زچہ بچہ وارڈ میں کیا ہوتا ہے؟


کتاب کی دنیا خاص طور پر نصابی کتب کی دنیا اور حقائق میں کچھ فرق ہوتا ہے، کتاب کسی سائنسی ایجاد کے فوائد پر روشنی ڈالتی ہے کسی پسماندہ علاقے میں اس چیز کا استعمال یکسر مختلف ہوتا ہے۔ سٹوڈنٹ لائف میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بس کاؤنسلنگ اور کانسینٹ دو منٹ کی مار ہے بھلا اس کے لئے اتنا کہنے اور سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے اور جیسے ہی پروفیشنل لائف میں قدم رکھیں یہ دو منٹ کب دو گھنٹے بن جاتے ہیں احساس ہی نہیں ہوتا۔ لینہ حاشر جب حرام خور کی کہانی لکھتی ہیں تو جہاں کوئی اسے مبالغہ آرائی سمجھے مجھ جیسوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے اور اصل دکھ بھی مجھے اسی بات کا ہے کہ سب تکلیف دہ باتیں اب معمول کی بات ہیں۔ دھماکہ، سوختہ لاشیں، لاپتہ افراد جب اس سب کو معمول کی بات سمجھ لیا جائے تو بیٹی کی پیدائش پر دکھی ہونا معمول کی بات کیسے نہ ہو۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، ایک خاتون کو ان کے گھر والے انتہائی بری حالت میں لائے، سر توڑ کوشش کر کے خاتون کو تو بچا لیا گیا ۔ جب ہوش میں آئی تو اس سے پوچھا کیا ہوا تھا، جواب ایسا تھا کہ سن کر احساس ہوا کچھ سوالوں کے جواب واقعی انتہائی ناگوار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کچھ دیسی ٹوٹکے آزمائے کیونکہ کسی نے الٹراساونڈ کر کے بتایا تھا بیٹی ہے اور میاں نے کہا تھا اگر چوتھی بار بھی بیٹی ہوئی تو ہسپتال سے گھر مت آنا۔ اس روز پہلی بار اپنا کوئی فیصلہ اچھا لگا کہ کوئی پوچھے بیٹا ہے یا بیٹی تو نہیں بتاتی۔ لیکن یہ تو ایک کہانی ہے، کچھ دن بعد ایک خاتون ایمرجنسی میں لائی گئیں، جونہی ولادت ہوئی ان کا ایک ہی سوال تھا بیٹا ہے یا بیٹی؟ میرے جواب پر وہ خوش ہو گئی، پھر کہتی آپ کو پتہ ہے میری چار بیٹیاں ہیں میں نے بہت دعا کی تھی بیٹا ہو میری جان چھوٹ جائے اس درد سے۔ اس مریضہ میں خون کی کمی تھی، گھر والوں نے ہنسی خوشی خون کا انتظام کر دیا ، اسی رات ایک اور خاتون نے پانچویں بیٹی کو جنم دیا تواس بچی کو لپیٹنے کے لیے ساس نے ایک پھٹا پرانا کپڑا پکڑا دیا اور ہمارے ہزار بار سمجھانے پر کہ مریض میں خون کی شدید کمی ہے وہ مریضہ کو اٹھا کر گھر لے گئے کہ اے ایویں مکر کر دی اے ۔

ہم کتابوں میں بڑا پروٹوکول پڑھتے ہیں، ڈلیوری کا، خون کی کمی کے علاج کا، آپریشن کا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ اگر آپریشن کی صورت میں بیٹا پیدا ہو تو اکثریت کو نہ پیسے چبھتے ہیں نہ خون کی بوتل کا انتظام ورنہ بیبیاں اور بندے سنا جاتے ہیں اک تے ہویا وی اپریشن تے جمی وی کڑی۔ میں نے کتابوں میں ان وانٹڈ بےبی گرلز کا پڑھا، معاشرے میں دیکھا، لیکن بطور ڈاکٹر یہ سب دیکھنا ایک الگ طرح کی اذیت ہے۔ ہم immediate cry پہ خوش ہونے والے لوگ سیکنڈز میں رویے بدلتے دیکھتے ہیں، مجھے کئی بار ایسے لوگوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ آپ کے مشکل ترین وقت میں یہاں ڈاکٹر، لیڈی ہیلتھ وزیٹر، مڈ وائف اور نرس سبھی خواتین ہیں جنہوں نے اس وقت کو آسان کیا ہے، آپ اپنی بیٹی کو پڑھائیں لکھائیں یہ کسی سے کمتر نہیں۔ یہ کاونسلنگ روز کرتے کرتے کبھی کبھار شدید تھکن کا احساس ہوتا ہے لیکن بس ایک خوشگوار بات ایسی تھکن کو بھلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ کل ایک لڑکی اپنے والد کے ساتھ آئی اور کہا دو منٹ دیں آپ سے بات کرنی ہے، وہ نرسنگ میں جانا چاہتی تھی مگر اس کے ماموں سخت مخالف تھے ، صاحب کا فرمان تھا کہ یہ ہسپتالوں میں طرح طرح کے لوگ آتے ہیں راتوں کو رکنا پڑتا ہے۔ بے پردگی ہوتی ہے۔ وہ کنفیوز تھی کہ میں اب کیا کروں۔ اور وہ غلط بھی نہیں تھی، پندرہ سولہ سال کی عمر میں اس معاشرے میں کسی بھی بچی کو آسانی سے بے پردگی اور نائٹ ڈیوٹی کا ڈراوا دے کر پریشان کیا جا سکتا ہے، اچھی بات یہ تھی کہ اس کے والد اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ میں اسے بہت دیر سمجھاتی رہی شکر ہے ماموں کی تعلیمات کا اثر کم ہو گیا۔ اس کو میں نے پھر آنے کو کہا کہ ایڈمیشن فارم لائے تو مجھے ضرور دکھائے۔ شاید اس طرح میں خود کو تسلی دینا چاہتی تھی کہ وہ نرسنگ میں ضرور جائے گی، دوسری وجہ اس کے والد سے ملنے کی خواہش تھی۔ ان سے کہنا چاہتی تھی کہ اس علاقے میں آپ جیسی سوچ رکھنے والے لوگ کم ملتے ہیں، اس لیے آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور ایک درخواست کرنی ہے، جیسے آج آپ اس کا ساتھ دے رہے ہیں ایسے آگے بھی دیجیے گا۔ ایسا نہ ہو کہ جس سالے کی مخالفت آج آپ کر رہے ہیں کل اسی کے ہمنوا بنے اپنی بیٹی کے خوابوں کو اس کا جرم سمجھنا شروع کر دیں۔

میں بیٹیوں کو نعمت یا رحمت نہیں کہتی، وہ اولاد ہیں۔ انہیں ان کا حق دینا کسی بھی طرح ان پر احسان کرنا نہیں، البتہ اس حق کا احترام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں اور وہ لوگ جو کسی بھی نظریے سے جڑے ہیں اور لڑکیوں کا کردار محدود کرنے کے حق میں بات کرتے رہتے ہیں، کم عمری کی شادی کے حق میں دلائل پیش کرتے ہیں، جبری اغوا کو لوو میرج ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پسند کی شادی کرنے والیوں کو قتل کر دیتے ہیں انہیں یہ بتانا ہے کہ اگر آپ نے اسے جنگ ہی سمجھ لیا ہے تو ہم جیتیں گے اور آپ ہاریں گے۔ یہ کسی کے برتر یا کمتر ہونے کی بات نہیں ہے، یہ انسان کے بنیادی حقوق تسلیم کیے جانے کی خواہش ہے بلکہ سچ کہوں تو ایک مکمل انسان تسلیم کرنے کی خواہش جسے اپنے فہم اور پسند کے مطابق لباس، تعلیم ، نوکری اور زندگی سے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔

آپ کی بیٹی کا حق ہے کہ آپ اسے اس لیے نہ ماریں کہ وہ بیٹی ہے اور آپ ایک بیٹی کو اولاد کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ صاف ستھرا لباس پہننا، خوراک، صحت ، تعلیم یہ سب بنیادی حقوق ہیں اور اکیسویں صدی میں بھی ان سے انکار کرنے والے ہمارے ارد گرد پائے جاتے ہیں۔ اس کے لیے غیر تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں، بہت سے پڑھے لکھے افراد بھی بیٹی کے معاملے میں انتہائی دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو خواتین کی عزت و احترام کے کوئی خاص قائل نہیں ہوتے مگر مکھوٹے چڑھائے یہاں وہاں گھوم رہے ہوتے ہیں اور کسی موقع پر ہی ان کا اصل چہرہ سامنے آتا ہے۔ ایسے بھی ہیں جو اقدار روایات نظریے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بےانتہا حقوق اور بہت عزت و احترام ہے لیکن جب اس ڈھول کا پول کھلتا ہے تو احساس ہوتا ہے یہ بھی اس نرسنگ میں جانے کی خواہش مند بچی کے ماموں کی طرح ہمیں ماموں بنا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).