عدالت کو تماشانہ بنایا جائے


آج جو وقوعہ اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش آیا ہے، یقین کرلیا جائے کہ اس قسم کی حرکتوں سے نہ سیاست کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس ملک کا نظام مستحکم ہو سکتا ہے۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ عدالتوں کو تماشہ بنانے کی بجائے ، ان کا احترام کرنے کا چلن عام کیا جائے۔ پاکستان کے حوالے سے افسوسناک روش یہ ہے کہ عدالتوں کے احترام کے معاملہ کو بھی متنازعہ اور اختلافی بنایا دیا گیا ہے۔ جو معاملہ یا عمل دوسرے کی طرف سے سرزد ہونے پر اشتعال انگیز اور ناقابل قبول ٹھہرتا ہے، وہی جب خود کیا جاتا ہے تو اپنی ہی پیٹھ ٹھونک کر خود کو شاباش دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسا کہ آج کے سانحہ کے بعد مسلم لیگ (ن) کے بعض عاقبت نااندیش کررہے ہیں۔ یا بعض رہنماؤں کی طرف سے اس واقعہ سے لاتعلقی کے اظہار کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ ایک معمول کا واقعہ تھا جس میں وکیلوں کی پولیس سے جھڑپ ہوگئی۔ بعد میں احتساب عدالت کے جج کو شکایت کی گئی جنہوں نے سماعت بھی ملتوی کردی اور وقوعہ کی تحقیقات کا حکم صادر کیا۔ مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کو سمجھنا چاہئے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔عدالت کے باہر کارکنوں اور حامیوں کو جمع کرنا اور نعرے بازی کروانا اور سیکورٹی انتظامات کو خراب کرنا بظاہر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ اس قسم کی حکمت عملی سے جمہوریت کے بارے میں کوئی بھی ڈراؤنا خواب حقیقت کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ جمہوریت سے محبت کرنے والے ہر شخص کو اس طرز عمل کو مسترد کرنا ہوگا۔

جوڈیشل کمپلیکس میں آج جس وقت مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور ہمدرد وکیل سیکورٹی پر مامور پولیس افسروں سے گتھم گتھا تھے اور ان پر حملے کررہے تھے، عین اس وقت وزیر مملکت برائے داخلہ امور بلال چوہدری بھی وہاں اس سانحہ کا تماشہ کررہے تھے۔ لیکن دس روز قبل رینجرز کی موجودگی پر تلملانے والے وفاقی وزیر نے آج پولیس افسروں پر حملہ کرنے والے اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں یا وکیلوں کو روکنے ، سمجھانے یا متنبہ کرنے یا پولیس کی اخلاقی حمایت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جمہوریت کے تقدس اور احترام یا ریاست کی رٹ کے حوالے سے جس قدر کسی باقاعدہ حکم کے بغیر 2 اکتوبر کو عدالتی احاطہ میں رینجرز کی تعیناتی مہلک تھی ، آج کے سانحہ میں نواز لیگ کے جیالوں کا تشدد بھی اسی قدر افسوسناک اور جمہوری نظام کے لئے زہر قاتل کے مترادف تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے اور اسی کے ہمدرد اپنی ہی پارٹی کی حکومت کے ماتحت کام کرنے والی پولیس فورس کے افسروں کے ساتھ زیادتی کررہے تھے اور وزیر مملکت تماشائی بنے ہوئے تھے۔ یہ رویہ اس شبہ اور تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ آج عدالت میں ہنگامہ حکومت کی مرضی و منشاسے کروایا گیا تھا تاکہ نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر فرد جرم عائد نہ کی جاسکے۔

احتساب عدالت کے باہر آج ہونے والے سانحہ پر مسلم لیگ (ن) اور حکومت پر کڑی نکتہ چینی کرنے والے کوئی اور نہیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں جن کے خلاف کل ہی پاکستان الیکشن کمیشن نے بار بار طلب کرنے کے باوجود حاضر نہ ہونے پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں۔ عمران خان نہ الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے ہیں اور مہ ابھی تک حکومت انہیں حسب حکم گرفتار کرنے کا حوصلہ کرپائی ہے۔ عمران خان کے ساتھی ٹی وی ٹاک شوز میں بڑے اعتماد کے ساتھ یہ فرمارہے ہیں کہ کوئی ملزم خود کو پولیس کے حوالے نہیں کرتا۔ پولیس یعنی حکومت میں دم ہے تو گرفتار کرلے۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان کہاں رہتے ہیں۔ یہ وہی عمران خان ہیں جو دس برس قبل پرویز مشرف کی حکومت میں گرفتاری سے بچنے کے لئے کئی ہفتے تک رو پوش رہے تھے اور پولیس سے بچ کر خفیہ طور سے صحافیوں سے ملنے کی سعی کرتے رہے تھے۔ ایسی ہی ایک کوشش میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ نے ان پر تشدد کیا تھا۔ عمران خان ملک میں قانون کی بالادستی کے دعویدار ہیں ۔ انہیں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ وہ قانون کا احترام نہیں کرتے ۔ آج کے واقعہ پر بھی ان کے متعدد ٹویٹ پیغامات میں اسی بنیاد پر نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ تاہم وہ اس بات کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے کہ جب وہ خود عدالتوں اور قانون کا احترام نہیں کرتے تو دوسروں سے اس کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ کردار کا یہ تضاد پاکستانی سیاست کی پہچان بن چکا ہے ۔ نیا پاکستان بنانے کے دعوے دار بھی اسی پہچان کا حصہ ہیں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ مسلم لیگ(ن) یا نواز شریف آج احتساب `عدالت میں پیش آنے والے سانحہ جیسے واقعات سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مقصد تو یہ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف چونکہ آج عدالت میں حاضر ہونے کے لئے لندن سے واپس نہیں پہنچ سکے تھے ، اس لئے اس ہنگامہ کے نتیجہ میں عدالت کے جج کارروائی معطل کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ اس طرح نہ نواز شریف اور ان کی بیٹی اور داماد کے خلاف فرد جرم عائد ہو سکی اور نہ ہی نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوسکے۔ اگر اس ہنگامے کا یہی مقصد تھا تو اس کے حصول کے لئے آج عدالت کے احاطے میں پولیس افسروں پر حملہ کروانا نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی کوتاہ نظری اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ نواز شریف اپنے خلاف عائد ہونے والے الزامات کا جواب 2018 کے انتخابات میں عوامی حمایت کے ذریعے دینے کا دعویٰ کررہے ہیں۔ لیکن جس طرح احتساب عدالت کی کارروائی کے دوران ہنگامہ آرائی کا چلن اپنایا گیا ہے اور جس طرح آج پولیس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، اس سے نواز شریف کی حمایت میں اضافہ کی بجائے اس میں کمی آئے گی۔ ان کے حامی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ وہ کیوں کر اس قسم کے ہتھکنڈوں پر اتر آنے والے لیڈر پر اعتبار کرسکتے ہیں۔

احتساب عدالت سپریم کورٹ کے حکم پر غیر معمولی سرعت سے کام کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ چھ ماہ کی مقررہ مدت کے دوران مقدمات کا فیصلہ سنایا جاسکے۔ شریف خاندان اگر بے گناہ ہے تو خود اس کے مفاد میں بھی یہی ہے کہ ان مقدمات کا جلد از جلد فیصلہ ہو تاکہ وہ عوام کے سامنے سرخرو ہو کر جا سکیں ۔ یہ بھی درست ہے کہ شریف خاندان کو ملک کے عدالتی نظام سے انصاف کی امید نہیں ہے۔ اس کا بار بار اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن اس حوالے سے دو باتیں اہم ہیں ۔ ایک یہ کہ اگر ملک کے مقبول سیاسی رہنما جن کی پارٹی مرکز کے علاوہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں برسر اقتدار ہے ، کو بھی انصاف نہیں مل سکتا تو اس ملک کے بے وسیلہ عام شہری کیسے اس عدالتی نظام سے انصاف کی امید کر سکتے ہیں۔ اور اس خرابی کا ذمہ دار حکمرانوں کے سوا اور کون ہو سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شریف خاندان نے عدالتوں پر بد اعتمادی کے اظہار کے باوجود خود ہی ان کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ احتساب عدالت کے سامنے پیش نہ ہو نے کے لئے یا تو مستقل ملک سے باہر ٹھکانہ کرسکتے تھے یا گرفتاری دے کر جیل جا سکتے تھے۔ جالاوطنی کی صورت میں وہ ملکی سیاست سے باہر ہوجاتے اور گرفتاری دے کر عوام کی ہمدردی حاصل کرلیتے۔ نواز شریف نہ ملک کی سیاست کو چھوڑنا چاہتے ہیں اور نہ گرفتار ہو کر اپنے قد میں اضافہ کرنے کا حوصلہ کرپائے ہیں۔ اس کے برعکس عدالتوں کو عاجز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح وہ بظاہر عدالتی نظام پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے بھی اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے اس سے بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ اس سے نہ تو ان کا بھلا ہو گا اور نہ ملک کے نظام کو کوئی فائدہ ہوگا۔ بلکہ ایسا ہر واقعہ ملک میں جمہوری تسلسل کے بارے میں نئے سوالات کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔

یہ بات ناقابل فہم بھی ہے اور ناقابل قبول بھی ہونی چاہئے کہ ہر عدالتی سماعت پر کئی وزیر شریف خاندان کے ہمراہ عدالت میں ان کے ساتھ جاتے ہیں اور جاتے ہوئے اور عدالت سے نکل کر میڈیا کے سامنے میلہ لگایا جاتا ہے۔ ملک کا عدالتی نظام ناکام ہونے کی ایک وجہ حکمرانوں کا یہ رویہ بھی ہے۔ حالانکہ ایک طرف الزام عائد ہونے کے بعد انہیں کوئی ہنگامہ کھڑا کئے بغیر عدالتی عمل کا حصہ بننا چاہئے اور اگر اس دوران نظام میں کوئی کمی محسوس ہوتی ہے تو اس کی اصلاح کے لئے قومی اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ان کمزوریوں کی اصلاح کا بند و بست کیا جائے۔ تاکہ ملک کی عدالتیں صرف حکمران طبقے کو ہی سہولت فراہم نہ کریں بلکہ ایسا نظام استوار ہو سکے جو سب کے ساتھ مساوی سلوک کا ضامن ہو ۔ اور کسی شہری کو بھی اپنے ساتھ زیادتی کی شکایت نہ ہو۔ کجا خود حکمران ہی سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ اور عدالت کی بجائے میڈیا اور جلسے جلوسوں میں مقدمہ لڑکر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ لیکن وہ اس طرح جو مفاد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، شاید وہ حاصل نہ کیا جاسکے۔

مسلم لیگ (ن) کے کارکن اگر آج کے ہنگامہ میں ملوث نہیں تھے اور اگر حکومت درپردہ اس سانحہ کی اعانت نہیں کررہی تھی تو نواز شریف کو خود اس کا نوٹس لیتے ہوئے یہ اعلان کرنا چاہئے کہ جن لوگوں نے آج عدالتی وقار کو خاک میں ملانے کی کوشش کی ہے ، ان کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اور اگر ان میں سے کوئی لوگ پارٹی کے رکن ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دوسری طرف وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی خود اس بات کو یقینی بنائیں کہ آج جو لوگ پولیس افسروں پر حملہ آور ہوئے ہیں ، انہیں گرفتار کرکے ملک کے قوانین کے مطابق سزائیں دلوائیں جائیں ۔ عدالتوں کو سیاست کا اکھاڑہ بنانے سے جمہوریت کو بچانا محال ہو گا۔ یہ رویہ ملک میں جمہوریت کا راستہ اور مستقبل کھوٹا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

احتساب عدالت کے باہر کارکنوں کے مظاہروں اور وزیروں کی فوج ظفر موج کی حاضری سے نواز شریف کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے۔ تب ہی وزیر داخلہ یہ توقع کرسکیں گے کہ اگر رینجرز ان کے حکم کے بغیر کوئی کارروائی کرتے ہیں تورینجرز کے ڈی جی اس پر معذرت کریں گے اور آئیندہ اس قسم کی حکم عدولی نہ کرنے کا وعدہ کیا جائے۔ لیکن جب حکومت خود ہی قانون شکنی کا باعث بن رہی ہو تو وہ مملکت کے دوسرے اداروں سے وفاداری اور اطاعت شعاری کی توقع کیوں کر کرسکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali