الف امرتا عین عشق


آج امرتا پریتم کی بارہویں برسی ہے

امرتا کے ادبی اظہار کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے عورتوں کے لیے ایک دنیا خلق کی ۔جس میں بغاوت بھی تھی اور عشق کی آوارگی بھی ۔

“ایک درد تھا

جو سگریٹ کی طرح

میں نے چپ چاپ پیا ہے

صرف کچھ نظمیں ہیں

جو سگریٹ سے میں نے

راکھ کی طرح جھاڑی ہیں “

اس نظم کی شاعرہ امرتا پریتم کے بارے میں گوپی چند نارنگ نے لکھا تھا؛”انھوں نے اپنی زندگی ہی میں ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر لی تھی ۔۔۔عورتوں اور مظلوم طبقات کے لیے جنگ کرنے والی امرتا پریتم نے جس بہادری اور نڈری سے ساحر لدھیانوی سے اپنے عشق کا اعتراف کیا ، وہ ایشیائی عورت کی آزادی اور آزاد ارادے کے حوالے سے ان کے حوصلے اور بلند ہمتی کی دلیل ہے۔ وہ اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی روایت باقی رہے گی۔”

امرتا پریتم کا بنیادی تعارف یہی ہے ۔یوں تو وہ 31اگست 1919میں گوجر انوالہ میں پیدا ہوئی تھیں، وفات دہلی میں(31اکتوبر 2005) ہوئی۔

ان کی تصانیف میں رسیدی ٹکٹ،سرخ دھاگے کا رشتہ(دوسری خود نوشت سوانح عمری)، پنجر، کاغذ تے کینوس ، ایک لڑکی ایک جام، میں جمع توں، سنیہڑے، نویں رت، کستوری، کورے کاغذ، اشوکا، اک سوال، جلا وطن، یاتری، تیرھواںسورج ،آخری خط،ہیرے دی کنی ،اک شہر دی موت، تیسری عورت،مٹی دی ذات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

خشونت سنگھ کے بقول امرتا پریتم پنجابی ادب کی Queenتھیں ۔لیکن ان کی شہرت پنجابی ادیبہ کے طور پر محدود نہیں تھی۔امرتا

عالمی ادب میں اپنے تخلیقی رویوں کی وجہ سے دور تک پہچانی گئیں ۔ یوں تو پنجابی کے علاوہ انھوں نے ہندی میں بھی لکھا ہے، لیکن ان کی تحریروں کے تراجم صرف اردو ،ہندی میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی اکثر زبانوں(34زبانوں ) میں موجود ہیں۔

ایک زمانے میں’ناگ منی’کے نام سے رسالہ نکالتی تھیں،دوردرشن پرپنجابی ادبی پروگرام ‘درپن’ پیش کرتی تھیں۔ 1956میں انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا،قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی پہلی ادیبہ تھیں جنہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا تھا۔اس سے پہلے کسی لکھنے والی کو یہ ایوارڈ نہیں ملا تھا۔

1969میں پدم شری ان کے حصے میں آیا۔1973میں دہلی یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔اس کے علاوہ جودھ پور یونیورسٹی، وشنو بھارتی یونیورسٹی ، پنجاب یونیورسٹی نے بھی ڈی لٹ سے نوازا۔ دوسرے ایوارڈاور اعزازمیں 1982 میں بھارتی گیان پیٹھ،1990میں وارث شاہ ایوارڈ،2004میں پد م وبھوشن قابل ذکر ہیں۔امرتا کو ہندوستان کے باہر بھی بہت سارے اعزاز و اکرام سے نوازا گیا۔

امرتا کے ادبی اظہار کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے عورتوں کے لیے ایک دنیا خلق کی ۔جس میں بغاوت بھی تھی اور عشق کی آوارگی بھی ۔دراصل ہمارے سماج میں ‘عورت’کی ایک خاص’ تمثال’ تشکیل دی گئی ہے ۔ امرتا نے ادب اور زندگی دونوں میں اس شبیہ کو توڑنے کی کوشش کی ۔

امرتا روایات سے جکڑی ہوئی عورت کی تمثال کو ‘عورت’ بنانے پر مصرتھی۔ان کے ادبی اظہار میں اس کی مختلف مثالیں آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہیں۔ روایت کی بیڑیاں انھوں نے اپنی تحریروں میں بھی کاٹی اور زندگی میں بھی۔ وہ دیکھنے میں نازک سی تھیں بالکل ویسی جیسی’قلم’ دیکھنے میں نازک نظر آتی ہے، لیکن قلم کی طاقت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ امرتا دراصل قلم کا استعارہ تھیں۔ یہی استعارہ ان کے ادبی اظہار کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے۔

امرتا کی زندگی بھی ایک کھلی کتاب ہے ۔ اپنی خود نوشت ‘رسیدی ٹکٹ’ میں انھوں نے اس کا اظہار بخوبی کیا ہے۔ جس پر کھل کر اعتراض بھی کیا گیا۔ لیکن انھوں نے اس کی پروا نہیں کی ۔

ادب میں بے باکی سے لکھتی رہی اور زندگی میں بھی اسی بے باکی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو اپنی مرضی سے سانس لینے کی آزادی بھی نہیں ہوتی پھر ’عشق‘ کرنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ امرتا نے ان تمام اصولوں کو توڑا، عشق کیا اور اپنے عشق کا اقرار بھی کیا۔

انھیں ساحر سے عشق تھا اور انھوں نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا۔ امروز نے ان کی زندگی کے پھیکے رنگوں میں شوخ رنگ بھرنے کی کوشش کی۔انہوں نے لکھا تھا” میں نے اس زندگی میں دو بار محبت کی ہے ۔پہلی ساحر سے ‘اور دوسری امروز سے۔”امرتا نے اپنے اس دوست کی ہم سفری کو سماج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خوش دلی سے قبول کیا۔ نازک سی نظر آنے والی اس لڑکی نے اپنی زندگی اور ادب میں بڑی بڑی جنگیں نہ صرف لڑی ہیں بلکہ فتح بھی حاصل کی۔

 عورت کی زندگی کی طرح اس کے ‘سپنے’بھی گیلی مٹی کے ہوتے ہیں ،امرتا نے اسی مٹی سے اپنی شاعری /کہانیوں کے تانے بانے بُنے ۔

عورت کے دکھ کے ‘پنجر’ کو امرتا نے ادب کی صورت میں ڈھالا ۔صرف عورت ہی نہیں انسانی دکھ کی داستان کو انھوں نے لفظوں کا پیکر عطا کیا۔ وہ دکھ جو کسی رنگ، نسل کے بھید کو نہیں مانتے ۔ تقسیم ہند کے المیے کو انھوں نے شدت سے محسوس کیا ۔اس پس منظر میں انھوں نے کافی کچھ لکھا۔ ان کا ناول ‘پنجر’ اس حوالے سے کافی مشہور ہے۔اس ناول کی شہرت فلم کی وجہ سے بھی ہے۔دراصل ان کا یہ ناول تقسیم ہند کے المیے کا ایک الگ اظہار تھا اور اس سے کہیں زیادہ ایک انفرادی ردعمل۔ دکھ کوئی بھی ہو عورت پر اس کا اثر مختلف طور پر ہوتا ہے۔ اس کی ایک یادگار مثال ان کا یہی ناول ‘پنجر’ ہے۔

اسی سلسلے میں تقسیم ہند پر لکھی ان کی نظم ‘اج آکھاں وارث شاہ نوں تو قبراں وچوں بول’ادب میں کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ نظم تقسیم ہند کے فسادات میں ‘عورت ‘کی حالت زار کا بیانیہ کہی جا سکتی ہے۔نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ہندوستان میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں، ایک ایسا زخم جس کی کوئی دوا نہیں تھی، امرتا نے اسی زخم کی اٹھتی ہوئی ٹیسیں نظم کی صورت میں پیش کی ہے۔

اردو ادب سے ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اپنے پنجابی رسالے ‘ناگ منی’ میں اردو ادیبوں کی تحریروں کو بھی ترجمہ کر کے شائع کرتی تھی۔اس حوالے سے ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ سارا شگفتہ جیسی شاعرہ کو کم ازکم ہندوستان میں متعارف کرانے کا سہراانہی کے سر ہے۔وہ شاعرہ جس نے اردو شاعری میں اپنے لب و لہجے سے ایک انقلاب برپا کر دیا تھا۔ ان کی تحریروں کو امرتا نے ہی شائع کروایا تھا۔

آج سارا شگفتہ اردو ادب میں ایک بڑا نام ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ اس شاعرہ نے زندگی پر موت کو ترجیح دی تھی ۔سارا شگفتہ کے شعری مجموعے ‘آنکھیں’کے مقدمہ میں امرتا لکھتی ہیں :

یہ زمین وہ زمین نہیں تھی ۔ یہاں وہ اپنا ایک گھر تعمیر کر لیتی ، اور اسی لئے اس نے گھر کی جگہ ایک قبر تعمیر کر لی ۔لیکن کہنا چاہتی ہوں کہ سارا قبر بن سکتی ہے قبر کی خاموشی نہیں بن سکتی ۔ دل والے لوگ جب بھی قبر کے پاس جائیں گے ۔ان کے کانوں میں سارا کی آواز سنائی دے گی ۔ میں تلاوت کیلئے انسانی صحیفہ چاہتی ہوں ۔۔۔میں نہیں جانتی کہ یہ انسانی صحیفہ کب لکھا جائے گا ، پر یہ ضرور جانتی ہوں کہ اگر آج کا اتہاس خاموش ہے تو آنے والے کل کا اتہاس ضرور گواہی دے گا کہ انسانی صحیفہ لکھنے کا الہام صرف سارا کو ہوا تھا۔۔۔اتہاس گواہی دے گا کہ سارا خود اس انسانی صحیفہ کی پہلی آیت تھی۔

آج بھلے ہی امرتا ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن انھوں نے اپنا جو پتہ ہمیں بتایا ہے اس جگہ ہم ان سے کبھی بھی ،کسی بھی وقت مل سکتے ہیں :

اگر مجھے ڈھونڈنا چاہو

تو ہر ملک کے ہر شہر کی ہر گلی کا

دروازہ کھٹکھٹاﺅ ____

یہ ایک کلمہ خیر ہے ، باعث شر ہے

جہاں بھی اک آزاد روح کی جھلک دکھائی دے

سمجھنا وہ میرا گھر ہے(نظم میرا پتہ)

 احساس کو لفظوں میں ڈھالنا شاید آسان نہیں کہ احساس کو من و عن لفظوں میں ڈھالنابھی ایک آرٹ ہے ۔ ہاں میں کہہ سکتی ہوں کہ امرتا اس آرٹ کے جیتے جاگتے پیکر کا نام ہے۔ منشا یاد کے لفظوں میں کہیں تو”امرتا پریتم نے اپنی نظموں ،افسانوں ا ور ناولوں میں زندگی اور معاشرت کی سچی تصویر پیش کی ہیں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں امرتا مری نہیں ۔ اس نے صرف اپنا پتہ تبدیل کیا ہے۔”

یاسمین رشیدی (دی وائر اردو)

(مضمون نگارجواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں ۔)

Art Work by Khwaab Tanha Collective


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).