سیاسی داؤ پیچ میں مذہب کہاں سے آ گیا؟


مرشد نے فرمایا، “ہم غریب ہوئے اور غربت کے تمام معنوں میں غریب ہو گئے۔ ایسی غربت جو ہر صورت میں کثیر جہتی تھی۔”

موجودہ ہفتے ہم مذہبی سیاست کے ذریعے پوائنٹ سکورنگ کے دو واقعات دیکھتے ہیں۔ ایک بیان شیخ رشید نے دیا جس کے بعد نواز حکومت نہایت پھرتی سے حرکت میں آئی اور شکایت کا سدباب کر دیا۔ جوابی حملہ کیپٹن صفدر نے کیا اور احمدی مخالف پوائنٹ سکورنگ کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ مذہب کے نام پر ہم لوگ کب تک اسی طرح بے وقوف بنائے جاتے رہیں گے؟ جو الیکشن میں منتخب نہیں ہوتا وہ اپنے تمام سیاسی داؤ پیچ  مذہبی پریشر گروپس کو بیچ میں ڈال کے کھیلتا ہے۔ جو سمجھتا ہے اسے عدلیہ یا مقتدرہ سے اتفاق نہیں ہے وہ مذہب کی آڑ لے کر من چاہے بیانات دیتا ہے۔ کیا احمدی آئین کی رو سے اس ملک کے قابل احترام شہری نہیں ہیں؟ کیا طالبان یا ویسے رجحانات رکھنے والوں کے خلاف اس طرح کٹ تھروٹ بیان کبھی کیپٹن صفدر نے دیا؟ کیا فوج اور احمدیوں کو اس درجے کی مذہبی سیاست میں ملوث کرنے کے بعد اگلا نمبر دوسری اقلیتوں کا نہیں ہو گا؟ کیا ان دوسروں میں پہلا نمبر شیعوں اور مزاروں پہ جانے والوں کا نہیں بنتا؟ روحی کنجاہی نے بھلے وقتوں میں کہا تھا؛
اپنی شہ رگ تک آنے والا ہوں
ایک رگ روز کاٹتا ہوں میں

مسلمانوں کے زوال پر مذہبی سوچ رکھنے والے مفکرین نے جب بھی روشنی ڈالی تو اہم ترین نکتہ یہ سامنے آیا کہ انہوں نے بہت سے دوسرے عقیدوں کی ان گنت چیزیں اپنے اندر جذب کر لی ہیں اور جب تک معاملات اپنی اصل تک واپس نہیں لائے جاتے اس وقت تک مسلمان اسی طرح تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرتے رہیں گے۔ یہ نظریہ اپنانے کے بعد اس چیز پر کام شروع ہوا کہ دین کو خالص کیسے بنایا جائے اور جلد از جلد یہ کام کس طرح ممکن ہو کہ امت دوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑی ہو سکے۔

اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ نے سب سے پہلے احمد شاہ ابدالی سے خط و کتابت کی۔ وہ ۱۷۶۲ میں نجات دہندہ بن کر آ گیا اور اپنا مشہور زمانہ حملہ کیا۔  ۱۸۱۸ میں حاجی شریعت اللہ نے فرائضی تحریک بنگال میں شروع کی۔ ان کا ٹارگٹ ان پڑھ کسان تھے۔ ہندوستان دارالحرب قرار پایا اور وہ تمام رسوم جن کا ذکر قرآن شریف میں نہ ہو، باطل قرار پائیں۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں اپنے امیر مقرر کیے جو خلیفہ قرار پائے اور ان کے ذمے پنچائتی فیصلے ہوا کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لاء اینڈ آرڈر سسٹم کا رخ نہ کریں۔ کسانوں کی حمایت انہیں یوں بھی حاصل ہو گئی کہ انہوں نے زرعی زمین کے ٹیکس کو باطل قرار دے دیا تھا۔

اس کے بعد سید احمد شہید کی تحریک تھی۔ وہ بھی اسی دور کے آس پاس یوں زور پکڑ گئی جب ۱۸۲۳ میں سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف جہاد کا اعلان کردیا۔ اس اعلان سے پہلے یہ تحریک بھی اصلاحی مقاصد کا بیڑہ اٹھائے شروع ہوئی تھی جس میں اسلامی حکومت کا قیام، جہاد کی فضیلت اور بدعتوں کے خاتمے کو فوکس کیا جاتا تھا۔

تیتو میر، مسلم تاریخ کے ایک اہم کردار، سید احمد شہید سے بہت متاثر تھے۔ وہ حج کر کے واپس آئے تو انہوں نے بھی اپنے خلوص سے اس زوال کا سدباب کرنے کی ٹھانی۔ کلکتہ کے ساتھ واقع ایک گاؤں میں انہوں نے اپنا مرکز بنایا اور جب بہت سے لوکل کسان ان کے مرید ہو گئے تو انہوں نے مختلف ٹیکسوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے آزادی کا اعلان کر دیا۔
یہ تینوں اصلاحی تحریکیں انگریزوں نے بزور بازو دبا دیں۔ پھر ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں بغاوت کی بنیادی وجوہات میں سے ایک جب مولانا فضل حق خیر آبادی کا فتوی ثابت ہوئی تو اس کے بعد سارا مدعا مسلمانوں کی گردن پر آ پڑا اور وہ سیاسی طور پہ بہت کمزور ہو گئے۔ عسکری طور پہ ان تین تحریکوں میں کوشش کر کے دیکھ چکے تھے، چوتھی کوشش، ستاون کی بغاوت تو مکمل جنگ تھی، وہ بھی ہو گئی، اب بقا کا سوال تھا۔ زندہ بھی رہنا تھا اور جہاد بھی ناممکن ہو چلا تھا۔ اصلاحی تحریکیں اب تعلیم کے ذریعے اپنا کام کرنا شروع ہو گئیں۔

مدرسہ دیو بند ۱۸۶۶ میں قائم ہوا۔ مولانا قاسم نانوتوی انگریز مشنریوں سے مناظرے بھی کیا کرتے تھے۔ تو مدرسہ قائم ہونے کے بڑے مقاصد میں سے ایک مشنریوں کی تبلیغ کا اثر زائل کرنا بھی تھا۔ اور باقی وہی اصلاحات تھیں جن کا اولین مقصد دین کو بدعتوں سے پاک کرنا تھا اور مسلمانوں کو ستاون کے بعد کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا رکھنا تھا۔

یہ سب کچھ یہیں چھوڑتے ہوئے سینتالیس کے بعد پاکستان کی مذہبی جماعتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ جماعت اسلامی، جمیعت علما اسلام، دعوت اسلامی، منہاج القران، تحریک نفاذ مصطفی، مجلس احرار اسلام، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، سنی تحریک، جمیعت علمائے پاکستان، جمیعت اہل حدیث، سنی اتحاد کونسل، سپاہ محمد، عظمت اسلام بیدار پاکستان، مجلس وحدت المسلمین اور جماعت الدعوہ وغیرہ وہ نام ہیں جو ہمیں وقفے وقفے سے ملکی سیاست کے افق پر طلوع ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تمام جماعتیں مسلمانوں کی راہنمائی کا دعویٰ کرتی ہیں اور ان سب کا حتمی مقصد پاکستان کو اسلامی نظام حکومت کی طرف لے کر جانا ہے۔

۱۸۱۸ ہو یا اس کے دو سو برس بعد آج کا دور ہو، یہ سب جماعتیں اکٹھے کیوں نہ چل سکیں؟ جو بھی فلاح چاہتا تھا اس نے اپنی الگ جماعت کیوں بنا لی؟ اگر مسلمانوں کو متحد کرنا مقصود تھا تو مسلمان تو صاف طور سے تقسیم ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس وقت بھی فضل حق خیر آبادی اور شاہ اسمعیل دہلوی کی آپس میں نہیں بنتی تھی، بلکہ اسی وجہ سے بعد میں جنگ آزادی والے اس تاریخ ساز فتوے کا کریڈٹ بھی ان سے چھیننے کی کوشش چند تاریخ دان کرتے رہے۔ اگر تیتو میر سید احمد شہید سے متاثر تھے تو انہوں نے پہلے سے چلتی ایک تحریک کو جوائن کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ حاجی شریعت اللہ کی تحریک کسی اور مسلم جماعت نے اپنائی کیوں نہیں؟ عین اسی طرح آج دو سو برس بعد بھی ہمارے پاس مذہب کی بیسیوں مختلف قسمیں دریافت ہو چکی ہیں۔ اوپر درج تمام پارٹیاں اپنے اپنے برانڈ کا اسلام لانے کے لیے سچے دل سے کوشاں ہیں۔ اگر یہ سنجیدہ ہیں تو یہ سب آپس میں اتحاد کیوں نہیں کر لیتیں؟ اگر ان کا مقصد امت کو متحد کرنا ہے تو یہ اکٹھی ہو جائیں اور پورے وطن کے صحیح العقیدہ لوگ انہیں جوائن کر لیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا؟ ٹھیک ہو گیا۔

اب اگر دیکھیے تو جہاں جہاں ان کی ضرورت پڑی وہاں وہاں ان سب کو متحد کیا گیا، بعد میں سب اپنی اپنی سیاست کے لیے دوبارہ آزاد ہو گئے۔ قرار داد مقاصد علما کی جوائنٹ کمیٹی نے منظور کی۔ پھر سب الگ ہو گئے۔ بھٹو کے خلاف تحریک کو مذہبی رنگ دیا گیا، سب اکٹھے ہو گئے، بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، مذہبی سیاست میں تشدد کا عنصر شامل ہوا، اس کے بعد جنرل ضیا الحق اسی تحریک کے بل بوتے پر مسند نشین ہوئے، ان کا ریفرنڈم بھی اسلامی نظام کی بیس پر ہوا۔ پھر بعد میں الگ ہو کے تمام مذہبی راہنماؤں کی اپنی اپنی پارٹی چلتی رہی۔ افغان جنگ کے وقت سب کو حمایت میں اکٹھا کیا گیا، بعد میں پھر الگ الگ الیکشن لڑے۔ مشرف دور میں پھر سے ایم ایم اے کے نام پر اکٹھے ہو کر حکومت میں شراکت کی، ملک کے طول و عرض میں مدرسوں کا جال پھیلا، سیاسی بندوبست آتے ہی پھر سے علیحدہ ہو گئے۔ نواز شریف کے خلاف ضرورت پڑی تو عمران خان کے ساتھ قادری صاحب بھی میدان میں اترے، دھرنا ختم نہیں ہوا تھا کہ راستے الگ ہو گئے۔ بدترین دہشت گردی کے دور میں بھی سراج الحق، مولانا سمیع الحق، حافظ سعید اور عمران خان کے جلسے محفوظ ہوتے تھے جب کہ فوج اور اہل سیاست شدید سیکیورٹی رسک پر رہتے تھے۔

بھائی ہم اپنی اصلاح سے تھک گئے ہیں۔ ہم اس کا بھاری تاوان ادا کر چکے ہیں۔ ہمارے ایک لاکھ لوگ اس “تزویراتی گہرائی” میں ڈوب چکے ہیں۔ ہمارے لیے ہمارا خدا، ہمارے رسول صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم،  ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا روزہ، ہماری عبادتیں، ہماری دعائیں کافی ہیں۔ انہیں سب کا واسطہ ہے سیاست کو مذہب کا تڑکا نہ لگایا جائے۔ ناقابل برداشت نقصان ہم اٹھا چکے، کمریں دوہری ہو چکیں، اب پوری قوم پہ رحم کیا جائے۔

مرشد نے فرمایا، “ہم غریب ہوئے اور غربت کے تمام معنوں میں غریب ہو گئے۔ ایسی غربت جو ہر صورت میں کثیر جہتی تھی۔”

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain