیح تھی یا غلط، مسلم لیگ (ن) نے پیش کی تھی اور انہوں نے اپنی ”غلطی سدھار“ بھی لی ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی تو ایک طرف اس وقت پورے پاکستان کی کسی بلدیاتی حکومت میں کوئی ایک کونسلر بھی احمدی نہیں ہے۔ جہاں تک جرنیلوں کی بات ہے اس وقت پاکستان آرمی میں غالباً برگیڈیئر یا اس سے اوپر رینک کا کوئی بھی احمدی افسر موجود نہیں ہے۔ پھر اس وقت انہیں کس رکن اسمبلی کے حلف یا جرنیل کی وفاداری پر شک ہوا جو اتنی گرما گرم تقریر قومی اسمبلی کے فلور پر کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ اگر تو ان کا اشارہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف ہے جن پر ان کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری کے وقت بھی اعتراضات اٹھے تھے تو وہ واضح کرچکے ہیں کہ ان کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ویسے کیپٹن صفدر صاحب آپ کی یاد داشت شاید زیادہ ہی کمزور ہے کہ حلف میں ترمیم کی طرح جنرل باجوہ کی تقرری بھی آپ ہی کی حکومت نے کی تھی۔

کتاب یا تاریخ سے تو شاید کیپٹن صفدر صاحب کی زیادہ شناسائی نہیں وگرنہ ان کو یاد کرا دیا جائے کہ اسی پاکستان کی اسمبلی میں احمدی سر ظفراللہ خان ممبر رہ چکے ہیں بلکہ جس مسلم لیگ کی طرف منسوب ہونے کا آپ کو دعویٰ ہے ظفراللہ خان اس کے صدر رہ چکے ہیں۔ انہی ظفراللہ خان کو حضرت بابائے قوم نے وزیر خارجہ بھی مقرر کیا اور کشمیر کا مقدمہ لڑنے یو این او بھجوایا تھا۔

جرنیلوں کی طرف آئیں تو شاید آپ نے جنرل (ر) اختر حسین ملک کا نام سنا ہو، پرانی کتابوں میں اس سپوت پاکستان کی تصاویر ہوا کرتی تھیں۔ پھر انہی کے بھائی جنہوں نے چونڈہ کے محاذ پر دشمن کا ناکوں چنے چبوائے تھے ان کا نام برگیڈیئر (بعد میں جنرل) عبدالعلی ملک تھا۔ شاید چھمب جوڑیاں محاذ کے ہیرو جنرل(ر) افتخار جنجوعہ کا کیپٹن صفدر صاحب کو کوئی علم ہو ۔ اگر نہیں تو ہم ان کے علم میں اضافہ کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ یہ تینوں جرنیل احمدی تھے ۔ ان کے علاوہ جنرل (ر) نذیر احمد، ائیر مارشل (ر) ظفر چوہدری، جنرل (ر) محمود الحسن، جنرل (ر) ناصر احمد،جنرل (ر) مسعود الحسن نوری فوج کی سینئر پوزیشنز پر اپنے وطن کی خدمت کرچکے ہیں، ان کو اعلیٰ فوجی اعزازات سے نوازا گیا اور یہ سارے افسران احمدی بھی تھے۔اگر ان لوگوں سے کوئی گلہ شکوہ پیدا ہوا یا ان پر کوئی الزام کیپٹن صفدر کے علم میں ہے تو کیوں قوم کو اس سے باخبر رکھا جا رہا ہے؟

اسی طرح کیپٹن صفدرکو یہ بھی گلہ پیدا ہوا ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی نے شعبہ فزکس کا نام پاکستان کے واحد نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے کیوں موسوم کیا گیا ہے؟ موصوف کو اگر سائنس سے کوئی علاقہ ہو یا گوگل کرسکیں تو اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں فزکس کے اعلیٰ ادارے کا نام” عبدالسلام انٹرنیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس“ رکھا گیا ہے۔ سویٹزر لینڈ میںRoute Abdul Salamاور کینیڈا میں عبدالسلام سٹریٹ کے نام سے سڑکیں موجود ہیں۔ اگر حکومت پاکستان نے ڈاکٹر صاحب جیسی نابغہ ہستی کی وفات کے کئی سال بعد ایک یونیورسٹی کے ایک ڈیپارٹمنٹ کا نام اس عبقری کے نام سے موسوم کرنے کی جرات کرلی ہے تو اس سے کیپٹن صاحب کے جذبہ ایمانی کو کیا خطرہ پیدا ہوا ہے؟

کیپٹن صاحب ان باتوں کا کوئی محل تھا نہ موقع۔ ان باتوں کی ضرورت کیا پیش آئی تھی کہ آپ اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے لئے نفرت پھیلانا شروع ہوگئے ہیں۔ براہ کرم یہ بے وقت کی راگنی بند کریں، قوم میں نفاق پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں وگرنہ نفرت کی دیواریں مزید بلند ہوجائیں گی جن میں آپ کا بھی دم گھٹ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).