فیئر اینڈ لولی۔۔۔ اور پھر لیڈی ڈاکٹر


\"ramish-fatima\"

ایک ہمارے سینئر ڈاکٹر صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ چاہے جو بھی حالات ہوں کبھی گھر نہ بیٹھنا، اتنے سال کی محنت ہے یوں ضائع مت کر دینا۔ اور جو خواتین سینئر ہیں ان کے حالات دیکھ کر ویسے ہی خاصی عبرت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال ان لڑکیوں کے لئے  بھی مشکل رہی ہے جنہیں ڈاکٹر بننے یا خدمتِ خلق جیسی کسی چیز میں دلچسپی نہیں تھی مگر اچھے رشتے کی خاطر انکے والدین نے میڈیکل کالج میں بھرتی کروا دیا کہ اس جہانِ فانی میں عورتوں کی زندگی کا واحد مقصد شادی ہے۔ شادی کی خاطر اچھا رشتہ درکار ہے اور اچھا رشتہ تب ملے گا جب بیٹی کی ڈگری ایسی ہو کہ لائن لگ جائے۔ عورت کو کموڈٹی بنانے کا طعنہ دینے والے ہوں یا چھپا کر رکھنے والے۔ یہ ایسا ایک موعودہ مرحلہ کہ جس کی پختہ ضمانت دی گئی ہے کہ زبردستی سب کی عزتِ نفس ایک بار تو کچلی ہی جائے گی چاہے کوئی باہر سے آ کر کچلے یا ہم خود یہ نیک فریضہ سرانجام دیں۔

ابھی کل ہی ایک ساتھی ڈاکٹر کے انجینئر دوست نے اس سے فرمائش کی ہے کہ یار کوئی ڈاکٹر تیرے ساتھ کام کرتی ہو گی دیکھ میرے لیے۔ میرے کولیگ نے اسے کہا کہ یار تجھے کیا شوق چڑھا ؟ تجھے تو ڈاکٹری پسند ہی نہیں تھی اسی لئے انجینئر بنا تھا نا؟ تو اس کے دوست نے جواب دیا \”ارے یار ڈاکٹر سے شادی کرنے سے چار لوگوں میں ٹور بن جاتی ہے بندے کی\”

یہ بات سن کر اس کمرے میں چھائی خاموشی مزید بڑھ گئی ،سب لوگ کچھ نا کچھ سوچ رہے تھے، کہیں اپنے اندر ہی جنگ چل رہی تھی کہیں دکھ تھا کسی چہرے پہ غصہ تھا اور کہیں افسوس۔ اتنے میں فون کی گھنٹی نے خاموشی توڑ دی۔ فون اٹھایا تو دوسری طرف ایک پرانی سہیلی تھی ، کچھ روئی سی آواز تھی ، خیریت دریافت کی تو پتا چلا کوئی خاتون آئیں تھیں ، چھوٹی بہن کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کر رہی ہے ، دیکھنے اسے آئیں تھی اور پھر گھر جا کر فون کیا ، میرا بیٹا کہتا ہے ڈاکٹر سے شادی کرنی ہے تو آپ ہمیں بڑی والی کا رشتہ دے دیں۔ ماں نے فون بند کر کے یہ بات بتائی تو بہنوں کی نظریں ملیں اور پھر ان سب نے نظریں چرا لیں۔ اس لڑکی نے اپنی ماں کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور بولی یہ لوگ ڈگری سے شادی کرنا چاہتے ہیں جس دن لڑکی سے کرنا چاہیں گے اس دن مزید بات ہو گی۔ اتنا کہہ کہ کمرے سے نکلتے ہوئے اس کی نظر اپنی چھوٹی بہنوں کے چہرے پہ پڑی تو اس نے قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی نظریں جھکا لیں۔

کسی کو ٹور بنانے کے لئے  ڈاکٹر چاہیئے ، کسی کو گول روٹی بنانے کے لئے، کسی کو اے ٹی ایم مشین بنانے کے لئے، اور کسی کو گھر بٹھانے کے لئے۔ کسی کو اچھا رشتہ درکار ہے، کسی کے بھائی کی بیٹی ڈاکٹر ہو تو اس کی بیٹی بھی ڈاکٹر ہی بنے گی، کسی کی جیٹھانی ڈاکٹر بہو ڈھونڈ کر لائی ہے تو اس نے بھی مقابلے کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا۔

جہاں تعلیم کا واحد مقصد اچھا رشتہ اور مقصدِ حیات شادی ہو وہاں گلہ کیا کرنا؟ اور کس سے کرنا؟ آسان کام ہے یہ کہنا کہ کوئی کوٹہ مقرر کر دیں ، بےشک کر دیں پچاس فیصد سیٹیں لڑکیوں کو دیں، لیکن یوں سیٹ اور پیسے ضائع کرنے کا الزام دینے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیں کہ باقی حالات کیا ہیں۔ اگر آپ کسی بھی پیشہ ورانہ ڈگری والی لڑکی کو بہو یا بیوی بنانے کے خواہشمند ہیں تو پھر حالات کو سازگار بھی رکھیں، ہوتا یہ ہے کہ گھر کے کاموں سے چھٹی نہیں ملتی، وہ کسی حد تک مل بھی جائے تو اپنے بچے تو آپ نے خود ہی پالنے ہیں۔ اگر بچے کسی اور کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں تو اس کے اپنے مسائل ہیں اور اگر گھر بیٹھ جائیں تو کبھی لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور کبھی ایک عجیب سی نفسیاتی الجھن کہ اتنی محنت کے بعد کرنا وہی ہے جو پڑھے بغیر بھی ہو سکتا تھا۔ جب یہ لڑکیاں تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس شعبے کو خیرباد کہہ جاتی ہیں تب بھی الزام انہی کو دیاجاتا ہے کہ پیسے اور سیٹ ضائع کر دی۔

شادی کے نام پہ اپنی یا دوسروں کی اولاد کی تذلیل کرنےسے بڑی بدتہذیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟ دکان میں سجی چیزوں اور انسانوں میں بہرحال فرق ہوتا ہے، ایک برانڈ نہ سہی دوسرا سہی، وہ آپ کی مرضی ہے جو بھی خریدیں لیکن جہاں بات انسان کی ہو وہاں معاملہ مختلف ہے۔ بیٹا ہو یا بیٹی آخر شادی کے نام پہ دکان کھولنے کی کیا ضرورت ہے؟ جاتے جاتے ایک تلخ جملہ نوکِ قلم پہ مچل رہا ہے وہ لکھنے دیں کہ فی زمانہ اپنی ہی اولاد کو مہذب طریقے سے بیچنے کا نام شادی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments