بارہ جماعت پاس بھکارن


کہاں سے آئے ہو بابو؟
مزدوری کرنے آیا ہوں!
کیا مزدوری کرتے ہو؟
لوگوں کی باتیں اور تصویریں بیچتا ہوں!
کتنے پیسے ملتے ہیں؟
باتوں اور تصویروں کی اہمیت اور خوبصورتی پر انحصار ہے!

پردہ ہٹا کر چاند چہرہ دکھا کر بولی ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں، ہماری تصویر بھی نکال اور پیسے دو!
ہم نے حیران و پریشان ہوکر پوچھا اتنی عقل کہاں سے آئی ہے؟
چہرہ ڈھانپ کر جواب دیا کی بابو ہم بارہ جماعت پاس ہے!

مسکرا کر ہم نے جواب دیا بڑی لائق اور چالاک ہولیکن کام اچھا نہیں کر رہی ہے! جواب دیا کہ گھر میں کمانے والا نہیں ہے، مرد نہیں، مجبوری ہے، لاچاری ہے اس لئے چھوٹے بھائی اور ماں کو پالنا پڑ رہا ہے، اسکول پاس کرکے والد فوت ہو گئے اور بس آگے تعلیم مشکل ہوگئی اس لئے مجبورہوکر یہ دھندہ شروع کیا کیونکہ گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لئے وقت اور پیسے نہیں تھے۔

حیات آباد پشاور کے مقامی بازار میں ایک جواں سال بھکارن کے ساتھ ہونے والی گفتگو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعدبھی کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سرعام بازاروں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ تعلیمی اداروں کی خراب حالت، سرکاری اداروں میں ہونے والی کرپشن، مہنگائی میں اضافہ، معاشرتی نا انصافیاں اور نوکریوں اور وسائل کی تقسیم میں اقرباء پروری اور سیاسی مداخلت وہ عوامل ہیں جنہوں نے بارہ جماعت پاس لڑکی کو مانگنی والی بنا کر بازار کی زینت بنا دیا ہے جہاں وہ کسی بھی غلط ہاتھ میں آسانی سے جا سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے وظائف مقررکیے جائے جو مجبوری کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہے اور یا تو بازاروں میں بھیک مانگ رہے ہیں اور یا ورکشاپوں اور ہوٹلوں میں مزدوری کررہے ہیں تاکہ وہ مزید خوار و ذلیل نہ ہو اور اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو ان کوباعزت ہنراور قرضے دیے جائے تاکہ وہ اپنے لئے روزگار شروع کر سکے ورنہ ان کو منفی سرگرمیوں اور بد فعلیوں تک آنے میں دیر نہیں لگے گی کیونکہ تاریخ بتاتی ہے کہ ضرورت اور مجبوری نے ہی عورت کو بازار حسن کی راہ دکھائی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).