قندیل بلوچ قتل کیس میں عالم دین مفتی عبدالقوی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری


جنوبی پنجاب کے شہر ملتان کی ایک مقامی عدالت نے سوشل میڈیا سلیبرٹی قندیل بلوچ کے قتل میں مذہبی رہنما مفتی عبدالقوی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔ عدالت نے یہ وارنٹ اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کی درخواست پر جاری کیے ہیں۔

نامہ نگار شہزاد ملک نے بتایا کہ اس مقدمے کی سماعت کے دوران تفتیشی ٹیم کی طرف سے جب نامکمل چالان پیش کیا گیا تو عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس کی تفتیش مکمل نہیں ہوئی جس پر تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں مفتی عبدالقوی کو متعدد بار شامل تفتیش ہونے کے بارے میں کہا گیا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ اُنھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ مفتی عبدالقوی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرے جس پر عدالت نے اُن کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے اُنھیں 17 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ دریں اثنا اسی عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرنے سے قبل ہی مفتی عبدالقوی کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بھی منظور کرلی تھی۔

ایس پی ملتان عمارہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم نے عدالت کی طرف سے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے سے پہلے ہی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دی تھی جو ایک لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے پر منظور کرلی گئی۔

مفتی عبدالقوی کا موقف کیا ہے؟

مفتی عبدالقوی کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ پولیس کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ جب قندیل بلوچ کو قتل کیا گیا وہ لاہور میں موجود تھے۔ مفتی عبدالقوی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے کبھی بھی ملزمان کو قندیل بلوچ کو قتل کرنے کے بارے میں نہیں اکسایا۔

واضح رہے کہ قندیل بلوچ کے قتل کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے مفتی عبدالقوی کو تفتیش کے حوالے سے ایک سوالنامہ بھجوایا تھا جس کا اُنھوں نے جواب دیا تھا جس میں ملزم نے دعویٰ کیا کہ اُنھیں معلوم نہیں ہے کہ قندیل بلوچ کو کس نے قتل کیا اور اس میں کتنے افراد ملوث تھے۔

اس کے علاوہ مفتی عبدالقوی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد مقتولہ کے خاندان کے کسی بھی شخص نے اُن سے رابطہ نہیں کیا تھا۔

قندیل بلوچ کے قتل سے پہلے مفتی عبدالقوی کی مقتولہ کے ساتھ سوشل میڈیا پر تصاویر شائع ہوئیں تھیں جس کے بعد اُن کی رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت معطل کردی گئی تھی۔

گذشتہ برس جولائی میں قندیل بلوچ کو مبینبہ طور پر ان کے بھائی وسیم نے غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا جبکہ اس مقدمے میں مقتولہ کا کزن حق نواز بھی مبینبہ طور پر شامل تھا۔ یہ دونوں ملزمان اس وقت ملتان جیل میں ہیں۔ متنازع بیانات اور پاکستان میں قابل اعتراض فوٹیج کی وجہ سے قندیل بلوچ میڈیا کی حد تک کافی مقبول شخصیت تھیں۔

پولیس نے مقتولہ کے والد کے بیان پر دو ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا اور جن دو افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا وہ کوئی اور نہیں بلکہ قندیل بلوچ کے دو حقیقی بھائی تھے۔ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد سیاسی اور سماجی حلقوں میں زیر بحث لائے جانے کے بعد یہ واقعہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی آیا اور پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافے کی وجہ اس ضمن میں مناسب قانون سازی نہ ہونے کو قرار دیا گیا تو پھر پولیس نے قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے ضابطہ فوجداری کی دفعہ311 سی کا اضافہ کردیا جس سے اب اس مقدمے کا مدعی چاہتے ہوئے بھی ملزمان کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔

قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں اگرچہ مقتولہ کے والد مدعی ہیں تاہم حکومت نے اس مقدمے میں ایک ایسی شق بھی عائد کی ہے جس کے تحت اگر مدعی چاہے بھی تو اپنے تئیں ملزمان کے ساتھ صلح نہیں کرسکتا۔

مفتی عبدالقوی کے وکیل محبوب عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے موکل اس مقدمے میں نامزد ملزم ہیں اور نہ ہی اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے ملزمان نے مفتی عبدالقوی کا نام لیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ مقتولہ قندیل بلوچ کے والد جو اس مقدمے کے مدعی ہیں، اُنھوں نے پولیس کو بتایا کہ ان کا بیٹا ملزم وسیم مفتی عبدالقوی کے عقیدت مندوں میں سے ہے جبکہ حقیقت میں ملزم وسیم کبھی بھی ان کے موکل کے پاس نہیں آیا۔

ایس پی عمارہ کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کا ایک ملزم اسلم مقتولہ کا بھائی ہے اور وہ اس وقت فوج میں تعینات ہے اور ان کو اشتہاری قرار دینے سے متعلق کارروائی شروع نہیں کی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp