مارشل لا کوئی حل نہیں


اٹھارہ سال قبل بارہ اکتوبر کو جب جنرل پرویزمشرف نے آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود کو پاکستانی عوام پر مسلط کیا تو اقتدار پر قبضہ کرنے کی جن وجوہات کو بیان کیا گیاان میں سے ایک ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال تھی۔ قوم سے اپنے خطاب میں جنرل پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ہم ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہماری معیشت تباہ ہوچکی ہے،ہماری ساکھ ختم ہو گئی ہے، ریاستی ادارے بے بس ہوچکے ہیںاور صوبوں کے مابین جھگڑوں نے فیڈریشن کو کمزور کر دیا ہے۔ بات صرف مشرف کی ہی نہیں ہے، انیس سو اٹھاون میں جنرل ایوب خان نے بھی قوم سے اپنے خطاب میں سیاستدانوں کی کمزوریوں سے ہونے والے جن نقصانات کا ذکر کیا تھاان میں ملکی معیشت ایک اہم نکتہ تھا۔

اس پس منظر میں جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کراچی میں معیشت اور سیکورٹی کے عنوان سے منعقد کی جانے والی ایک کانفرنس میں ملکی معیشت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تواسے بہت سے لوگوں نے آنے والے مارشل لا کی نوید سمجھ لیا۔ میں بہرحال نہیں سمجھتا کہ افواج پاکستان آنے والے دنوں میں مارشل لا جیسا کوئی انتہائی قدم کرنے والی ہے۔اس کی بہت سے وجوہات ہیں، سب سے بڑی وجہ ہمارے بگڑے ہوئے خارجی معا ملات ہیں۔پچھلے چند سالوں میں مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان مخالف بیانیے کو جو تقویت حاصل ہوئی ہے اس کے ہوتے ہوئے ملک میں سیاسی عمل کو ختم کرنے کی کوشش پاکستان کو بین الاقوامی طور پر مزید تنہا کر دے گی۔ موجودہ دور میں ویسے ہی عالمی سطح پر فوجی بغاوتوں یا فوجی حکومتوں کی کوئی خاص پذیرائی نہیں کی جاتی،آپ برما کی مثال ہی لے لیں،کئی دہائیوں تک اقتدار پر قابض رہنے والی فوجی جنتا آخر کار سیاستدانوں کے رول کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو ہی گئی۔

اگرچہ آج بھی وہاں اصل اختیارات فوج کے پاس ہی ہیں لیکن دنیا کو دکھانے کو ہی سہی ایک جمہوریت بہرحال موجود ہے۔ البتہ یہ بات وہاں بھی زیر بحث ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی حکومت ، اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہے وہ جمہوریت کی روح سے متصادم ہے۔

اسی طرح پاکستان میں بھی ہمیشہ سے ہی افواج پاکستان کا ایک اہم کردار رہا ہے،چار مرتبہ اقتدار پر قبضے کے دوران ہی نہیں بلکہ بعد کے جمہوری ادوار میں بھی وہ بہت سے معاملات پر نہ صرف اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتی رہی ہیںبلکہ فیصلہ سازی کے مرحلے میں بھی شراکت دار رہی ہیں۔ چاہے وہ خارجہ پالیسی ہو یا پھر دفاعی پالیسی، ملکی سا لمیت سے متعلق فیصلوں میں ہمیشہ افواج پاکستان نے جمہوری حکومتوں کو نہ صرف اپنی رائے سے آگاہ کیا بلکہ بہت سے مواقع پر سویلین حکومت سے اپنی بات منوائی بھی۔ چاہے وہ کارگل سے افواج کی واپسی کے سلسلے میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کوواشنگٹن جا کر صدر کلنٹن سے ملاقات کرنے پر مجبور کرنا ہو یا پھربے نظیربھٹو کے پہلے دور حکومت میں اپنی مرضی کا وزیر خارجہ لگوانا،دراصل پاکستان میں جمہوری ادوار میں بھی Hybrid قسم کی جمہوریت ہی رہی ہے، جس میں کچھ فیصلے کرنے کا اختیار ہمیشہ منتخب حکومت کی بجائے فوج کے پاس رہا ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے موجودہ حالات میں فوج کیونکر اقتدار پر قابض ہو گی میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں۔

اگر مسئلہ معیشت کا ہے تو کیا ملک میں مارشل لا نافذ ہونے سے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے؟ کیا ملک میں جمہوری عمل ڈی ریل ہونے کے بعد عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو دیئے گئے قرضے معاف کر دیں گے؟ یا پھر کئی ارب پر مشتمل کرنٹ اکائونٹ خسارہ جمہوری حکومت کے روانہ ہوتے ہی کم ہو جائے گا؟ کیا یورپی یونین اور دیگر ممالک جہاں پاکستانی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں مارشل لاکی خبر سن کر پاکستانی کمپنیوں کو مزید آرڈر دے دیں گے؟ جنرل قمرجاوید باجوہ نے جن معاشی کمزوریوں کا حوالہ دیا ، جنرل پرویز مشرف نے بھی بارہ اکتوبر کو کم و بیش انہی کو بنیاد بنا کر ملک کا اقتدار سنبھالا تھا۔ کیا جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ان مسائل کو ختم کر لیا گیا؟ ہمارے معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے کسی نئے آمر کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ٹیکس بیس کو بڑھانے اور معاشی صورتحال میں بہتری لانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل جیسے سفید ہاتھیوں کے مستقبل، پاور سیکٹر میں موجود گردشی قرضوں کے حجم، گرتی ہوئی برآمدات ، معاشی ترقی میں پسماندہ علاقوں کا حصہ، یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کے بارے میں فیصلہ سازی کرنے کیلئے کسی مارشل لا کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مسائل ہمارے نظام میں موجود خرابیوں کی بدولت کھڑے ہوئے ہیںاور بے شک اب اس سسٹم کی درستی کیلئے بنیادی تبد یلیوں کی ضرورت ہے لیکن کیا یہ تبدیلیاں صرف مارشل لاہی کی بدولت لائی جا سکتی ہیں؟

انیس سو ننانوے میں جب جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا توانہوں نے اپنی حکومت کو جو سات نکاتی ٹارگٹ دیااس میںمعیشت کی بحالی اورسرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کرنابھی شامل تھے۔ تاہم ننانوے سے لے کر دو ہزار ایک تک کے عرصے میں ان کی حکومت اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے میںکوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ صورتحال اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ اگر نائن الیون کا واقعہ نہ ہوتاجس کے بعد نہ صرف تارکین وطن کا پیسہ بلکہ غیر ملکی امداد کی صورت میں بھی اربوں ڈالر پاکستان کی معیشت میں شامل ہوئے تو شاید پاکستان دیوالیہ پن کا شکار ہو جاتا۔ اسی طرح مشرف نے Across the Board احتساب کا بھی نعرہ لگایا اور اس ضمن میں نیب نام کا ایک ادارہ تشکیل دیا گیا ۔ جس کا مقصد ملک سے کرپشن کا خاتمہ تھا لیکن پھر یہی نیب سیاسی وفاداریاں خریدنے کیلئے استعمال ہوا۔ جن افراد پر اربوںکی کرپشن کے الزامات تھے وہ نیب کی لانڈری سے دھل کر وزارتوں کے حق دار قرار پائے۔

یعنی مارشل لا کے ہوتے ہوئے بھی کرپشن پر کنٹرول نہ کیا جا سکا، ستم ظریفی تو یہ تھی کہ نیب کی سربراہی کیلئے لگائے گئے صاحبان میں سے کچھ نے تو کرپشن ختم کرتے کرتے خود ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لئے۔ اس لئے اگرچہ ہمارے ملک میں بہت سے گمبھیر مسائل موجود ہیں جن کا حل ناگزیر ہے لیکن تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ان مسائل کا حل مارشل لا میں ہوتا تو تیس سے زائد سال فوجی حکومتوںکے ادوار میں گزارنے کے بعد آج پاکستان ان حالات کا شکار نہ ہوتا، یہاں نظام مضبوط ہوتا اور کرپشن کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔

کالے دھن کے خلاف جنگ ضروری ہے، اس سے فائدہ اٹھانے والوں کو قومی مجرم گردانتے ہوئے سخت سزا دینے کیلئے قانون سازی کا عمل جو معطل ہے ، از سر نو شروع کر کے مکمل کرنا ہو گا۔ موجودہ نیب قوانین ناکام ہو چکے ہیں، اگر ایک دو روز میں کسی فرد کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کیلئے قانون بنانا ممکن ہے تو قوم کو لٹیروں سے بچانے کیلئے عوامی نمائندوں کو کس نے روک رکھا ہے؟ کیا مارشل لاکا خوف راستے کی رکاوٹ ہے؟نیب ریفرنسز کے مقدمات چلانے میں عدالت کے اندر اور اسکے باہر جو کچھ ہو رہا ہے وہ کس کیلئے اچھا ہے اور کس کیلئے برا اس کا فیصلہ آنے والا کل کرے گا ۔ لیکن مقدمات میں ملوث ملزمان جس طریقے سے پیش ہو رہے ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی عدالتوں میں آمد پر جو ” ہٹو ، بچو ” کا ماحول ہے اور جس طریقے سے سرکاری سیکورٹی فراہم کی جا رہی ہے وہ اس ملک میں اشرافیہ کے کردار کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم دیتی ہے۔ ان مقدمات میں ریاست پراسیکیوٹر ہے یا ڈیفنڈر ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افتخار احمد

بشکریہ روز نامہ جنگ

iftikhar-ahmad has 17 posts and counting.See all posts by iftikhar-ahmad