ہم اپنے بچوں کو نفرت بھری دُنیا سے کیسے بچائیں؟



”ماما یہ شیعہ کیا ہوتے ہیں“ اپنی دس سالہ بیٹی کے مُنہ سے اسکُول سے واپسی پر یہ جُملہ سُننے پر چند لمحے تک ہونقوں کی طرح اُسکا جوش اور گرمی سے پسینے میں بھیگتا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”بیٹا آپ یہ سوال کیُوں کر رہی ہو؟“ میں نے اندر کے غُصے اور حیرت کو دباتے ہُوئے کہا۔

میرے لیے اُسکا یہ سوال اس لئے غیر متوقع اور حیران کُن تھا کہ میری اور میرے میاں صاحب کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ گھر میں مذہب یا کسی بھی فرقے کے بارے میں بحث نا کی جائے۔ ہماری یہ ایک دوسرے سے کمٹمنٹ بھی ہے کہ اپنی بیٹی کو ہم ایک اچھا اور کارآمد شہری اور انسان بنائیں گے نا کہ کسی خاص فرقے یا گروہ سے تعلُق رکھنے والا ذہنی مریض۔ میرے سوال پر بیٹی بولی کہ ماما آجکل مُحرم ہے اور میری کلاس فیلو ماریہ شیعہ ہے “۔ میں نے اُس سے پُوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ وہ شیعہ ہے۔ ”ماما کلاس کی کُچھ بچیاں یہ باتیں کر رہی تھیں کہ ماریہ اپنی امی کے ساتھ مجلس سُننے جاتی ہے اس لئے تُم ماریہ کے ساتھ مت بولا کرو کیُونکہ وہ شیعہ ہے“

بیٹی کی ساری گُفتگُو سُن کر میں نے بڑے تحمُل سے اُسے سمجھایا کہ بیٹا وہ بھی آپ کی بہن ہے اور مُسلمان ہے آ پ نے آئندہ کسی سے اس طرح کی کوئی بات نہیں کرنی۔ میرے کان لیکن کھڑے ہو چُکے تھے کہ جس چیز سے میں اپنی بیٹی کو دور رکھنا چاہتی ہُوں وہ تو اس کی ہم جماعت بچیاں تک آپس میں ڈسکس کر رہی ہیں، یا خُدایا میں اس نفرت بھری سوچ سے اس کو کیسے بچاؤں میں نے دل میں سوچا، بات کو ٹالا اور شام میں ساری کہانی بیٹی کے بابا کے گوش گُزار کی کہ جس تفرقہ بازی کی ہم اپنی بیٹی کو بھنک بھی پڑنے دینا چاہتے وہ اسکول سے سیکھ کر آ رہی ہے۔

ہم دونوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ بیٹی کے اسکُول کے پرنسپل سے جو کہ ایک پڑھے لکھے اور لبرل خیالات کے مالک ہیں اُن سے بات کی جائے تا کہ وہ اپنے اسکول کے اساتذہ سے بات کریں اور بچوں کی کاؤنسلنگ کریں اور اُنکے دماغوں کو اس عُمر میں ہی نفرت اور زہریلے مذہبی پرو پیگنڈے سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔ خُدا کا شُکر ہے کہ اسکُول کے پرنسپل نے ہمارا مُدعا پُوری توجہ سے سُنا اور ہمیں یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کم از کم اسکُول کے اندر ایسی کوئی بات بچوں کے درمیان نہیں ہو گی۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کی مُجھے ضرورت آ جکل میڈیا اور سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف کیپٹن صفدر کے بیان اور اس کے بعد کی صورتحال دیکھ کر اپنا بچپن اور والدین کی تربیت اور سوچ یاد آ گئی۔ والد صاحب پڑھے لکھے اور کھُلی ڈُلی سوچ کے سرکاری مُلازم تھے۔ ہمیں صرف یہ معلُوم تھا کہ ہم سب مُسلمان ہیں، باقی تمام مذاہب کے انسان بھی ہماری طرح کے ہی حقوق کے حقدار ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ والد کے بچپن کے قریبی دوست احمدی، ہندو اور عیسائی تھے اور والد صاحب کی وفات کے بعد بھی اُنکے دوستوں کی اولادوں کے ساتھ ہم سب بہن بھائیوں کے بہت اچھے تعلُقات ہیں، اکٹھے ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر مُشترکہ برتنوں میں کھانا کھاتے ہیں ہم، میرے کالج فیلوز جن میں لڑکیاں اور لڑکے سب شامل ہیں آدھے سے زیادہ لوگ شیعہ ہیں، کبھی ان سے مذہبی یا فرقہ عارفانہ گفتگو نہیں کی، کیُونکہ ایسی کوئی صورتحال پیش ہی نہیں آئی۔ میری بہترین دوست احمدی ہے۔

لیکن اب دوسروں سے جب نفرت انگیز گفتگُو سُنتی ہُوں حتی کہ اکلوتی بیٹی کے مُنہ سے شیعہ لوگوں کے بارے میں سوالات۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ہم جیسے لوگ جو اپنے بچوں کو بے ضرر اور اچھے شہری بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے بچوں کو نفرت بھری دُنیا سے کیسے بچائیں اور خُدا معلُوم ہم اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو بھی پاتے ہیں کہ نہیں۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).