دا غلطی گنجائش نشتہ


معنی خیز انداز میں قوم کو یہ اشارے دیئے جا رہے ہیں کہ فریقین کے درمیان سیز فائر ہو چکا۔ معاملا ت فی الحال جوں کے توں چلتے رہیں گے۔ اگر ان اطلاعات میں حقیقت ہے تب بھی اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں کے درمیان اعتماد کے ٹوٹے دھاگے کو دوبارہ جوڑنا ممکن نہیں۔ تجربہ بھی یہی سکھاتا ہے کہ ہر دم الرٹ رہا جائے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ جنرل مشرف دور کے خاتمے کے بعد سول حکومتوں کو نکیل ڈالنے کا عمل جس منصوبے کے تحت شروع کیا گیا تھا اس کا حتمی نتیجہ کیا برآمد ہو گا۔ پیپلز پارٹی کے 5 سالہ دور حکومت کے دوران انہیں خوب نچایا گیا۔ تیسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف 2013ء کے عام انتخابات کے بعد واضح اکثریت لے کر اقتدار میں آئے تو صرف ایک سال کے بعد ہی دھرنے، دنگے اور اسٹیبلشمنٹ کنٹرولڈ میڈیا کے ذریعے کرپٹ اور غدار ثابت کرنے کا کھیل شروع کر دیا گیا۔ ن لیگ کی حکومت کی یقینا اپنی بھی کوتاہیاں ہوں گی مگر اب کوئی یہ کہے معیشت بہتر ہو رہی ہے مگر قرضوں کا بوجھ بہت بڑھ گیا ہے، تو اتنا ہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ سو ل حکومت کی ٹانگوں پر مسلسل چھڑیاں مار کر راہ کھوٹی کس نے کی۔

اپنے دعویٰ کے مطابق ن لیگ کی یہ حکومت تو آئی ہی اقتصادی دھماکہ کرنے کیلئے تھی۔ ا ن کا کہنا تھا کہ 1998ء میں ہم نے ایٹمی دھماکہ کرکے ملکی دفاع کو نا قابل تسخیر بنایا۔ اب ملک کو معاشی حوالے سے ایشین ٹائیگر بنائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ فری ہینڈ ملنے کے باوجود وہ اپنے دعوے پورا کرنے میں ناکام رہتے مگر یہاں تو کہانی ہی الٹ ہے۔ ابھی پیپلز پارٹی اقتدار میں ہی تھی کہ 2011ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو نئی ق لیگ بنائی جائے گی اس کو دھرنے، دنگوں کی اضافی خصوصیات سے بھی نوازا جائے گا۔ اگر چہ کنگز پارٹی کو 2013ء کے عام انتخابات میں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی مگر سول ڈھانچے کے خلاف جو طوفان اٹھانا مقصود تھا وہ بخوبی برپا کیا گیا۔ 2014ء کے دھرنے اس ملک کے نام پر ہمیشہ کے لیے سیاہ دھبے کے طور پرثبت ہو چکے ہیں۔ ایک بنانا سٹیٹ کا منظر تھا۔ یوں تو ا س کے کئی مقاصد تھے مگر واحد اہم ترین ٹارگٹ سی پیک پر چینی حکام کو بدظن کر کے بھگانا تھا۔ ان دنوں یہ سن کر قوم سکتے میں آ گئی کہ اربوں ڈالر پر معاہدے کیلئے پہلے سے طے شدہ دورہ اسلام آباد پر آنے والے چینی صدر کی آمد رک گئی۔ دورہ منسوخ ہونا کس کی کامیابی تھی، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ صرف بھارت اور ایک خلیجی ریاست کو مورد الزام ٹھہرانا احمقانہ بات ہے۔ سارا عمل امریکہ کے لیے ناقابل قبول تھا۔ واشنگٹن میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود آج بھی وہی پالیسی جاری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کا اس بات پر شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے سارے پردے خود ہی اٹھا دیئے۔ نہ صرف سی پیک کی علانیہ مخالفت کردی بلکہ یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ سڑک پاکستان کے جن علاقوں سے گزرتی ہے وہ بھی متنازعہ ہیں۔

تحریک انصاف کے اپنے صحافتی وظیفہ خوار ایک سے زائد مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ 2014ء میں اپنے صدر کا دورہ یقینی بنانے کیلئے چینی سفیر عمران خان کو ملنے بنی گالہ گئے تو ہتک آمیز رویہ کا سامنا کرنا پڑا۔ چینی سفیر سادہ لوح تھے نہ ہی زمینی حقائق سے لا علم، وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ مہروں کی چالیں کون طے کر رہا ہے، انہوں نے محض اپنی سفارتی ذمہ داریاں پوری کیں۔ یوں کہہ لیں کہ اتمام حجت کیا۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اور انقلابی منصوبے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ نواز پارٹیوں اور گروپوں اور میڈیا کے ایک حصہ نے جو کردار ادا کیا اس کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ قرضے بڑھ رہے ہیں تو کیا جواب دیا جائے۔ ہمارے ہاں ہر فن مولا بننے کی علت عام ہو چکی ورنہ مجموعی قرضے کا حجم ٹوٹل جی ڈی پی کے 61 فیصد ہونا قطعی غیر معمولی نہیں۔ یہ پانامہ کہاں سے آیا تھا۔ اگر آ ہی گیا تھا تو پھر وزیر اعظم کی فراغت اقامہ پر ہی کیوں کرنا تھی۔ قوم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ جے آئی ٹی کیسے بنی، پھر عدلیہ میں مقدمات کس انداز میں چلائے گئے۔ اب اس حکومت سے معاشی محاذ پر غیر معمولی پیش رفت کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی کے ہاتھ پاﺅں باندھ کر اسے دریا میں ڈال کر تیرنے کی فرمائش کی جائے۔ ملک میں جس طرح کے حالات ہیں ہر شعبے کا حساب اسی کو مدنظر رکھ کر مانگا جائے۔

حساب مانگنے سے یاد آیا کہ کیا ملک میں احتساب صرف ایک ہی خاندان کا ہونا تھا؟ سیاستدانوں ہی نہیں حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں سمیت اپنے اپنے اداروں میں اہم مقام رکھنے والی کئی شخصیات کی بیرون ملک بے تحاشا جائیدادیں اور اکاﺅنٹس ہیں۔ سو فیصد یقین سے کہا جا سکتا ہے ان میں سے 99 فیصد صحیح کیا جھوٹی منی ٹریل دینے کے بھی قابل نہیں۔ وہ دھر لیے جائیں تو ان کے پاس دینے کیلئے کوئی جواب نہیں ہوگا۔ وہ خاموشی کی زبان سے ہی اپنا حال بیان کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس کی تو نوبت نہیں آنے والی، دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں جاری ہیجان خیز تماشے کا انجام کیا ہوگا۔ کیا مارشل لاء لگے گا؟ یہ ناممکنات میں سے نہیں پھر بھی ممکن نہیں۔

حالانکہ افغان صورتحال کے تناظر میں امریکہ پاکستان میں مارشل لاء کی منظوری دینے میں ذرہ برابر تامل نہیں کرے گا۔ مارشل لاء نہ لگنے کی واحد وجہ یہ ہو گی کہ ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا قومی حکومت جس کا تذکرہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خود ساختہ ترجمان کر رہے ہیں بنائی جائے گی۔  3 سال کیلئے ٹیکنو کریٹس کا سیٹ اپ، اس کو بھی مکمل امریکی آشیر باد حاصل ہوگی۔ یہ بھی ایک طرح کا مارشل لاء ہی ہو گا۔ فرق صر ف یہ ہے کہ فیس پر کچھ بیرون ملک سے درآمد کردہ اور کچھ ہمارے اپنے ”بابو“ ہوں گے۔ مارشل لاءکی طرح یہ تجربہ بھی پہلے ہو چکا بلکہ بری طرح سے پٹ چکا۔ مزید خطرہ یہ ہے کہ ایسا مجوزہ غیر آئینی اقدام سپریم کورٹ سے جائز ہونے کی سند پا بھی گیا تو احتجاج کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ جنگ سڑکوں پر ہی نہیں انصاف کے ایوانوں کے اندر بھی لڑی جائے گی۔ یہ بات یقینی ہے کہ غیر آئینی اقدامات کرنے کیلئے ہلا شیری دینے والے غیر ملکی عناصر ایسے ہر موقع پر آنکھیں بدل لیں گے، کیونکہ ان کو پاکستان میں عد م استحکام اس حوالے سے بھی سوٹ کرے گا کہ ڈائریکٹ مارشل لاء یا پھر اس کی دوسری صورت ٹیکنو کریٹس کی حکومت میں ملک کے اندر ہی بعض حلقوں کو مضبوط کرکے دباﺅ رکھا جائے۔ ایک اور آپشن نئے الیکشن کی ہے۔ بالکل نامناسب بات ہو گی۔ اگر اس حکومت کو مدت پوری کرنے بالخصوص سینیٹ الیکشن سے پہلے فارغ کیا گیا تو یہ شب خون ہی گردانا جائے گا۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد حکومت اپنی اتھارٹی کھو چکی تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگلے الیکشن کے فوری بعد نیا وزیراعظم سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل نہیں ہوگا۔ اور اگر ہو گیا تو کیا پھر ایک اور نئے عام انتخابات کرائے جائیں گے۔

ان سطور کے تحریر کیے جانے تک لگ رہا ہے کہ حکومت کو جلد گھر بھجوانے کی خواہش رکھنے والے خود مخمصے کا شکار ہیں۔ ریٹائرڈ جرنیلوں کی شعلہ بیانیاں اور شیخ رشید جیسوں کے بین سے آشکار ہو رہا ہے کہ من کی مراد آسانی سے بر نہیں آنے والی، سول حکومت اب بھی کافی مضبوطی سے قدم جمائے ہوئے ہے۔ شیخ رشید نے روایتی رنگ بازی کرتے ہوئے ہانگ کانگ جا کر قطر میں ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تو فوراً بے نقاب ہو گیا۔ یہاں تک پتہ چلا لیا گیا کہ شیخ رشید نے ہانگ کانگ میں میک اپ کا کونسا سامان کتنے میں خریدا، کس ہوٹل کے کس کمرے میں قیام کیا۔ کھانے میں کیا کھایا اور بل کس نے ادا کیا؟ یہ صورت حال شیخ رشید کے ان سر پرستوں کے لیے بھی پریشان کن ہے جنہوں نے اسے اسلام آباد میں ہی ایل این جی معاملے پر بعض کاغذ دے کر عدالتوں سے رجوع کرنے اور میڈیا پر رنگ بازی کرنے کی ڈیوٹی ”سونپی“ ہے۔ شیخ رشید، قادری، عمران اور ایک آدھ مسلکی گروہ ایک بار پھر خانہ جنگی وغیرہ کی دھمکیاں دے رہے ہیں، اس کا حکومتی سطح پر زیادہ نوٹس لیا جا رہا ہے۔ دھمکیوں کا پرانا خوف شاید باقی نہ رہا، بعض اوقات تو لگتا ہے کہ ڈرانے والے خود تنگ پڑ رہے ہیں کہ اب آگے کیا کریں۔

اگر عام انتخابات 2018ءمیں بروقت کرائے گئے تو شفاف ہونے کی گارنٹی کون دے گا؟ این اے 120 کے الیکشن میں پیش آنے والے واقعات کے بعد یہ پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کیا ہوگا؟ایک بات طے ہے کہ جو اردو، انگریزی اور پنجابی میں کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے کہ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، اگر کسی کو پشتو میں سمجھنا ہے توعرض ہے کہ ” دا غلطی گنجائش نشتہ“۔ نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز جب انعام جیتنے کے قریب کسی شخص کو یہ بتاتے تھے تو اس کے چہرے پر سنجیدگی طاری ہو جاتی تھی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بڑے کس حد تک سنجیدہ ہیں؟ اس گھٹن والے سیاسی ماحول میں دینی اور آئینی لحاظ سے طے شدہ غیر مسلم اقلیت قادیانیوں کے معاملے پر افسوسناک بیان بازی ہوئی۔ پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کے منظور کردہ بل میں تصیح تو کر لی گئی مگر یہ معلوم نہ ہوسکا حلف نامہ فارم میں تبدیلی غلطی تھی یا سازش۔ حکومت دباﺅ میں تھی کہ فوجی ترجمان نے اپنی پریس بریفنگ میں” فوج ناموس رسالت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی“کا بیان دے دیا۔ فوجی ترجمان کے اس بیان کے بعد قومی اسمبلی میں کیپٹن صفدر نے دھواں دھار تقریر کر کے مختلف اداروں میں بیٹھے قادیانیوں کو بھی ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔ کیپٹن صفدر کی تقریر سے حکومت کے مخالفین کو شدید تکلیف ہوئی تو پارٹی کے اندر بھی بے چینی پھیل گئی، ذاتی رائے قرار دیا گیا۔ اس کے بعد رانا ثناءاللہ نے ایک انتہائی اہم احمقانہ توجیہہ پیش کی جس سے تشویش کی شدید لہر پیدا ہو گئی۔ بہت اچھا ہوا کہ انہوں نے اپنی غلطی کا ادراک کرتے ہوئے اگلے ہی روز پریس کانفرنس کے ذریعے وضاحت کر دی۔ ختم نبوت کے معاملے پر محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے بیان بازی کرنے والے خدا کا خوف کھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).