ویمپائر ہے کہ بھسم ہی نہیں ہوتا


ہارر مویز (horror movies) میرے مزاج سے لگا نہیں کھاتیں؛ یہی وجہ ہے کہ میں نے کم کم ایسی فلمیں دیکھیں، وہ بھی اتفاق کی بات ہے۔ ایسا ہی ایک اتفاق ”انٹرویو وِد دا ویمپائر“ (Interview with the vampire) دیکھنے کا ہے۔ لڑکپن میں اشعار، پڑھتے ہی یاد ہوجاتے تھے، لیکن سن، تاریخیں یاد رکھنا مشکل لگتا تھا۔ اساتذہ نے یہ ترکیب بتائی کہ آپ کی یادداشت میں جن مشہور واقعات، سانحوں وغیرہ کی تاریخ ہو، اس سے کوئی نسبت جوڑ کر سبق میں درج تاریخ کو ذہن نشین کرنا آسان ہوتا ہے۔ مثلا ”انٹرویو وِد دا ویمپائر“ نام کا ناول 1976ء میں شایع ہوا، میں نے یہ سن یوں یاد رکھا کہ اس سے اگلے سال (1977ء) پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ ہوا تھا۔ 1994ء میں ”انٹرویو وِد دا ویمپائر“ نام سے فلم ریلیز ہوئی؛ فلم کی ریلیز کا سال یوں یاد رکھا، کہ یہ 1999ء کے مارشل لا سے پانچ سال پہلے ریلیز ہوئی تھی۔ آپ پوچھ سکتے ہیں، کہ میں نے دو مارشل لاؤں کے حوالے کیوں دیے، جب کہ اس کے بیچ میں اور بھی کئی سانحے ہوئے جنھیں گنوایا جاسکتا تھا؛ پہلے آپ یہ سطریں تمام کیجیے، آخری سطروں میں جواب ڈھونڈیے گا۔

فلموں میں عموما شیطان، ڈریکولا، ویمپائر وغیرہ کو کریہہ الصورت دکھایا جاتا ہے، لیکن یہ فلم ایسی ہے جس میں ”ویمپائر“ دکھائے جانے والے سبھی اداکار حسین مانے جاتے ہیں۔ ٹام کروز، بریڈ پِٹ، انتونیو بیندرا، سٹیفن رے اور دیگر نام۔ فلم بناتے ناول کے واقعات میں معمولی تبدیلی کی گئی ہے۔ مووی کے آغاز میں دکھاتے ہیں، کہ لوئیس (Brad Pitt) ایک صحافی (Christian Slater) کو انٹرویو دیتے کہتا ہے، وہ ویمپائر ہے؛ وہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، بلکہ کبھی انسان رہا ہے۔ اپنے دو سو سال کے سفر کی روداد سناتا ہے، کہ 1791ء کے دن تھے، وہ لوزیانا (اسپین میں) کا ایک شجرزار ہوتا تھا۔ اس کی محبوب بیوی اس کے بچے کو جنم دیتے وقت انتقال کرگئی، تو اس کا جی زندگی سے اچاٹ ہوگیا۔ اس دوران اس پر ایک ویمپائر جس کا نام Lestat de Lioncourt ہے، نے حملہ کیا۔ ”لیسدات“ (Tom Cruise)، لوئیس کی اپنے جیون سے بے رغبتی محسوس کرکے، اس کو ویمپائر بن جانے کی پیش کش کرتا ہے، لوئیس یہ پیش کش قبول کرلیتا ہے؛ لیسدات، لوئیس کو اپنے لہوکی چند بوندیں پلاتا ہے، اس طرح لوئیس ویمپائر بن کے ”لیسدات“ فیملی میں شامل ہوجاتا ہے۔ لوئیس کی تربیت کی جاتی ہے، اس دوران جلد ہی لوئیس، لیسدات کے انسانوں کو شکار کرنے کی فطرت سے متنفر ہوجاتا ہے۔ بے شک لوئیس کو اپنی پیاس بجھانے کے لیے لہو کی ضرورت ہے، مگر وہ اپنی پیاس جانوروں اور چوہوں وغیرہ کا لہو پی کر مٹاتا ہے۔ شکار کے انتخاب کی تربیت کے دوران لیسدات، لوئیس کو ارسٹوکریٹس کی ایک تقریب میں لے جاتا ہے، اور لوئیس کو اسباق دیتے، ارسٹوکریٹس کے خون کو ویمپائرز کی توانائی بحال کرنے کے جام سے تعبیر کرتا ہے۔

پھر یہ منظر ہے، کہ شہر میں طاعون کی وبا پھوٹ چکی ہے، لوئیس بھوک سے بے تاب ہے، گلیوں میں مٹرگشت کر رہا ہے کہ ایک بچی (Kirsten Dunst) کو دیکھتا ہے، جو اپنی ماں کی لاش پر بیٹھی رو رہی ہے۔ اس کی ماں کو طاعون نے ہلاک کر دیا ہے۔ لوئیس اپنی بھوک تو برداشت کرسکتا ہے، لیکن اس بچی کی نہیں؛ اسے اپنے ہم راہ لیتا ہے۔ لیسدات، بچی سے لوئیس کی الفت دیکھ کے، اس بچی کو ویمپائر میں تبدیل کردیتا ہے، تاکہ لوئیس کا جی بہلانے کے لیے کوئی ہو۔ لیسدات بچی کو کلاڈیا (Claudia) کا نام دے اپنی بیٹی قرار دیتا ہے۔ لوئیس کو ننھی کلاڈیا سے بے لوث محبت ہے، لیکن لیسدات کے لیے یہ بچی ایک شاگرد بھی ہے، جسے وہ انسانوں کا شکار کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ بالآخر کلاڈیا ایک ماہر شکاری بن جاتی ہے، جو لیسدات کی طرح انسانوں کا شکار کرکے مسرور ہوتی ہے۔

ساٹھ سال گزر جاتے ہیں، کلاڈیا جسمانی طور پر بچی کی بچی رہتی ہے، لیکن ذہنی طور پر بڑی ہے۔ وہ اس کیفیت سے بیزار آ جاتی ہے، جھنجلاہٹ میں اپنے بال کاٹتی ہے، جو اسی لمحے بڑے ہوجاتے ہیں؛ اپنی جان لینے کے لیے خود کو زخم لگاتی ہے، پل میں زخم مندمل ہوجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ کلاڈیا اپنی اس حالت یعنی جسمانی طور پر بچی رہ جانے کا ذمہ دار لیسدات کو سمجھتی ہے، جس نے اسے کم سنی میں ویمپائر بنایا تھا۔ کلاڈیا سازش بنتی ہے، دو جڑواں بھائیوں کو حد سے زیادہ پوست پلا کے مار دیتی ہے، اور دھوکے سے لیسدات کو ان کا مردار لہو پلا کر لیسدات کا نرخرہ کاٹ دیتی ہے؛ سازش میں شریک لوئیس نیم مردہ لیسدات کو دلدل میں دفنا آتا ہے۔ لیسدات جونکوں کا لہو پی کر بحال ہوتا ہے، اور بدلہ لینے ان کا پیچھے آتا ہے۔ اس بار لوئیس اور کلاڈیا، لیسدات کو آگ میں جلتا چھوڑ کر بحری جہاز میں سوار ہوجاتے ہیں۔

سال ہا سال بیت جاتے ہیں۔ لوئیس اور کلاڈیا یورپ گھومتے ہیںَ، لیکن اس دوران اپنے جیسا کوئی نہیں ملتا۔ پیرس میں آکے ٹھیرتے ہیں، تو اتفاقا ایک ویمپائر سنٹیاگو (Anne Rice) سے ٹکراؤ ہوجاتا ہے، وہ انھیں دوسرے ویمپائر آرمنڈ (Antonio Banderas) سے ملواتا ہے۔ پیرس میں ان کا ”ویمپائر تھیٹر“ ہے۔ تھیٹر ہال میں تماشا کرتے ویمپائر اداکار ایک دوشیزہ کا لہو پینے کا ناٹک رچاتے ہیں، تماشائی اسے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن کلاڈیا اور لوئیس جان لیتے ہیں، یہ حقیقی منظر ہے۔ انھیں نفرت ہوتی ہے، کہ یہاں بھی انسانی لہو پینے کا ڈھنگ ایجاد کرلیا گیا ہے۔ کلاڈیا، لوئیس کو مجبور کرتی ہے کہ ایک شفیق عورت جس کا نام میڈلین (Domiziana Giordano) ہے، وہ اس کو پسند کرتی ہے، لہاذا اسے ویمپائر بنادے۔ لوئیس، ننھی کلاڈیا سے محبت کرتا ہے، اس لیے اس کی بات مان لیتا ہے۔ ایک موقع پر ویمپائر سینٹیاگو ان کی سوچیں پڑھ لیتا ہے، سوچیں پڑھنے سے اسے پتا چل جاتا ہے، کہ کلاڈیا نے لیسدات لائن کورٹ کو مار ڈالا ہے۔ ہم جنسوں کو مارنا جرم ہے؛ ویمپائر کا جرگہ بیٹھتا ہے، قاتلوں کی سزا تجویز کرتا ہے، سزا پر عمل درآمد کرتے، لوئیس کو دھاتی کفن میں قید کر دیا جاتا ہے؛ جب کہ کلاڈیا اور میڈلین کو صحن میں باندھ دیا جاتا ہے، تاکہ سورج ابھرنے کے ساتھ بھسم ہوجائیں۔ ایسے میں آرمنڈ، لوئیس کی مدد کو آتا ہے، اسے کفن سے آزاد کرتا ہے، لیکن یہ دونوں کوشش کے باوجود کلاڈیا اور میڈلین کو بچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ سورج نکلنے پر وہ اذیت ناک موت مرتی ہیں۔ لوئیس انتقاما ”ویمپائر تھیٹر“ کو آگ لگا دیتا ہے، ویمپائر جل مرتے ہیں، یہاں بھی آرمنڈ دوبارہ اس کی مدد کو آتا ہے۔

لوئیس، صحافی ڈینئیل کو اپنی کہانی سناتے ہوئے بتاتا ہے، کہ اب وہ تن تنہا جی رہا ہے، کیوں کہ بعد میں اس نے آرمنڈ کا ساتھ بھی چھوڑ دیا تھا، وجہ یہ تھی، کہ کلاڈیا کی موت نے اسے نہایت دل شکستہ کردیا تھا۔ لوئیس یہ بھی بتاتا ہے کہ حال ہی میں اس کی ملاقات نحیف و نزار لیسدات سے ہوئی تھی، جو عہد حاضر میں جینے کے لیے اس کے ساتھ کا خواہش مند ہے، لیکن لوئیس انکار کر آیا ہے۔ صحافی ڈینئیل، لوئیس سے اس کی حیران کن داستان سن کر فرمایش کرتا ہے کہ لوئیس اسے بھی ویمپائر بنا دے، وہ ہمیشگی کا خواہش مند ہے، مستقبل میں اس کا ساتھی بنے گا۔ ڈینئیل کی یہ خواہش جان کر لوئیس غم و غصے کا اظہار کرتا ہے، کہ میری کتھا سن کر بھی کیا عبرت حاصل نہیں‌ ہوئی؟ مطلب یہ ہے کہ جب آپ کے پیارے ایک ایک کرکے بچھڑ جائیں، ان کا غم سوہان روح ہوکے رہ جائے، تو ہمیشہ کی زندگی بھلا کس کام کی۔ ویمپائر لوئیس، صحافی (ڈینئیل) کی سرزنش کر کے غائب ہوجاتا ہے۔ ڈینئیل، لوئیس کے خوف ناک ردعمل سے گھبرا کے وہ کمرا چھوڑ کے بھاگتا ہے، جہاں بیٹھا سوال جواب کر رہا تھا؛ وہ اپنی کار میں سوار ہوتا ہے؛ کار ٹیپ پلیئر میں کیسٹ چلاتا ہے جس میں لوئیس سے انٹرویو لیتے کی آواز رکارڈ ہے۔ اس دوران پچھلی نشست سے لیسدات ڈی لائن کورٹ نمودار ہوتا ہے، اور اپنے دانت صحافی کی گردن میں گاڑ دیتا ہے، اس زمانے میں لیسدات کو قوت حاصل کرنے کے لیے صحافی کا لہو تریاق ہے۔

کہانی کا یہ خلاصہ کچھ بھی نہیں، لطف پانا ہے تو آپ یہ فلم ضرور دیکھیے گا؛ تفریح ہے، علم ہے، اسباق ہیں۔ اس فلم کی اکیڈمی ایوارڈ کی ”بیسٹ آرٹ ڈائریکشن“، ”بیسٹ اوریجنل اسکور“ کی دو کیٹیگریوں میں نام زدگی ہوئی تھی۔ کلاڈیا کا کردار کرنے والی بچی کرسٹن ڈنسٹ، گولڈن گلوب ایوارڈ کی بہترین معاون اداکارہ کی نام زدگی حاصل کرپائیں۔ فلم کی مصنف اینے رائس (Anne Rice) نے ”لیسدات“ کے کردار کے لیے ٹام کروز کے انتخاب پر اعتراض کیا تھا، لیکن فلم مکمل ہونے پر انھوں نے واشگاف لفظوں میں اعتراف کیا:
That Tom did make Lestat work was something I could not see in a crystal ball. It’s to his credit that he proved me wrong.

ابتدائیے میں، میں نے لکھا ہے کہ آخری سطروں میں آپ کو اس بات کا جواب مل جائے گا، کہ میں نے اس ناول ”انٹرویو وِد دا ویمپائر“ کی سن اشاعت اور فلم ریلیز ہونے کے سن کو پاکستان میں فوجی آمریت کے سال کی نسبت سے کیوں یاد رکھا۔ میری نظر میں ”لیسدات“ آمریت کا استعارہ ہے، جو ہر عہد میں عوامی نظام کا لہو پیتا ہے۔ جن کا لہو مطلوب ہے، انھی میں سے کچھ کو اپنے لہو کی بوندیں پلا کر ”معاون“ کرتا ہے، تاکہ شکار میں اس کے ہم آہنگ ہوں۔ مارشل لا کا ویمپائر ”لیسدات“ پہلی بار 58ء میں حملہ آور ہوا، بیوروکریٹس، ارسٹوکریٹس کے لہو سے توانائی حاصل کی۔ آدھا ملک گنوا دیا۔ خیال تھا کہ ”لیسدات“ کی موت واقع ہوگئی ہے؛ اپنے تئیں جس دلدل میں دفن کر آئے تھے، وہاں جونکوں کے لہو نے پھر سے زندہ کردیا۔ 77ء میں ایک بار پھر اس کے دانت نظام کی گردن پر پڑے۔ اس زمانے میں ”ویمپائر تھیٹر“ کی مثال سرکاری نشریاتی اداروں کے اذہان سازی کرتے پروگرام رہے۔ 88ء سے 99ء تک بظاہر ”لیسدات“ نہ تھا، لیکن اصغر خان کیس جیسے مقدمے کا فیصلہ بتاتا ہے، ”لیسدات“ کو دلدل میں دفنا دو، تو بھی جونکوں کے لہو سے قوت پکڑتا رہتا ہے۔ وہ صحافی جو ویمپائر کی کہانی سنتا آیا، سناتا آیا؛ ویمپائر کی ہمیشگی کا ایسا اسیر ہے، کہ ”ویمپائر“ بننے کی خواہش من میں جگائے ہوئے ہے؛ اندیشہ ہے کہیں نحیف و نزار ”لیسدات“ آج کے صحافی کے لہو سے تریاق نہ پا جائے۔ ”لیسدات“ ہے کہ بھسم نہیں ہوتا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran