سیکولر ازم کا مطلب ہے کہ نکاح کی کوئی ضرورت نہیں: سراج الحق


علم ریاضی کا ایک اصول ہے کہ اگر الف برابر ہے جیم کے اور جیم برابر ہے سین کے تو الف برابر ہے سین کے۔ ہم نے سین کا یہ اصول امیر الجماعت سراج الحق صاحب پر منطبق کیا تو یہ نتیجہ نکلا کہ ان کی رائے میں جماعت اسلامی ہند کے اراکین اور لیڈر شپ نکاح کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چلیں پہلے اس مساوات کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔

پس منظر اس بات کا یہ ہے کہ مانسہرہ میں صالحین کے ایک ایمان افروز اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امیر الجماعت جناب سراج الحق نے فرمایا کہ ”سیکولر ازم کا مطلب ہے کہ نکاح کی کوئی ضرورت نہیں“۔ دوسری طرف جماعت اسلامی ہند سنہ 1947 سے ہی سیکولر ازم کی پرجوش حامی ہے۔ یعنی ریاضی کے فارمولے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کیونکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان کے مطابق ”سیکولر ازم کا مطلب ہے کہ نکاح کی کوئی ضرورت نہیں“ اور جماعت اسلامی ہند سیکولر ازم کی داعی ہے، تو اس کے اکابرین و اراکین نکاح کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

ہمیں ایک سیکولر نے بتایا تھا کہ سیکولر ازم ایک ایسا سیاسی نظریہ ہے جو ریاستی معاملات میں کسی ایک مسلک و مذہب کے قوانین دوسرے مسالک و مذاہب کے ماننے والوں پر مسلط کرنے کی بجائے اتفاق رائے سے سب کے لئے قابل قبول نظام بنانے کی بات کرتا ہے۔ جبکہ سراج الحق صاحب بتا رہے ہیں کہ سیکولرازم کا تعلق شادی بیاہ کے معاملات سے ہے۔ ہم امیر جماعت سے اتفاق کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ہم نے سٹار پلس کے جو ساس بہو کے ڈرامے دیکھے ہیں ان کو دیکھ کر ہر ذی شعور شخص یہی کہے گا کہ نکاح، سیاست ہی کا دوسرا نام ہے۔

بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق جماعت کی شوری اس بات پر غور کر رہی ہے کہ اگلی عید کے بعد قربانی کی چند کھالیں بیچ کر ایک اچھِی انگریزی اردو لغت خریدی جائے گی تاکہ جماعت کے امرا انگریزی الفاظ اور اصطلاحات کا درست ترجمہ کر سکیں۔

مانسہرہ کے صحافی جناب شیر افضل گوجر نے اس جلسے کی جو روداد بھیجی ہے وہ نہایت پرلطف ہے۔ امیر جماعت نے یہ فرمایا کہ ”تعلیمی اداروں میں لارڈ میکالے کا نظام ہے، ہم آئے تو اسلامی تعلیمی نظام لائیں گے جو امیر غریب سب کے لئے ایک ہی ہو گا“۔ یعنی جدید سکولوں میں پڑھنے والے تمام معصوم بچوں کو زبردستی مدارس میں بھیج دیا جائے گا۔

سراج الحق صاحب کی ساس بہو کے ڈراموں کے علاوہ فلمی دنیا میں دلچسپی بھی اس تقریر میں دکھائی دی۔ انیل کپور کی مشہور فلم ہے ”نائیک“۔ اس میں انیل کپور ایک صحافی شیوا جی کا کردار ادا کرتے ہیں جو ایک دن میں ہی نظام بدل دیتے ہیں۔ غالباً اسی فلم کا اثر ہے کہ سراج الحق صاحب نے ایک دن کی حکومت ملتے ہی سودی نظام کے خاتمے کا یقین دلا دیا۔ ایک دن میں سود ختم کرنے والے لیڈر کو اگر نظام سقے کی طرح ڈھائی دن کی حکومت مل گئی تو نہ جانے کیا انقلاب آ جائے گا، غالباً ایک مرتبہ پھر چام کے دام چلیں گے۔ چام کے دام، یعنی چمڑے کے پیسے۔ ہمارا گمان ہے کہ جماعت کو ڈھائی دن کی حکومت مل گئی تو ملک میں چمڑے کے دام چلیں نہ چلیں، جوتا خوب چلے گا۔ غالباً فلم اور ڈرامے میں سراج الحق صاحب کی یہی دلچسپی دیکھ کر جلسے کے آخر میں فلم ”درشی“ کے پروڈیوسر تبارک احمد ٹھاکر نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔

اس موقعے پر جناب سراج الحق کو غالباً مولانا طارق جمیل کا خیال آیا جو اپنی تقریر میں معجزات کے بیان سے مجمعے کو مسحور کر دیتے ہیں۔ سراج الحق صاحب نے خوب غور کیا مگر اس وقت طبیعت میں استحضار نہیں تھا۔ بہت کوشش کے بعد خدا کا سب سے بڑا معجزہ ان کو یہی یاد آ پایا کہ ”میرا رب کتنا بڑا ہے جو کالے بھینس سے سفید دودھ نکالتا ہے“۔

جلسے میں انہوں نے بغاوت کی کال دی اور کہا کہ ”جو حکومت ختم نبوت کے قانون کی حفاظت نہیں کر سکتی اس کے خلاف بغاوت ہم سب پر فرض ہو چکی ہے“۔ خدشہ ہے کہ اگلے جمعے کو جماعتی مجاہدین منصورہ کے سامنے ٹریفک بلاک کر کے یہ فریضہ ادا کر دیں گے۔ مزید فرمایا کہ ”رانا ثناء اللہ کو فوری طور پر وزارت سے برطرف کیا جائے اور اس کو وزیر جہالت بنایا جائے“۔ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ مسلم لیگ ن اس بات پر غور کر رہی ہے۔ ایک مسلم لیگی نے سراج الحق صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پہلے خیبر پختونخوا میں یہ وزارت قائم کی جائے کیونکہ نہ صرف یہ کہ تجویز وہاں سے آئی ہے بلکہ ادھر بعض مناسب امیدوار بھی موجود ہیں۔

پاناما کے معاملے پر بھی امیر الجماعت شدید ناراض تھے۔ انہوں نے ججوں، جرنیلوں اور سیاستدانوں کی رسوائی کی ڈیمانڈ کرتے ہوئے کہا کہ ”پاناما سکینڈل میں 434 لوگوں کے نام ہیں جن میں سیاستدان، جرنیل، ججز اور تاجر شامل ہیں مگر ان میں سے سزا صرف ایک مجرم کو ہوئی ہے، میں ان تمام لوگوں کو جیلوں میں رسوا ہوتا دیکھنا چاہتا ہوں“۔

اسی جلسے میں تقریر کرتے ہوئے انور الحق صاحب نے فرمایا کہ ”پاکستان میں اسلام جماعت اسلامی کی وجہ سے محفوظ ہے۔ جماعت نہ ہوتی تو سیاستدان اسلام کا حال بھی پاکستان جیسا کر دیتے“۔ یاد رہے کہ یہ جلسہ ایم ایم اے کی بحالی کے مذاکرات کے بعد کیا گیا تھا جس میں امیر الجماعت نے اہم ترین مذہبی سیاستدانوں سے بات کی تھی۔ غالباً اس میٹنگ میں موجود مذہبی سیاستدانوں کے بارے میں ہی یہ تبصرہ کیا گیا ہو گا۔ (ختم شد)

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar