نفرت میں اندھے ہونے والوں کی بات


حسد اور رشک نفسیاتی حوالے سے ملتے جلتے جذبے ہیں۔ حسد حد درجہ منفی اور رشک بہت حد تک مثبت جذبہ تصور ہوتا ہے۔ ویسے تو ملتی جلتی اشیاء میں اکثر بال برابر فرق ہوتا ہے، یہی مہین فرق انہیں اک دوجے سے ممتاز کرتا ہے۔ حسد میں انسان سوچتا ہے کہ کسی دوسرے میں کوئی صلاحیت، کوئی امتیاز، کسی طرح کے وسائل یا سہولت کیوں ہیں، انہیں نہیں ہونا چاہیے۔ خواہش کرتا ہے کہ اس کا یہ سب پامال ہو جائے۔ اس کے برعکس رشک کرنے والی کی نظر بھی دوسرے کی صلاحیتوں، امتیازات اور وسائل و سہولیات پر ہوتی ہے البتہ یہ خواہش نہیں رکھتا کہ دوسرے کا یہ سب کچھ پامال ہو جائے بلکہ دل میں خواہش کرتا ہے کہ کاش اس کے پاس بھی یہ سب کچھ ہو۔

حسد اور رشک میں تفریق کرنے کے بعد اصل بات کی جانب آتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اور بعد میں مین میڈیا پر بھی پاکستان کی فوجی خفیہ ایجنسی اور ہندوستان کی غیر ملک سے متعلق سول خفیہ ایجنسی کے سابق سابق سابق سربراہوں کی ایک تصویر عام ہوئی جس میں وہ دونوں بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ مین میڈیا کے مطابق لندن میں سلامتی سے متعلق کوئی کانفرنس تھی جس میں ان دونوں حضرات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کرنے کا مشورہ دیا۔

 یار لوگوں نے اس تصویر کے تناظر میں اپنے اپنے بغض نکالنے شروع کر دیے کہ ” یہ لوگوں کو مرواتے ہیں اور خود مل کر عیش کرتے ہیں” وغیرہ وغیرہ۔ معاند ملکوں کی ایجنسیاں ایک دوسرے خے خلاف ایسی ہی مذموم کارروائیاں کیا کرتی ہیں بلکہ کچھ ایجنسیاں تو بعض اوقات غیر جانب دار اور معصوم ملکوں میں بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کی خاطر بہت کچھ ناقابل قبول، قابل مذمت بلکہ غیر انسانی تک کرنے سے نہیں چوکتیں۔ اس بارے میں ایک کتاب “وارز آف سی آئی اے” پڑھ لیں، جس میں امریکہ کی اس ایجنسی کی آشکار کردہ دستاویزات کے حوالے ہیں۔ یاد رہے سی آئی اے سول ایجنسی ہے جو چاہے تو اپنے کچھ کرتوت ملک کے صدر اور کانگریس تک سے خفیہ رکھے اس کے برعکس آئی ایس آئی فوج سے متعلق خفیہ ایجنسی ہے یعنی “انٹرسروسز انٹیلیجنس” جس کا بنیادی مقصد فوج کے اندر معاملات کے بگاڑ سے متعلق مطلع رہنا ہے مگر یہ اندرون ملک اور بیرون ملک تمام اعمال و افعال میں دخیل ہے۔

 اس ایجنسی کی یہی ہمہ نوع دخل اندازی پاکستان کے لوگوں کی اس کے خلاف نفرت یعنی حسد کی وجہ بنی ہے کہ اس ایجنسی کو اتنے اختیارات کیوں ہیں۔ اللہ کرے یہ یکسر بے اختیار ہو کر رہ جائے۔ جس طرح ایک زمانے میں طالبان اور پھر داعش کسی بھی دہشت گردانہ یا انسان کش واقعے کی ذمہ داری خوامخواہ قبول کیے جاتے تھے اس طرح پاکستان میں لوگوں کا ایک حصہ ہر تکلیف دہ واقعے کو چاہے وہ ملک کے وزیراعظم کو پھانسی دیا جانا ہو، لوگوں کا غیاب ہو یا تشدد زدہ لاشوں کا ملنا ہو، آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈاال دیتے ہیں۔ جبکہ سزائیں دینے کو ملک میں عدالتیں ہیں، طاقت سے وابستہ دیگر ادارے ہیں، کئی ناموں کی خفیہ ایجنسیاں، دہشت گرد گروہ، ریاست مخالف عناصر، مجرمانہ جتھے سب کچھ موجود ہے۔

سی آئی اے کی بات تو ہم نے کی، اس کے علاوہ دوسرے ملکوں کی ایجنسیوں کو دیکھ لیں، ایم آئی 6 ہے، موساد ہے یا اور بہت سی دوسری، سب کچھ نہ کچھ غلط کرتی رہتی ہیں البتہ عموماً اپنے ملکوں سے باہر۔ پھر معترضین یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان دوسرے ملکوں کی ساخت کیا ہے۔ ظاہر ہے ان ملکوں میں سپین کے علاوہ ہر ملک میں ایک عرصے سے ماسوائے جمہوریت کے اور کسی طرح کی حکومت نہیں رہی۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ میں کم سے کم 33 سال فوج برسراقتدار رہی جس کے طفیل اس ادارے کی خفیہ ایجنسی ملک کی باقی سول خفیہ ایجنسیوں کی نسبت زیادہ با اختیار، زیادہ باوسائل اور زیادہ فعال ہو گئی۔

 ملک میں اگر سول ادارے مضبوط ہوتے، پہلی بات تو یہ کہ لوگوں کے عمومی اور کمتر آبادی والے خطوں اور قوموں کے خصوصی حقوق سلب ہی نہ ہوتے۔ ان کو ان کا جائز حق ملتا۔ ان کو نارسائی کا احساس نہ ہوتا چنانچہ نہ نفرت پلتی نہ بغاوت ہوتی۔ اگر کچھ ریاست مخالف گروہ یا افراد مذموم اعمال کرتے بھی تو ملک کی سول خفیہ ایجنسیاں اور طاقت سے وابستہ ادارے ان سے نمٹ لیتے اور نمٹنے کے انداز بھی نہ زیادہ جارحانہ ہوتے اور نہ زیادہ غیر انسانی۔ زیادہ جارحیت اور غیر انسانی اعمال اختیار کیے جانا زیادہ اختیارات کا نتیجہ ہوتا ہے۔

 ایجنسیاں چاہے وہ سول ہوں یا فوجی، ملک کے اندرونی معاملات پر کڑی نگاہ رکھنے والی ہوں یا ملک سے باہر جاسوسی کرنے اور کارروائیاں کرنے والی، ان کا کام ریاست کے مفادات کو قائم رکھنا اور بڑھانا ہوتا ہے۔ ریاست ویسے تو ہے ہی جبر کا آلہ مگر چونکہ ہے اس لیے اس کی خفیہ ایجنسیاں بھی ہوتی ہیں جو ریاست کے کسی بھی ستون کو تھوڑا سا گزند پہنچانے والے کو معاف نہیں کیا کرتیں کیونکہ اگر وہ اغماض برتیں تو معاملات بگڑ جاتے ہیں جیسے ہمارے ہاں بگڑے ہوئے ہیں اور بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کا تسلسل ہو تاکہ سول ادارے بھی مضبوط ہوں۔ ملک کے تمام اداروں کے اختیارات و فرائض کا سختی سے تعین ہو۔ سول ایجنسیوں کو زیادہ بااختیار ہونے کا موقع مل سکے۔ سول اداروں میں پرخاش ہونا کوئی بری بات نہیں ہوتا جیسے امریکہ کی پولیس اور ایف بی آئی میں ہیں، بلکہ اس کے سبب اپنی اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا موقع ملتا ہے۔ مگر جب ایک ایجنسی بہت زیادہ مضبوط ہو اور باقی نکو بنا دی جائیں تو عدم توازن پیدا ہونے سے معاملات بگڑتے ہیں جس کے ساتھ قوی تر ایجنسی زیادہ شدت کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کرتی ہے یوں معاملہ اور خراب ہو جاتا ہے۔

 یقیناً آئی ایس آئی کے اختیارات نہ صرف متعین بلکہ واضح کیے جانے کی ضرورت ہے تاہم اس کے کسی سابق سربراہ کی مدمقابل ملک کی ایجسی کے سابق سربراہ کے ساتھ ملاقات پر اس قدر سیخ پاء ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ معترضین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دونوں مل سکتے ہیں تو عاصمہ جہانگیر کے ملنے پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے، نواز مودی ملاقات کو غداری پر کیوں محمول کیا جاتا ہے؟ اعتراض بالکل بجا ہیں مگر اس سوچ سے کہ ایسا محض آئی ایس آئی کرواتی ہے، متفق ہونا مشکل ہے۔ یہ ایک مائنڈ سیٹ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنا ریاست کے اپنے مفاد میں بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ریاست، حکومت اور سول سوسائٹی مختلف حلقے ہیں۔ ایسا ریاست کی کچھ اور ایجنسیاں بھی کروا سکتی ہیں، عاصمہ یا نواز کے مخالف لوگ بھی کروا سکتے ہیں اور یہ سب مل کر بھی کر سکتے ہیں چنانچہ مائنڈ سیٹ تبدیل کیے جانے، ریاست کو جوابدہ بنانے، نفرتوں کو معدوم کرنے اور ریاست،سیاسی پارٹیوں، حکومت اور سول سوسائٹی میں ہم آہنگی پیدا کیے جانے کی ضرورت ہے جو جمہوریت کے تواتر اور تسلسل سے ہی ممکن ہو پائے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).