میں اپنی بیوی سے بات نہیں کر پا رہا۔۔۔


میرا نکاح اس سال مارچ کے مہینے میں ہوا تھا اور رخصتی ایک سال بعد طے پائی تھی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو نکاح کے وقت تک دیکھا نہیں تھا، اور نہ ہی کبھی ایک دوسرے سے بات کی تھی۔ بس والدہ کو پسند آ گئی اور میں نے ہاں کر دی۔ نکاح کے وقت تک ہم دونوں ہی شادی کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ میں ذاتی طور پر شادی ہی کے خلاف تھا۔ اور اس کو بھی بنیادی مسئلہ یہی درپیش تھا۔ میرا مسئلہ لیکن صرف یہ نہیں تھا کہ میں شادی سے ذہنی طور پر اختلاف رکھتا ہوں۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ مکان کرائے کا ہے اور میں شادی سے پہلے اپنا گھر لینا چاہتا تھا۔ لیکن یہ سب مسائل گھر والوں کو بتانے کے لئے تھے۔ میرے اپنے دماغ میں بات کچھ اور تھی۔ شریکِ حیات کے ساتھ بات چیت شروع ہوئی تو احساس ہوا کہ وہ تو بیچاری ہر حال میں خوش رہنے والی لڑکی ہے۔ امّاں نے بھی چن کر اپنے جیسی ڈھونڈی تھی۔ آہستہ آہستہ ہم ایک دوسرے کو بہت بہتر سمجھنے لگے اور بالآخر ایک دن آئی لو یو بھی کہہ ڈالا۔ بس تبھی سے ڈر ڈر کر جی رہا ہوں۔

معاملہ کچھ یوں ہے کہ میں بچپن سے ہی منہ پھٹ واقع ہوا ہوں۔ گلی کا شاید ہی کوئی لڑکا ہوگا جس سے میں نے مار نہ کھائی ہو۔ اپنے سبھی دوستوں سے عمر میں چھوٹا تھا مگر سمجھتا خود کو بہت بڑا تھا۔ ہر دوسرے بندے کے ساتھ لرائی مول لینا لینا اور اگر خود کو ایک بار صحیح سمجھ لیا تو پھر کسی کے مکوں اور لاتوں کی قوت کا لحاظ نہ کرتے ہوئے اس سے بھڑ جانا اور پھر لال پیلے ہو کر روتے ہوئے گھر آنا میرا معمول تھا۔ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا، لوگوں میں دلچسپی کم اور کتابوں میں بڑھتی گئی۔ نظریات سے زیادہ مجھے نظریات کی diversity میں دلچسپی تھی۔ ایک کتاب پڑھتا تو اس کے مخالف نظریے پر مشتمل دوسری کتاب بھی ضرور پڑھتا، اور ان دونوں سے ملا کر اپنا ایک نظریہ بنانے کی کوشش کرتا۔ آہستہ آہستہ احساس ہوا کہ نظریہ کوئی غلط نہیں ہوتا۔ سب میں ہی کچھ نہ کچھ صحیح اور کچھ نہ کچھ غلط ہوتا ہے۔

رفتہ رفتہ میں سب کو صحیح سمجھنے لگا۔ اور بس یہیں سے مسئلے کا آغاز ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں رہتے ہوئے آپ سب کو صحیح سمجھنے جیسی صریح غلطی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ جس کسی کو بھی آپ صحیح سمجھتے ہوں، اس کا مخالف آپ کو اس کا ساتھی قرار دیتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ بیک وقت شیعہ، صوفی، سلفی، ‘وہابی’، دیوبندی، بریلوی، نقشبندی، قادری، چشتی، حنفی، مالکی، احمدی، ہندو، عیسائی اور دہریے، غرض سب کچھ ہو سکتے ہیں اور ان سب کے ساتھ ساتھ راء کے ایجنٹ، ایران کے آلہ کار اور مغرب سے مرعوب امریکہ کے پٹھو بھی۔ اب یہ سب لوگ ایک دوسرے کے آپس میں دشمن بھی ہیں۔ مثلاً دیوبندیوں کے نزدیک اہلحدیث کافر ہیں اور اہلحدیث کے نزدیک دیوبندی۔ مگر آپ دونوں ہوتے ہیں۔ ان دونوں ہی کے نزدیک احمدی اور اہل تشیع بھی کافر ہیں اور دونوں ہی واجب القتل۔ احمدی سب ہی کے نزدیک کافر ہیں مگر احمدیوں کے مطابق باقی سب بھی۔ ایران اور امریکہ ایک دوسرے سے سارا دن ہر بات پر لڑیں مگر آپ پر دونوں کا اتفاق ہے کیونکہ آپ جیسے نابغے کم کم ہی میسر آتے ہیں۔ غرضیکہ آپ اپنی ان بے شمار identities کے ساتھ چلتا پھرتا نقصان ہیں۔ ہمارے جیسے لوگ تو بندوق کے ساتھ مفت ملنے چاہئیں کہ گولی مار کر چیک کر لیں۔

مگر بس اب۔۔۔ بس ہو گئی ہے۔ یہ سب برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔ اب سے ایک سال پہلے تک میں بہت پر امید تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جب ہندوؤں کے تہوار دیوالی اور ہولی میں شرکت کی تو مجھے لگا کہ پاکستان شاید کسی بہتر رستے کا انتخاب کرنے کو ہے۔ چند روز بعد جب قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کیا گیا تو ہمیں بھی یوں لگا کہ جیسے رات کٹنے والی ہے، گل رنگ سویرا بس ہونے ہی کو ہے۔ اور پھر اچانک کیا ہوا، کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔ نومبر میں ڈاکٹر ساجد میر کا ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے ‘آنے والے آرمی چیف’ کے متعلق ایک عجیب و غریب قسم کا الزام اور پھر اس الزام کا واپس لیا جانا۔ پھر جنوری میں بلاگرز کا اٹھایا جانا اور ان پر گستاخی کے بے جا بہتان لگنا۔ اگلے دو مہینے اس وقت کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار کی مسلسل ‘غدّار’ اور ‘گستاخ’ کے الفاظ کی جگالی کرنا اور نتیجے میں ایک بے گناہ لڑکے کا مردان میں گستاخی کے جھوٹے الزام میں ‘ہجوم کا انصاف’ ہونا۔ یہ سب واقعات ہی خوفناک تھے اور کسی بھی ایسے شخص کے لئے جو سب کو صحیح سمجھتا ہو، ناقابلِ برداشت۔ جس دن مشعل خان کو قتل کیا گیا، میں پوری رات سو نہیں سکا۔ اگلے روز اس کے بوڑھے باپ کا ایک چھوٹا سا انٹرویو دیکھا۔ کئی راتیں بے چینی میں گزریں۔

پھر روز نئی نئی خبریں آنے لگیں۔ کبھی کسی ہندو لڑکی کو اغوا کر کے زبردستی اسلام قبول کروا کر اس سے نکاح کر لیا جانا، کبھی کسی مسجد کے باہر سینکڑوں افراد کا جمع ہو کر ایک نیم پاگل شخص کی حوالگی کا مطالبہ کرنا، کبھی کسی درگاہ پر دھماکہ اور کبھی کسی جج کی طرف سے اپنے کرپشن کیس سے توجہ ہٹانے کے لئے گستاخی کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنا۔ یہ سب کچوکے وقتاً فوقتاً اس پورے سال سب کو صحیح سمجھنے والوں کے دماغوں کو لگائے جاتے رہے۔

لیکن پچھلے چند روز سے تو جیسے پاور پلے لیا ہوا ہے۔ پہلے این اے 120 میں دو سیاسی جماعتوں کی جانب سے ‘مودی کا یار’ اور ‘قادری کا قاتل’ پر مبنی انفرت انگیز انتخابی مہم اور پھر ان کا مجموعی طور پر قریب 13000 ووٹ لے لینا، پھر ایک انتخابی اصلاحات کے بل میں ایک معمولی سی شق پر تحریک انصاف کی جانب سے ہوّا کھڑا کیا جانا اور پھر اگلے ہی روز ‘علماء’ کا اپنے تمام تر لاؤ لشکر سمیت سڑکوں پر آنے کا اعلان، نتیجے میں شہباز شریف کا ‘اس ترمیم کے ذمہ دار وزیر’ کو کابینہ سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کرنا، پھر ایک ریٹائرڈ میجر صاحب کا سابق وزیر اعظم کو کھلے عام قتل کرنے کی نہ صرف دھمکی دینا بلکہ اس کو اپنی ‘شرعی ذمہ داری’ قرار دینا۔۔۔۔ اور آج کیپٹن صفدر۔۔۔۔ ہم آخر کہاں جائیں؟ خود کشی کر لیں؟ کیونکہ بولیں گے تو کوئی گولی مار جائے گا۔۔۔۔

یہ سب میرے دماغ میں جھکڑوں کی طرح چل رہا ہے۔ میں روز رات کو اپنی بیوی سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ بھلی عورت بکواس سنتی رہتی ہے۔ اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہاں میں ہاں ملاتی رہتی ہے۔ اس کا کیا قصور ہے؟ میں اسی لئے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میرے نام کے ساتھ اب ایک لڑکی منسوب ہے۔ کل تک کسی کا مجھے گولی مار جانا میرے خاندان کو تباہ کر کے رکھ دیتا۔ اب وہی گولی دو خاندانوں کو تباہ کر سکتی ہے۔ اور ہم انصاف بھی کس سے مانگیں گے؟ اس جج سے جو تب شاید ہمارا نام بھی لینا نہ چاہے؟ اس مقننہ سے جہاں آج کیپٹن صفدر نے ایک نفرت انگیز تقریر کی ہے اور جہاں علی محمد خان اور شیخ رشید جیسے لوگ سیاست کے لئے نفرت پھیلاتے ہیں؟ اس ریاست سے جو لوگوں کو اٹھا لیتی ہے اور ان پر جھوٹے فتوے لگواتی ہے؟ یا اس عوام سے جو ایک معصوم طالبِ علم کو اینٹیں، پتھر مارتی ہے اور اس کی جان کسی صورت نہ نکلنے پر اس کے سر میں ایک بھاری بھرکم گملہ مار کر اس کی روح کو نجات کا راستہ فراہم کر دیتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں اس بیچاری عورت سے کیا بات کروں؟ اس کو کس بات کی سزا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).