جمہوریت کی دیوی! ہماری توبہ قبول فرما


بھٹو صاحب کی تعریف کرتے ہوئے ہنری کسنجر نے وائٹ ہاؤس ائیرز (The Whitehouse Years) کے صفحہ 907 پر لکھا۔

He could distinguish posturing from policy.

’بھٹو صاحب پالیسی اور پوسچر (Posture) کا فرق سمجھتے تھے۔‘ پالیسی کا مطلب حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے طے کی گئی اصولی حکمت عملی اور پوسچر کا مطلب ہے، اس حکمت کو عام فہم نعرے اور قابل قبول تاثر میں ڈھالنا۔ جمہوریت پالیسی اور نعرے میں فرق کو کم سے کم رکھتی ہے تاکہ قیادت کی ساکھ برقرار رہے۔ جب حقیقت بیان کرنے کا وقت آئے تو نعرہ گلے میں پڑا ڈھول نہ بن جائے جسے بجاتے رہنا مجبوری ہو۔ یہ وہ ہنر ہے جس کا مظاہرہ ایک مدبر سیاسی تجربے اور فراست کی معراج پر کرتا ہے۔ کیا دوسری عالمی جنگ میں چرچل سے غلطیاں نہیں ہوئیں؟ کیا سائمن کمیشن، 1937ءکی وزارتوں اور کیبنٹ مشن کے مرحلوں میں کانگرس سے ہمالیہ جیسی غلطیاں نہیں ہوئیں؟ کیا راست اقدام کا اعلان کرتے ہوئے غور کیا گیا تھا کہ سولہ اگست 1946ءکو کلکتہ میں ہزاروں افراد مارے جائیں گے۔ کیا 1965 کا صدارتی انتخاب جیت کے کراچی میں گولیاں چلاتے ہوئے سوچا کہ اردو بولنے والوں کے دل میں بے گانگی کا ہل چلا دیا گیا ہے؟ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں، ہمارے ملک میں پالیسی اور تاثر کا جھگڑا آمرانہ حکومتوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ بنیادی فیصلے کرنے کا اختیار غیر منتخب سرکاری اہلکاروں کو منتقل ہو گیا۔ بائیس سال کا ایک نوجوان تو عمومی استعداد کی بنیاد پر تعینات کیا جاتا ہے۔ اسے فیصلوں پر عمل درآمد کی تربیت دی جاتی ہے۔ ریاست کی پالیسی کا فیصلہ کرنا سرکاری اہلکار کی تربیت کا حصہ نہیں۔ چھ جنوری 1948ء کو کراچی میں فسادات پھوٹ پڑے۔ قائد اعظم نے اسکندر مرزا کو بلا کر حکم دیا کہ ضروری قوت استعمال کرتے ہوئے فسادیوں کو کچل دیا جائے۔ قائد کے فیصلے پر عمل درآمد ہوا اور ایک روز میں فسادات ختم ہو گئے۔ اسی اسکندر مرزا کو گورنر جنرل بنایا گیا تو انہوں نے ون یونٹ قائم کیا، ریپلکن پارٹی بنائی، حکومتیں بناتے اور توڑتے رہے، ایک روز آئین توڑ دیا۔ آغا حشر نے خبردار کیا تھا، “ابرو نہ سنوارا کرو، کٹ جائے گی انگلی”۔

اسکندر مرزا لندن چلے گئے۔ ایران میں دفن ہوئے۔ ہمیں ایوب خانی آمریت کا تحفہ دے گئے۔ مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں، آمریت مسئلے حل نہیں کرتی، مسئلے کھڑے کرتی ہے، بحران گھڑتی ہے۔ نزلے کا علاج نمونیے سے کرتی ہے۔ ایوب خان صدارتی انتخاب میں شکست کھانے سے بال بال بچے۔ ووٹوں کا کل فرق بیس ہزار کے قریب تھا۔ فاطمہ جناح انتخاب ہار گئیں لیکن ایوب آمریت کے بت میں دراڑیں ڈال دیں۔ ان دراڑوں میں آپریشن جبرالٹر کا مٹی گارا بھرا گیا۔ آپریشن جبرالٹر پر چنگھاڑتی ہوئی اخباری سرخیاں جمائی گئیں۔ مذاکرات کے لئے تاشقند پہنچے تو ’گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا‘۔ 10 جنوری 1966 کو تاشقند معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بھٹو صاحب نے بدن بولی سے اپنا اختلاف بتا دیا۔ ہم سنتے رہے کہ بھٹو صاحب تاشقند کا راز بیان کریں گے۔ راز بیان نہیں کیا، دنیا سے پردہ فرما گئے، کیونکہ بیان کرنے کو راز تھا نہیں، ایک ہوا باندھی تھی۔ اس ہوائی طوفان پر قابو پانے کے لیے ایک سرکاری افسر نے میز پہ بیٹھ کر چھ نکات گھڑے اور مجیب الرحمن کو تھما دیے۔ پانچ فروری 1966ءکو مجیب الرحمن نے بھٹو کی بھارت دشمنی کے مصرعے پر بنگالی قوم پرستی کی گرہ لگا دی۔ 1971ءکی بساط پر بھارت، بھٹو، مجیب اور یحییٰ خان کو رکھ لیجیے اور سوچیے کہ نعرہ پالیسی پر کیسی دل دوز چترکاریاں کرتا ہے۔ 1979 کی تقویم میں انقلاب ایران تھا۔ افغان جہاد تھا۔ بھٹو کا تابوت تھا اور جمہوریت کا لاشہ تھا۔ اس نسخے کو جذبات کی آنچ پر دم پخت کیا تو فرقہ وارانہ تنظیمیں برآمد ہوئیں۔ زبان کے نام پر تشدد کرنے والے گروہ مرتب ہوئے۔ مذہبی انتہا پسندی نے پارلیمینٹ کے ایوانوں میں پہنچ کر سیاسی قیادت کو یرغمال بنا لیا۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے، ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔ دیکھیے، اختلاف رائے کی تہذیب روکنے کے لیے جو لکیریں کھینچی جاتی ہیں، وقت کے ساتھ ناقابل عبور دیواروں میں بدل جاتی ہیں۔

جگر کا درد بیان کرنے کا مقصد دل کا بوجھ ہلکا کرنا نہیں۔ برادر بزرگ نے اپنے کالم میں قومی مستقبل کا ایک نقشہ تجویز کیا ہے۔ مطالبات کیا ہیں، خواہشات کا رسالہ لکھا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ راہوار تھک گئے ہیں۔ برادر محترم کے نقشے پر عمل ممکن ہوتا تو مئی 2013ءمیں کاغذات نامزدگی مسترد ہو جاتے، تب اہل فکر نے احتجاج کیا تھا کہ ملک میں آوازوں کا قحط قابل قبول نہیں۔ یہ تو حالات کا جبر ہے کہ 2013ءمیں ہمارے ہم سخن اب زنجیر کی آواز دیتے ہیں، خدا خیر کرے۔ ادھر چوہدری اعتزاز احسن نے ایوان بالا میں رعد کی سی کڑک سے خطاب فرمایا ہے، کہتے ہیں، میثاق جمہوریت ختم ہو گیا۔ میثاق جمہوریت 1973ءکے دستور کے بعد قوم کی موقر ترین دستاویز ہے۔ ہم 15 جون 2015 سے 23 دسمبر 2016 تک میثاق جمہوریت کی روشنی ہی میں راستہ ڈھونڈتے تھے۔ میثاق جمہوریت بے نظیر بھٹو کی لحد کا کتبہ اور جمہور پسندوں کے لیے حرز جاں ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے تو دل آسائی کی باتیں کی ہیں۔ اپنی غلطیاں تسلیم کی ہیں۔ تصادم سے گریز کا اشارہ کیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ جمہوریت کی امید میثاق جمہوریت سے بندھی ہے۔ اعتزاز احسن ’زناری برگساں‘کے اسیر ہو چکے ہیں۔ قوم برگساں اور نطشے کی تلاش میں نہیں، ہمیں ابراہم لنکن چاہئیے جو ہمیں سمجھائے کہ اندر سے تقسیم شدہ مکان قائم نہیں رہتے۔ ابراہم لنکن نے اس جملے میں ہاؤس (House) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ہمارا ہاؤس گلی دستور کے کونے پر کھڑا ہے۔ اس گلی میں ہمارے شہیدوں کی ہڈیاں دفن ہیں۔ اعتزاز احسن تو نومبر 1997ء سے جست کرتے ہیں اور اپریل 2012ء میں سپاٹا بھرتے ہیں۔ بیچ کے پندرہ برس کیا ہم مخمل کے قالین پر لوٹنیاں لگا رہے تھے؟

دو آوازیں قابل غور ہیں۔ ایک غیر رجسٹرڈ سیاسی تنظیم کے رہنما نے چوبیس منٹ پر محیط انٹرویو میں بار بار ملک کے مقبول ترین رہنما کو قتل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گردن زدنی قرار پانے والے سیاسی رہنما کا قریبی ساتھی پارلیمینٹ میں کھڑے ہو کر تاریخ کو مسخ کرتا ہے، اشتعال کی چنگاریوں کو ہوا دیتا ہے، جمہوریت کی لٹیا ڈبوتا ہے۔ کیا کیجیے، ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح۔ ایک بے گناہ انسان کے قتل کا برملا ارادہ ظاہر کرنے والے سے قانون کو نمٹنا چاہئیے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کی جدوجہد کسی اصول اور قاعدے کی پابند ہے یا قوم کو ایک خانوادے کی مجاوری سونپ دی گئی ہے؟ جسے قتل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس کے ایک اشارے پر میدان اور کھلیان مخلوق خدا سے بھر جاتے ہیں۔ یہ مخلوق خدا پاکستان کا شہری ہونے کی بنیاد پر مساوات مانگتی ہے۔ آئین کی شق 20 امتیاز کی مناہی کرتی ہے۔ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے 2014 (متفرق الف) کے فیصلے میں نوید دی تھی کہ عقیدے کی آزادی ہر شہری کا مطلق حق ہے۔ یہی وعدہ ہم سے بانی پاکستان قائد اعظم نے کیا تھا۔ ہم نے قوم کے بانی کا دامن اس امید پر تھاما تھا کہ ریاست پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ ہم سے قائد اعظم کا عہد چھینا جاتا ہے۔ ہم جمہوریت کے میثاق سے محروم کیے جاتے ہیں۔ ہم اکثریت کے بے اماں جبر میں ہیں۔ اے جمہوریت کی مہربان دیوی، اپنی امانت واپس لے لے۔ ہم بے کسوں کی توبہ قبول فرما۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).