لڑکی آؤ تمھیں ہراساں کروں!


جنسی ہراسانی کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک تکلیف دہ ترین پہلو، ان لوگوں کے ہاتھوں ہراساں ہونا ہے جو کسی شعبہ ہائے زندگی میں اہم مقام پہ فائز ہوں اور اپنے مقام کو اس مذموم مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہوں۔ ان لوگوں کا رویہ اپنے شکار کے ساتھ بہت ذلت آ میز ہوتا ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ وہ ان کا رویہ سہنے پہ مجبور ہے۔

ان لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ فلاں فلاں عورت میں صلاحیت موجود ہے اور وہ اپنا مقام پانے کی دھن میں ایسی مست ہے کہ راستے کی ہر رکاوٹ کو پار کر جائے گی۔ تب یہ لوگ اپنے گندے عزائم لیے ان کی کامیابی کا خوان گندا کرنے آ جاتے ہیں۔ عورتیں اس رکاوٹ کو پار تو کر جاتی ہیں مگر اس تجربے کی کرک، عمر بھر بد مزہ کیے رکھتی ہے۔ اس کا حل اب عورتوں نے یہ نکالا کہ بجائے خود کڑھتے رہنے کے ان لوگوں کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا جائے۔

ہالی وڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائن سٹائن بھی آخر سالوں کے بعد بے نقاب ہو گئے۔ انجیلنا جولی، گویتھ پالٹرو اور جینیفر لورینس جیسی اداکارائیں بھی اپنے کیرئیر کے آ غاز میں اس ذلت سے نہ بچ پائیں۔ تازہ خبروں کے مطابق، بڑے میاں ایشوریہ رائے سے بھی تنہائی میں ملاقات کے خواہش مند تھے۔
موصوف کی تصویر دیکھی، تو ایک کے بعد دوسری نظر ڈالنے کو جی نہ چاہا۔ کہتے ہیں کہ 40 سال کے بعد انسان کی شکل اس کے اعمال کی کمائی ہوتی ہے۔ وائن سٹائن کے منہ پہ اس کا کردار آ چکا ہے۔ یہ ہالی وڈ میں پیش آنے والے پہلے واقعات نہیں۔ صرف ہالی وڈ ہی نہیں، ہندوستانی فلم انڈسٹری، پاکستانی فلم انڈسٹری اور فلم انڈسٹری ہی کیا دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی ان واقعات سے مفر ممکن نہیں۔

شاید ہی کوئی خوش نصیب ہو گی جو کامیابی کی سیڑھی چڑھتے ہوئے ان سانپوں سے بچ گئی ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک عورت اور آ دمی ایک ہی میدان میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے نکلتے ہیں تو ان کے راستے مختلف کیوں ہوتے ہیں؟ مرد، چاہے کسی معاشرے سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہو، اس کے پاس کامیابی کی ایک ہی کنجی ہے، محنت، محنت اور سخت محنت، کامیابی۔

عورت کی کلیدِ کامیابی میں لکھا ہے، محنت، راستے میں آ نے والے اعلیٰ مناصب پہ فائز عیاش مرد، ان مردوں سے بچنا، محنت، نہ بچ پائیں تو ا س بات کو راز رکھنا، محنت، محنت، محنت اور کامیابی۔
اس راستے میں کتنی ہی کم ہمت عورتیں میدان چھوڑ کر بھاگ جاتی ہیں۔ جو بچ جاتی ہیں وہ عمر بھر ایک دوسری سے نظر چراتی رہتی ہیں کیونکہ سب کو ایک دوسرے کے راستوں کا علم ہوتا ہے، ایک بار ایک پاکستانی ٹاک شو میں دو خواتین ایک دوسرے سے الجھ گئیں اور ایک دوسری پہ سیاست کو گیسٹ ہاؤسز کے بیڈ رومز میں لے جانے کا الزام لگایا۔ جانے یہ الزام سچ تھے یا جھوٹ، لیکن ایسا ہے کہ یہ الزام ان خواتین پر نہ لگے تھے، یہ تو پورے معاشرے کی تصویر تھے۔

پچھلے دنوں مجھے ایک سرکاری دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا، (یہ دفتر بھی فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کا تھا) تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جگہ جگہ دیواروں پہ خواتین کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کرنے سے متعلق بڑے بڑے چارٹ آویزاں تھے۔ خواتین کے لئے بھی حفاظتی اقدامات کا پرچہ ساتھ ہی لف تھا۔ یوں لگا، کسی جنگل میں جانوروں سے محفوظ رہنے کے قاعدے لکھے ہوں۔

جب عام معاشرے کا یہ حال ہے تو فلم انڈسٹری میں جہاں خوبصورت ترین خواتین ہی جاتی ہیں وہاں، کسی کی رال ٹپکنا اور ٹپکتے ہی چلے جانا کوئی مقامِ حیرت نہیں۔ ہاروی وائن سٹائن نے جو کیا وہ کیا کسی آدم کے جنے نے پہلی بار کیا؟ اور جو ان اداکاراؤں کے ساتھ ہوا، کیا وہ کسی حوا کی جنی کے ساتھ پہلی بار ہوا؟

یہ سب پہلی بار نہ ہوا اور نہ ہو گا۔ آئندہ بھی اس قسم کے واقعات پیش آتے رہیں گے کیونکہ یہ مرد کی سر شت ہے۔ ڈری سہمی، معصوم لڑکی کو دیکھ کر اس کے اندر کا بھیڑیا، جست بھر کے باہر آ جاتا ہے۔ یہ ہی مرد ایک کامیاب عورت کے سامنے بھیگی بلی بنا رہتا ہے۔ اس معاملے میں فرق صرف یہ ہے کہ کسی نے بھی ان عورتوں کو لعنت ملامت نہیں کی۔ یہ نہ کہا کہ اس وقت کیوں خاموش رہی کلٹا؟ اپنا الو سیدھا کرانا تھا نا؟ اب جب سب فائدے حاصل کر لیے، عمر ڈھل گئی تو عظیم بن گئیں؟ بے چارے بوڑھے کو کہیں کا نہ چھوڑا۔

ان عورتوں کی ہمت کی تعریف کی گئی اور اس بات کو سراہا گیا کہ انھوں نے بدیر ہی سہی اپنے مجرم کا چہرہ تو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ ایک بہادرانہ اقدام ہے۔ آواز اٹھانی چاہیے، جب بھی اٹھا سکیں۔ سبق سکھانا چاہیے، جب بھی سکھا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).