ٹیچرز کیسے ہونے چاہیئیں؟


ویسے تو ہر کلاس میں ہر ٹیچر یہ طعنہ ضرور دیتے ہیں کہ ہم نے اس سے زیادہ نالائق کلاس نہیں دیکھی لیکن ہم لوگ واقعی میں رج کے نکمے تھے۔ ایک تو نکمے اوپر سے مکمل طور پہ مطمئن بھی رہتے تھے۔ مطلب کوئی پروا نہیں ہوتی تھی کہ پاس ہوں گے، فیل ہوں گے، اماں ابا بے چارے پریشان ہوں گے، خاندان میں جس جس بچے سے کمپیریزن ہوتا ہے وہ سب ایک مرتبہ پھر بازی لے جائیں گے، پھر سے وہی سننا پڑے گا کہ فلاں انکل کا بیٹا دیکھا ہے؟ کبھی سنا وہ فرسٹ سے نیچے آیا ہو؟ ادھر اپنی قوم نیچے سے فرسٹ آنے والوں میں تھی۔ بالکل غرق، ایک دم فارغ اور خلیفہ ٹائپ سیکشن ہوتا تھا۔

مڈل کلاس سے تعلق تھا۔ سبھی بچے اپنے جیسے تھے۔ سب کے پیرینٹس نے سوچا تھا چلو انگریزی سکول میں داخل کروائیں گے تو کچھ نہ کچھ کر ہی لیں گے۔ ادھر انگریزی آتی کسے تھی بھائی؟ ہم لوگوں نے تو “وائج” کا لفظ چھٹی میں پہلی مرتبہ سنا تھا جب وائجر سیریز کی ایک کتاب لگی تھی۔ سٹمک کو ہماری ایک ٹیچر سٹومیچ کہتی تھیں تو ساری کلاس کتنا عرصہ یہی کہتی رہی، بعد میں ہر کسی نے ذاتی شرمندگی کی الگ کہانی کے ساتھ اپنا اپنا تلفظ بدلا ہو گا۔ پہلے تو یہ ہوا کہ سکول والوں نے ایک الگ سیکشن بنا دیا۔ ہم لوگ نیو نائنتھ بی میں تھے۔ سارے نہلوں پر مشتمل نیو نائنتھ بی اصل میں آٹھویں کلاس تھی۔ سکول والے بجائے آٹھویں پڑھانے کے، سیونتھ سے ہی میٹرک کی تیاری شروع کروا دیتے تھے۔ بچے بھی خوش ہو جاتے کہ چلو ایک سال کا جمپ مل گیا لیکن وہی جمپ کم بخت گلے کی ہڈی بن جاتا تھا۔ ساتویں کے بعد یکایک دنیا تھوڑی بدلتی ہے، اپنی بدل چکی تھی۔

اس زمانے میں مار نہیں پیار کا ہرگز کوئی چکر نہیں ہوتا تھا۔ مار، مار اور صرف مار نصب العین ہوا کرتا تھا۔ بلکہ ہمارے سکول کی تو ابھی پچھلے دنوں ویڈیو بھی لیک ہوئی ہے، کالج بنایا ہے، اس میں بھی مارتے ہیں، ابھی تک مارتے ہیں، خدا ہدایت دے۔ تو مار پیٹ، ڈنڈے، مرغا ورغا سب بنا کے دیکھ لیا، نیو نائنتھ بی کے پڑھنے کا سین کوئی نہیں تھا۔ پھر سکول کی تاریخ میں ایک انقلابی فیصلہ ہوا کہ نائنتھ بی اب اردو میڈیم کر دی جائے گی۔ لاحول ولا، بھئی ہمارے اماں باوا نے بھیجا تھا کہ بچے انگریزی سکول میں پڑھیں گے، آپ لوگ خود مینیج نہیں کر سکے تو پوری کلاس اردو میں کر دی۔ اوکے فائن۔ اب یہ سین تھا کہ انگریزی میڈیم کی فیس بھرتے ہوئے ہم سارے بچے فزکس، کیمسٹری، بائیو اور میتھس اردو میں پڑھتے تھے۔ جس بدنصیب نے پڑھی ہو وہ جانتا ہے کہ ٹرمینالوجیز اردو میں آ کر اس قدر تکلیف دہ ہو جاتی ہیں کہ انگلش پہ بندہ واری صدقے ہونے لگتا ہے۔ ”خلیے زندگی کی بنیادی اکائی ہیں‘‘کیا اس سے زیادہ ”سیلز آر دا بیسک یونٹ آف لائف‘‘کہہ دینا آسان نہیں ہے؟ تو چکر یہ ہے کہ ہم سب کا مسئلہ انگریزی نہیں تھا، ہمارا مسئلہ ”نہ پڑھنا‘‘ تھا اور یہ سمجھ کسی کو نہیں آتی تھی۔

یہاں اینٹری ہو گئی احمد ندیم صاحب کی، ہم لوگ سر جھکائے کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہی گھٹا ہوا سا ماحول تھا جو سب بوائز سکولوں کا ہوتا ہے۔ یہ سننے میں آیا تھا کہ آج انگلش کے پیریڈ میں کوئی نئے ٹیچر آئیں گے۔ وہ آئے اور ایسے بات کی جیسے کوئی دوست یار سامنے کھڑا ہے۔ دبلا پتلا سا ایک آدمی، جینز اور سوئیٹر پہنے ہوئے، بیچ کی مانگ نکالے سامنے کھڑا تھا، ٹیچر تھا لیکن لگتا نہیں تھا۔ وہ کبھی بھی اپنے آپ کو سوپر ہیومین قسم کی چیز بنا کر پیش نہیں کرتے تھے۔ جہاں ہوں، جیسے ہوں کی بنیاد پہ آ کر سامنے کھڑے ہوتے تھے اور پڑھائی شروع ہو جاتی تھی۔ وہ کبھی اپنی زندگی کی مثالیں نہیں دیتے تھے، کبھی اپنے آپ کو بطور رول ماڈل پیش نہیں کرتے تھے، کبھی جعلی قسم کا رعب داب یا پرسنیلٹی شو آف کے چکروں میں نہیں ہوتے تھے، صحیح معنوں میں بنجارے تھے، آتے، بھینسوں کے آگے بین بجاتے اور جب تک ان کی آنکھوں میں لکھا نظر نہ آ جاتا کہ سر ہم سمجھ گئے، تب تک بجاتے ہی چلے جاتے۔ اچھا اس زمانے میں چونکہ مارنا ایک حتمی اور آخری حل سمجھا جاتا تھا تو مارتے ندیم صاحب بھی تھے، لیکن ان کے غصے میں چھپا ان کا افسوس نظر آتا، ان کی دم توڑتی امیدیں نظر آتیں تو مار کھانے والے شرما جاتے تھے۔ وہ پہلے اور آخری ٹیچر تھے جو مارتے ہوئے برے نہیں لگتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ ہمیشہ مار کھانے والے پڑھنے لگ گئے۔

وہی سکول، وہی کلاس، باقی سارے وہی استاد، ایک ندیم صاحب کے آنے سے دنیا ہی بدل گئی۔ وہ جب موڈ میں ہوتے تو سادے لفظوں میں کہانی یا گپ جیسے سٹائل میں زندگی کے بڑے بڑے سبق دے جاتے۔ ندیم صاحب سے پڑھتے پڑھتے معلوم ہوا کہ پینٹنگ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، موسیقی کیسے سکون بخش ہو سکتی ہے، پودے کیسے خوبصورت ہوتے ہیں، اچھی فلم کیا ہوتی ہے، خطاطی کس بلا کا نام ہے، مجسمہ کیوں دیکھا جائے، ادب میں کیا کیا ہیرے جیسی کتاب پڑی ہے۔ یہ سب انہوں نے لیکچروں میں نہیں بتایا، ان کی ہر بات میں ایسا ٹچ ہوتا تھا کہ بندہ خود ہی نت نئی چیزیں ایکسپلور کرنے کے چکر میں پڑ جاتا تھا۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہوئی کہ زندگی میں جتنی انگلش سیکھی، وہ بھی وہی سکھا گئے۔ کبھی کری ایٹو رائٹنگ نہ کرنے والے بچوں نے امتحان میں سارے مضمون خود سے لکھے۔ بلکہ ایسے لکھے کہ لمبی لمبی پھینکنے میں ماسٹر ہو گئے۔ اسی تجربے کی کمائی اب تک کھاتے ہیں۔ وہ ہم سب کو سوچنے والی، غور کرنے والی، ایک ٹیم بنا چکے تھے۔ یہ طے ہے کہ ان جیسا آدمی کسی بھی روائتی ٹیچر کے کیریکٹر میں فٹ آ ہی نہیں سکتا تھا۔ ندیم صاحب ہماری کلاس کے لیے فلم محبتیں والے راج آریان تھے بلکہ ٹھیک معنوں میں “ڈیڈ پوئٹس سوسائٹی” والے جون کیٹنگ تھے۔ انہوں نے سکول چھوڑا بھی ویسے ہی حالات میں تھا اور بچے بھی اسی طرح “او کیپٹن مائے کیپٹن” والے جذبات کے ساتھ آخری دن انہیں رخصت کرتے تھے۔

تو ایک ٹیچر جو ہوتا ہے اصل میں ساری زندگی کے لیے بچوں کو وہی تیار کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ایک استاد کے لیے لیڈر شب کے جدید اصول سمجھنا ضروری ہیں۔ روائتی شاگرد استاد والا دھندہ اب نہیں چلتا بھئی، سکول ہو، کالج ہو، یونیورسٹی ہو، اب تو ٹیم ہے بچوں کی، استاد ٹیم لیڈر ہے، جدھر چلائے گا بچے روانہ ہو لیں گے لیکن کوئی چلانے والا تو بنے۔ ٹیچر ہمیں لوگوں میں سے بنتے ہیں۔ کتابیں پڑھ پڑھ کے آگے پڑھاتے ہیں لیکن صرف کتابوں کا علم امپارٹ کر دینا کامیابی نہیں ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ اگر کوئی ایک بھی شاگرد تئیس برس بعد آپ کو یاد کرے تو اس کے پاس الفاظ نہ ختم ہوں، وقت ختم ہو جائے۔ اسے آپ صرف ایک نام کے طور پر یاد نہ ہوں، ایک پورے پیکج کے جیسے یاد ہوں۔ وہ زندگی کی ہر کامیابی میں آپ کو یاد کرے، وہ کوئی اچھا کام کرے، کوئی بروقت فیصلہ کرے، کوئی اہم قدم اٹھائے، تو اسے یاد ہو کہ ایک استاد ایسا تھا جس نے سمجھایا تھا کہ بیٹا، زندگی ایسے نہیں، ایسے بھی گزر سکتی ہے، فرق تمہاری اپنی آنکھ کا ہے۔ تمہاری سمجھ کا ہے۔ تمہاری ترجیہات کا ہے بلکہ تمہارے دماغ کے فتور کا ہے کہ وہ، تمہیں تمہاری دیوانگی میں کتنا آگے تک اڑا کر لے جاتا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain