شکریہ پرویز مشرف۔۔۔ آپ نے میری لاج رکھی!


گیار ہ سو روپوں میں آلو قتلے بنانے والی مشین لی تھی۔ ایک دوست کی دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر میز رکھ کر مشین سےآلو قتلے نکالے جاتے۔ ڈھیر سارے معصوم بچے مٹھی میں ایک روپیہ دو روپیہ میری طرف بڑھا رہے ہوتے۔ معقول فروخت کے باوجود ابتدا میں منافع کے بجائے خسارہ رہتا۔ دوستوں نے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ میں بچوں کے چہرے کی معصومیت کی تاب نہیں لا پا رہا اور ایک روپے کے بدلے پانچ پانچ روپے کے قتلے ڈال دیتا ہوں۔

دس دن ہی گزرے تھے اور معاملات ٹھیک سے چلنے کا شائبہ ہی ہوا تھا کہ احساس ہوا کہ کاروبار کو وسعت دی جائے۔ اول العزمی کی یہ شاندار نفسیات میں نے ننھیال سے وراثت میں لیں تھیں۔ انہوں نے بھی الحمد اللہ زندگی بھر ہر کام میں ہاتھ ڈالا اور کسی میں کامیاب نہیں ہوئے۔ دوستوں کے معقول مشوروں کو رد کرتے ہوئے پندرہ سو کے کرایہ پر ایک دکان لے لی۔

آلو کے قتلوں کے ساتھ برگر کی صنعت کا فوری اضافہ کیا گیا۔ یہ نہیں سوچا تھا کہ مہینے کے آخر میں کرایہ کی رقم کیسے آئے گی۔ آج کی فروخت سے کل کے آلو خرید کی رقم نکل آتی تو لگتا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے۔ معاشیات میں شدبد کی وجہ سے گراف بنا ڈالے جو خرید و فروخت میں توزن و عدم توازن، منافع کی شرح، کاروباری تخمینے بتاتے تھے۔ ان گرافس کی ضرورت نہیں تھی لیکن پہلے دن دو سو روپے کی فروخت نے میرے ہاتھ پاؤں پھلا دیے تھے۔ ابھی اس قابل تو تھا نہیں کہ کوئی چارٹرڈ اکاؤنٹٹ بھرتی کرتا جو ہندسوں کی بے قابو اچھل کود اور طول موج سے انحراف کرتے اشاریوں کو قابو میں لاتا۔

اس کا نقصان یہ ہوا کہ میری توجہ کی کثرت گرافس پر صرف ہونے لگی۔ دو روپے کے فرنچ فرائیز کے بعد ذہن گراف کی فروخت لائن کو بڑھانے کا سوچتا رہتا۔ لیکن ضبط کر کے اگلے خرید حکم کی تعمیل میں لگ جاتا۔ تماشا تب ہوتا جب کوئی نو دولتیا، دولت کے نشے میں مخمور، جھومتا ہوا دکان پر آکر بدتمیزی سے۔۔ برگر کا آرڈر دیتا۔ برگر کی صنعت میں قدم رکھنے سے پہلے برگر کو بنانے کی معلومات ہماری اتنی تھیں کہ دو بن۔۔ جن کو سیک کر اندر سرخ و سبز چٹنیاں اور کباب رکھتے ہیں۔ کباب، چٹنیوں اور بن کی کوالٹی کی جملہ باریکیوں کی نہ ہمیں سمجھ تھی نہ سیکھنے کا کوئی ارادہ رکھتے تھے۔ ہمارے گاہکوں کی اکثریت ایسی تھی جو خود پہلی دفعہ برگر کھا رہے تھے۔ اس لیے کوالٹی کا مطالبہ صنعت سے تھا ہی نہیں تو صنعت کار نے توجہ بھی نہیں دی۔

ارے بات ہو رہی تھی تماشا تب لگتا جب کوئی برگر کا آرڈر کرتا۔ برگر فروخت کرنے اور پیسے وصول کر کے گلے میں رکھنے کے بعد دوسرے گاہکوں کو انتظار کرنے کا کہا جاتا۔ دکاندار، دکانداری کا جامہ اتار کر ماہر معاشیات کا قیمتی سوٹ پہن کر نیچے رجسٹر کو نکالتا اور گراف پر فروخت کے خط کو۔۔ چھ روپے کے اضافے سے۔۔ اوپر کی جانب یوں کھینچتا کہ دل کو خط۔ عمود لگتا۔ پھر گاہکوں کو دیکھ کر بڑی مشکل سے دکانداری کا جامہ دوبارہ زیب تن کیا جاتا۔ مہینے کے آخر میں معاملات ماہرمعیشت کے ہاتھ سے نکلنا شروع ہو گئے۔ کرایہ سر پر تھا۔ دکاندار چیختا کہ سارا مہینہ میں نے اتنی محنت کی ہے اور پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ کرایہ دے سکوں۔ ماہر معیشت دقیق اصطلاحوں سے سمجھانے کی کوشش کرتا، گراف دکھاتا اور بتاتا کہ حال کے مسائل تو ہیں لیکن مستقبل انتہائی روشن ہے۔ دکاندار کہتا، ماہر معاشیات بھائی اپنے روشن مستقبل سے صرف پندرہ سو روپے مجھے نکال کر دے دو تا کہ میں تمھارے روشن مستقبل تک پہنچ تو سکوں۔ کرایہ نہ دے سکا تو روشن مستقبل تک پہنچوں گا کیسے۔ ماہر معاشیات ٹائم ویلیو آف منی سمجھاتا اور دکاندار فرائی پین اپنے سر پر مارتا۔

دقت یہ تھی کہ عزت داؤ پر لگی تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا اتنے بلند بانگ دعووں کے بعداتنی جلد ناکامی۔۔۔ کس قدر مذاق اڑایا جائے گا۔ اور پھر کروں گا بھی کیا؟ کاروبار بند کر بھی دیا تو پندرہ سو روپوں کے ساتھ دوسرے قرضہ جات اتاروں گا کیسے۔ تین ہزار روپے سے زائد کا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ نہیں تو سات آٹھ سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ قصہ مختصر کہ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خبیث ماہر معاشیات تو غائب ہو گیا۔ دکاندار حالات سے مقابلہ کرنے اکیلا رہ گیا۔

دکاندار اکیلا بیٹھا، ماہر معاشیات کے چھوڑے گرافوں کی بتیاں بنا رہا تھا جب ساتھ والی ویڈیو فلموں کی دکان سے شاہ جی میری صنعت گاہ پر آئے اور کہا۔۔۔ سنا آپ نے؟ پی ٹی وی بند ہو گیا ہے؟ سننے میں آ رہا ہے کہ مارشل لاء لگ گیا ہے۔ یہ سب کچھ مجھے بتا کر شاہ جی سامنے چائے والے ہوٹل کے خالد کو چیخ کر یہی سب بتانے لگے۔ اتنے میں سڑک گزرنے والی سوزوکی کو بریک لگی اور اندر سے ڈرائیور اعجاز نے جوتے گھانٹھنے والے ہمارے ‘دانشور’ موچی کو چیخ کر کہا۔ ۔ سنا ہے مارشل لاء لگ گیا ہے۔ پی ٹی وی پر کچھ نہیں آ رہا۔ (دانشور موچی کے دلچسپ کردار پر پھر کبھی سہی)

مجھے اس سارے شوروغل سے ایک گونہ تسلی ہوئی۔ مارشل لاء کے اسباب و نتائج سے تو واقفیت نہیں تھی بس اتنا سمجھ میں آتا تھا کہ ملک میں میری صنعت ڈوبنے سے بڑا کوئی واقعہ ہو چکا ہےجس کا فوری فائدہ مجھے اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا کہ خلق خدا کی توجہ بڑے واقعہ کی جانب مبذول ہے۔

وہ رات دکان پر ہی گذری۔ شٹر تھوڑا سا اوپر تھا۔ رات دو بجے چوکیدار نے ٹارچ دکان کے اندر لگائی۔ میں باہر آ گیا۔ چوکیدار نے کہا پتہ ہے مارشل لاء لگ گیا ہے۔ پرویز مشرف آ گیا ہے۔ میں نے چوکیدار سے کہا کہ مارشل لاء تو سنا ہے اچھا نہیں ہوتا۔ چوکیدار نے کہا نہیں نہیں۔۔ اب دیکھنا فوج کیسے حرام خوروں کے پیٹ میں سے پیسے نکال کر عوام کو دے گی۔ یہ بہت اچھا ہوا ہے۔ پوری زندگی پستے رہے، روتے رہے۔۔ اگلی نسلیں سنور جائیں گی۔

چوکیدار خوش تھا۔ یکسانیت ٹوٹی۔ چاہے حالات اس سے بھی بدتر ہو جائیں۔

میں خوش تھا۔۔ صنعت کی ناکامی۔۔ کمانڈو مہم جوئی میں دب گئی!

شکریہ پرویز مشرف!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik