ختم نبوت پر سیاست کے نتائج اندوہناک ہوں گے


پاکستان کی ایک چھوٹی سی اقلیت کے خلاف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی دھواں دار تقریر کسی مذہبی جذبہ کے تحت نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کےلئے کی گئی ہے۔ ورنہ خود بدعنوانی کے سنگین الزامات میں ملوث شخص کو اچانک احمدیوں کی طرف سے مملکت کو لاحق خطرات کا اندیشہ ناقابل فہم ہے۔ انہیں تو خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دینے کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اگر وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنی عقیدت اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری نبی کے فرمودات کے بارے میں اتنے ہی حساس اور جذباتی ہیں تو انہیں عدالتوں میں اپنی اہلیہ اور ان کے خاندان کے جرائم کی پردہ پوشی کی بجائے، وہ ساری معلومات صدق دل سے سامنے لانے کی ضرورت ہے جو خاندان کے رکن کے طور پر ان کے علم میں ہیں تاکہ اگر نواز شریف اور دیگر اہل خاندان نے کوئی جرم کیا ہے یا بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں تو انہیں اپنے کئے کی سزا مل سکے۔ اس کے برعکس کیپٹن صفدر جب سپریم کورٹ کی نگرانی میں بننے والی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو انہوں نے خود کو فقیر منش، قانع اور دنیا سے بے غرض شخص کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تھی۔ البتہ وہ یہ بتانے سے قاصر رہے تھے کہ ان کے بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور پرتعیش زندگی کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں۔ جو شخص اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنے کے قابل نہیں ہے، اب قومی اسمبلی میں تقریر کے ذریعے پوری قوم کو ایک ان دیکھی تباہی سے بچانے کا دعویٰ کرکے دراصل نفرت اور تعصب کے ایک ایسے طوفان کو دعوت دے رہا ہے جو ملک کے بحران کو مزید سنگین کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

قومی اسمبلی کے رکن کے طور پر آج ایوان میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے فوج اور عدلیہ سمیت تمام شعبوں میں احمدی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو برطرف کرنے اور عدلیہ کے اعلیٰ ججوں پر یہ لازم قرار دینے کا مطالبہ کیا کہ وہ ختم نبوت پر یقین کا حلف اٹھائیں۔ ان کے بقول احمدی پاکستان کے دشمن ہیں کیوں کہ وہ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے۔ عقیدہ کی بنیاد پر کسی شہری کی وفا داریوں کا تعین کرنے سے جو نتائج سامنے آ سکتے ہیں، اس کا اندازہ ملک میں پہلے سے جاری فرقہ وارانہ کشیدگی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہر فرقہ، دوسرے عقائد کے بارے میں نہ صرف اختلاف رائے کا اظہار کرتا ہے بلکہ نہایت آسانی سے کسی کو بھی کافر قرار دینا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ اس مزاج اور رویہ کو راسخ کرنے کی وجہ سے ہی ملک کے توہین مذہب کے قوانین کے تحت عدالتوں کو فیصلہ کرنے کا نہ موقع ملتا ہے اور نہ ہی حوصلہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے شیدائی ہونے کے دعویدار اور حب رسول کے نعرے لگاتا ہجوم عام طور سے کسی شخص پر الزام بھی خود ہی عائد کرتا ہے اور پھر اس کی موت کا فیصلہ صادر کرکے اس پر عملدرآمد کرنے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

محلے گلیوں اور دیہات کی مساجد کے کوتاہ نظر اماموں کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں معصوم انسانوں کو تشدد سے ہلاک کرنے کے متعدد واقعات رجسٹر کئے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے بعض انتہا پسند مذہبی گروہ ان قوانین کا سہارا لے کر فتوے بھی جاری کرتے ہیں اور مسلح گروہوں کے ذریعے لوگوں کی ہلاکت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ملک میں خاص طور سے احمدی عقیدہ اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تواتر سے ایسے گروہوں نے اپنا نشانہ بنایا ہے۔ ان واقعات پر حکومت کی طرف سے ہمیشہ مذمتی بیانات سامنے آتے ہیں لیکن عملی اقدامات دیکھنے کو نہیں ملتے جبکہ ملک کا مذہبی طبقہ اقلیتی عقائد یا مسلک سے تعلق کی بنا پر قتل و غارتگری کے واقعات پر عام طور سے چپ سادھ لیتا ہے۔ علمائے دین کی اسی بے حسی اور معاشرتی بے گانگی کا نتیجہ ہے کہ مذہب کو محبت، ہم آہنگی ، وسیع المشربی اور بقائے باہمی کا ذریعہ بنانے کی بجائے تشدد، مار پیٹ اور نفرت و حقارت پھیلانے کا سبب بنا لیا گیا ہے۔ دوسری طرف اگر سیاسی مفادات کا سوال درپیش ہو یا کسی معاملہ میں اہمیت جتانا مقصود ہو تو دین کے یہی ٹھیکیدار مذہب کی آن پر اپنی جان قربان کرنے کے نعرے لگاتے، لوگوں کو گمراہ کرنے اور بہکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ احمدیوں سمیت اقلیتی عقائد کے خلاف نفرت انگیز گفتگو کا چلن اسی لئے عام ہو رہا ہے کیوں کہ اسلام کے نام پر دکان چمکانے والوں نے مذہب و عقیدہ کو ذاتی تفہیم تک محدود کرنے کے علاوہ اس تفہیم کو دوسروں کے خلاف نفرت عام کرنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں کوئی بھی اس پرتشدد طریقہ کار سے محفوظ نہیں ہے اور انتہا پسندی کا یہ رویہ خوں ریزی اور دہشت گردی میں اضافہ کے ذریعے ملک کے وجود کےلئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ لیکن نہ دین کے رہنما اور شناور اس رجحان کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ کرتے ہیں اور نہ سیاستدان اس مزاج کو اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرنے سے باز آتے ہیں۔

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں انتخابی قواعد میں ترمیم کے قانون کی منظوری کے بعد یہ موشگافی کی گئی کہ اس میں سے ختم نبوت پر ایمان رکھنے کا حلف نامہ نکال دیا گیا ہے۔ ملک کے سارے سیاستدان اس معاملہ کو لے کر حکمران جماعت کو زیر کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہو گئے اور چھوٹے بڑے مذہبی گروہوں اور تنظیموں نے نواز شریف اور حکومت کے خلاف جلوسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسی صورتحال پر قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال نے یہ اعلان کیا تھا کہ اپنا عقیدہ ثابت کرنے کےلئے کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ملک میں کفر کے فتوؤں کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ وزیر داخلہ کی بات اصولی طور پر بالکل درست ہے لیکن حکومت میں شامل ہونے کے باوجود احسن اقبال اس رجحان کو ختم کرنے کےلئے عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔ آج نواز شریف کے داماد اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن صفدر کا بیان وزیر داخلہ اور پوری حکومت کی کارکردگی کے علاوہ اس کی نیک نیتی پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ جو حکومت قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کو اپنا اولین مقصد قرار دیتی ہو اور جو ملک میں مختلف عقائد کے درمیان بھائی چارے کے فروغ کےلئے کام کرنے کا عزم رکھتی ہو، اسی پارٹی کا ایک اہم رکن اسمبلی کیوں کر عقیدہ کی بنیاد پر شہریوں کی وفاداری کے بارے میں شبہات کا اظہار کر سکتا ہے۔

وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی اس معاملہ میں خاموشی سے صرف اس شبہ کو تقویت ملے گی کہ کیپٹن صفدر کا بیان کسی جذبہ ایمانی کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ اس کے درپردہ نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مقصد کو انتخابی اصلاحات کے قانون پر اٹھنے والے الزامات کے نتیجہ میں خراب ہونے والی سیاسی ساکھ بحال کرنے کی کوشش ہے۔ دوسرا مقصد فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنانا ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر نے اپنی تقریر میں 1971 کے سقوط ڈھاکہ کی وجہ اعلیٰ فوجی عہدوں پر احمدی عقیدہ کے بعض افراد کی تقرری کو قرار دیا ہے۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی ختم نبوت کے حلف نامہ پر دستخط کریں۔ اس طرح ان دونوں اداروں کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کےلئے یہ اوچھا ہتھکنڈا اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کیپٹن (ر) صفدر سوموار کو اپنی اہلیہ مریم نواز کے ہمراہ وطن واپس آئے تھے۔ ان پر نیب نے بدعنوانی کے ریفرنس دائر کئے ہوئے ہیں۔ ان مقدمات میں گرفتاری، پیشی اور ضمانت کے بعد آج وہ ختم نبوت کا مقدمہ لڑنے قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما جو اصول ملک کے احمدیوں پر نافذ کرنا چاہتے ہیں اگر برطانیہ اور دیگر ممالک کے حکام اور عوام وہی اصول مسلمانوں یا پاکستانیوں پر منطبق کرنا شروع کر دیں تو نہ تو نواز شریف کے صاحبزادگان برطانیہ میں اربوں کا کاروبار چلا سکیں گے اور نہ کیپٹن صفدر یا ان کے بچوں کو مختلف ممالک میں داخل ہونے اور وہاں پرتعیش زندگی گزارنے کا موقع مل سکے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے بعض مسلمان ملکوں کے امریکہ داخلہ پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا تھا لیکن انہوں نے اسے مسلم عقیدہ کے خلاف اقدام قرار نہیں دیا تھا۔ اس کے باوجود دنیا بھر کے علاوہ امریکہ میں اس متعصبانہ فیصلہ کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ پاکستان میں سیاستدان مثالیں تو امریکہ اور برطانیہ کی دیتے ہیں لیکن ان معاشروں کی ترقی و عروج کا سبب بننے والے اعلیٰ انسانی اصولوں کی ترویج کےلئے کوئی کام کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔

ملک کے سیاستدان اور علمائے دین اگر واقعی پاکستان کو ایک ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جو نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسوۃ کے مطابق سب کو انصاف اور سماجی قبولیت فراہم کرے گا تو ملک کے ہر کونے میں کیپٹن صفدر کے اشتعال انگیز، نفرت سے بھرپور اور جاہلانہ دعوؤں سے لبریز بیان کے خلاف احتجاج کی صدا بلند ہونی چاہئے تھی۔ ملک کی اقلیتوں کو بدنیت قرار دے کر ان سے زندگی کی سہولتیں اور بنیادی حقوق واپس لینے کی بات کرنے والا معاشرہ اس رسول کی تعلیمات پر کاربند نہیں ہو سکتا جس نے دوست دشمن سب کےلئے محبت اور امن کا پیغام دیا ہے۔ اہل پاکستان اور مسلمان یہ بات سمجھ سکیں، تب ہی کھوئی ہوئی منزل پا سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali