ہے جذبہ جنون… اور کوچ وقار


\"jamilپاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچ وقار یونس کا بی بی سی پر بیان ہمیں مخمصے میں مبتلا کر گیا۔ کہتے ہیں \”جذبے سے کھیلنے کی ضرورت ہے۔ \”چلئے ہماری کم فہمی تو مسلمہ لیکن باوجود اس کے سوال ہنوز قائم ہے۔ یہ جذبے سے کیسے کھیلا جاتا ہے؟ ہمارے پیارے کوچ اس راز کو فاش فرما ہی دیں۔ اس موقعے پر ایک اور سوال بھی یاد آگیا۔ اکثر انٹرویوز میں سننے کو ملتا ہے جیت کے لئے قوم کی دعائوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں دعائوں سے قطعی انکار مقصود نہیں لیکن بھئی آپ کو پورے ملک سےچن کر قومی نمائندہ کے طور پر دنیا میں کھیلنے کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔ تو میاں جی آپ کو منتخب کرنے کی بنیاد اچھا کھیل ٹھہرا۔ جیت تب ہوگی جب آپ عالمی لیول پر اپنی کارکردگی کا سب سے بہتر مظاہرہ کریں گے۔ اگر صرف دعا سے قوم نے جیت کا سوچ رکھا ہوتا تو وہ آپ کے بجائے وہ دعاگو افراد کی ٹیم روانہ کرنے کی سعی کرتے۔

کوچ وقار کے فرمان نے ہماری پرانی یاد بھی تازہ کردی۔ ہماری عمر عزیز کے کئی سال تو جنون کے اس نغمے پر جھومتے اور عمل کرتے گذرےکہ \”ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار\” اور ہم ہر میچ ہار جاتے۔ جذبہ بھی صادق تھا اور اسی طرح قائم بھی۔ مگر حصے میں ہار ہی آتی۔ پھر ایک کرکٹ کی خبر رکھنے والے مہربان سے دعا سلام ہوئی اور اس نے غلطیوں کی نشاندہی کی اور بہتر طور پر کھیلنے کا سلیقہ سکھایا۔ تب ہم سمجھ پائے کہ جذبے سے زیادہ تیکنک اور سوچ ضروری ہے۔ تو عرض ہے کہ بھئی ٹھیک ہے جذبہ جنون سے ہمت کو سلامت رکھنا ہے۔ مگر اس سے آگے کیا؟ کیا جذبہ اور جنون اسی ہار کے لئے ساتھ رکھنا ہے؟ اگر ایسی بات ہے تو چند جنونی اور کچھ جذب والے صاحب حال ٹیم میں شامل کردیے جائیں۔ یا کرکٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کی بجائے بھنگ گھوٹتا ملنگ کوچ بنا دیا جائے جو ٹیم کے سب اراکین کو ہر وقت جذب و مستی سے سرشار رکھے۔

چلئے آپ ناراض نہ ہوں کہ ہم کیااول فول بکے جا رہے ہیں۔ ذرا ڈھنگ کی بات کرتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہےکوچ صاحب نے بچپن میں پڑھی جانے والی چیونٹی کی وہ کہانی یاد رکھی ہوئی ہے جس میں اس چیونٹی کا ذکر خیر ہے کہ چڑھنے میں مسلسل ناکامی کے باوجود اس نے اوپر چڑھنے کا جذبہ نہیں چھوڑا اور سترہویں بارکامیابی کو گلے لگا لیا۔ وہ بھی کھلاڑیوں کو یہی درس سکھاتے ہونگے کہ لگے رہو بھائی۔ آخر یہ جذبہ کبھی نہ کبھی تو کام دکھائے گا اور ہم جیت جائیں گے۔ کوچ صاحب آپ اسی چیونٹی والی کہانی پراس نظریے سے غور کرنے کا تکلف کیوں پسند نہیں فرماتے کہ چیونٹی نے مسلسل ناکامیوں کے بعد چڑھنے کی تیکنک میں تبدیلی کی ہوگی، دوسرا طریقہ آزمایا ہوگا، راستے پر غور کر کے اس کے اسرار و رموز کا پتا چلا کر کامیابی کی کوشش کی ہوگی۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ چیونٹی نے اس طرح نہیں کیا ہوگا تو آپ بھی نہیں کریں گے؟ یعنی گویا آپ نے طے کر رکھا ہے کہ سولہ بار ہارنے کے بعد سترہویں بار تو جیت ملنی ہی ملنی ہے۔ اگر آپ نے ایسا سوچ رکھا ہے تو پھر آپ کے اور ہمارے ٹی ٹوئنٹی والے کپتان میں سرمو فرق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments