پارلیمان؛ وفاق کی شہ رگ ہے


12 اکتوبر 1999 کو 18 برس گزر گئے۔ ہم نے کب تصور کیا تھا کہ ہماری زندگیوں میں وہ رات آئے گی جو واقعی شب یلدا ہوگی۔ 1999 سے 2008 تک آمریت کے منحوس سائے میں ہم نے کیا نہیں کھویا؟ سب سے پہلے تو یہ اعتماد ہم سے چھن گیا کہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر منتخب ہونے والی ہماری حکومتیں زیادہ دنوں برداشت کی جاسکتی ہیں ۔ اپنی آئینی مدت پوری کرسکتی ہیں۔ آمر کتنے ہی نا اہل اور ناعاقبت اندیش ہوں وہ ہماری حکمران اشرافیہ سے متعلق لوگوں کو بے حد پیارے ہوتے ہیں۔

اکتوبر 1999 میں پاکستانیوں نے ایک بار پھر ’’میرے عزیز ہم وطنوں‘‘ کا نغمہ سنا۔ اسے سنانے والے افغانستان سے دہشت گردی کی امریکی جنگ کو پاکستان میں اس لیے گھسیٹ لائے کہ ان کے اقبال کی عمر دراز ہو ۔انھیں تو آخرکار رخصت ہونا پڑا لیکن وہ جنگ آج تک ہمارے گلے کی ہڈی ہے۔

ہمارے لاکھوں لوگ (جی ہاں لاکھوں) غیروں کی اس جنگ کی بھینٹ چڑھے، ان کے گھر ملیامیٹ ہوگئے، وہ آج بھی خانہ بدوشوں کی زندگی گزارتے ہیں، ان کے بچے اسکول کی پکی عمارت کو ترستے ہیں۔ وہ جو کل تک آمر مطلق تھے آج دبئی میں بیٹھے کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں جو انھیں ایک بار پھر راج سنگھا سن پر بٹھا دے لیکن عالم یہ ہے کہ ان کی اپنی ’پارٹی‘ کے لوگ ان کی دولت پر ’پارٹی‘ کرتے ہیں اور ان سے آنکھیں چرا کر اور منہ چھپا کر ہنستے ہیں۔

ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو یہ اعتراض ہو کہ اس وقت آمریت کی بات کرنا یا 12 اکتوبر 1999 کو یاد کرنا بے وقت کی راگنی ہے، لیکن کیا واقعی یہ بے وقت کی راگنی ہے؟ ان دنوں 12 اکتوبر 2014 کی میری ایک تحریر فیس بک پر گردش کررہی ہے۔ آج سے 3 برس پہلے اس تحریر میں بھی دل کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ جانے کب کیا ہوجائے۔ اس تحریر میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان ہونے والی کشمکش کا جائزہ لیا گیا تھا۔ میں نے لکھا تھا:

’’اس وقت مجھے 12اکتوبر 1999 کی وہ شب یاد آرہی تھی جس کا ابھی آغاز ہو رہا تھا۔ ہمارے گھر میں خوشی کی ایک محفل شروع ہونے والی تھی‘ اچانک کسی نے تیز آواز میں مجھے مخاطب کیا ’ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے اسلام آباد میں کیا ہورہا ہے؟‘ میرا دل ڈوب گیا اور پھر چند ہی لمحوں میں یہ بات سب پر آشکار تھی کہ ہمارے یہاں ایک نئی شبِِ غم کا آغاز ہوگیا ہے۔ مجھ ایسے اُمید پرست جنھیں یقین تھا کہ اب کبھی آمریت ہمارے گلی کوچوں میں پھیرا نہیں ڈالے گی‘ ہم جیسوں کی خوش فہمیاں دھری رہ گئی تھیں اور ہماری خوش امیدیوں کو ایک بار پھر آمریت کا پالا مار گیا تھا۔

1999 سے 2008 کے دوران آمریت اور مطلق العنانیت نے ہمیں کیسے زخم نہیں دیے۔ہم نے ایک جمہوری دور میں اپنے سنبھلتے ہوئے سماج کو ایک بار پھر زوال آمادہ دیکھا ۔ ہم نے دیکھا کہ سیاست اور سیاست دانوں پر دشنام اور اتہام کی کالک کیسے ملی جاتی ہے۔ ایک منتخب وزیر اعظم کی ذلت اور توہین دیکھی‘ اس پر غداری کے مقدمے کا ناٹک اور اس کی جلا وطنی کا تماشہ دیکھا۔

1999 سے 2008 کے دوران ہم نے دو سیاسی حریفوں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان ہونے والا میثاق جمہوریت کا عہد نامہ پڑھا۔ نواز شریف کی وطن واپسی اور پھر انھیں گھسیٹ کر واپس بھیجے جانے کے شرمناک مناظر دیکھے جب کہ وطن واپسی کی اجازت عدالت عالیہ نے انھیں دی تھی۔ این آر او سے اختلاف رکھنے کے باوجود اسے اس لیے برداشت کیا کہ شاید محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا بس یہی راستہ رہا تھا۔ پھر بی بی کی واپسی کے بعد ان کی شہادت کا صدمہ سہا۔

12 اکتوبر 2014 کو یہ 15پندرہ برس بہت یاد آئے۔ اس دوران جمہوریت کی بحالی اور اس کے استحکام کے لیے جہاں ان گنت لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا۔ میں بھی اپنے لفظوں سے اس طویل جدو جہد میں شامل رہی۔

اکتوبر 2014 سے پہلے کوششیں ہوئیں کہ جمہوریت کو پٹری سے اتار دیا جائے لیکن اس میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس کے باوجود گزشتہ برسوں میں ہم جس طرح انتہا پسندی اور دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلے گئے اس بارے میں 30 دسمبر 2013 کو میں نے اپنا نقطۂ نظر کچھ یوں بیان کیا تھا ’’ہم پریہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘۔

ہم نے خود کو مسلم امہ کا محافظ اور رہنما فرض کرلیا ہے اور اس ’درد جگر‘ نے ہمیں تباہ وبرباد کردیا۔ ابھی کچھ برسوں پہلے کی بات ہے کہ ہم لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔ پھر ہم سوویت یونین سے کفر کا نظام ختم کرنے کے مشن پر کمر بستہ ہوگئے۔ طالبان کو افغانستان میں برسر اقتدار لانا ہمارا مقصد ہوگیا۔ اسی حوالے سے ہمیں انتہا پسند عالمی تنظیموں اور ان کے رہنماؤں کی میزبانی کا شوق ہوا۔ غرض ہمارے منصوبہ سازوں کی نظر چاروں طرف تھی۔لیکن انھوں نے اپنے کروڑوں عوام کی حالت زار پر ذرا بھی غورنہیں کیا۔

اللہ اللہ۔ ہم دنیا کو راہ راست دکھانے کے مشن پر تھے اور اپنے گھر کی طرف نگاہ بھر کر نہ دیکھا کہ ایک خوشحال اور شاندار قوت نمو رکھنے والا ملک کس تیزی سے انتشار اور خلفشار کا شکار ہورہا ہے۔ ہمیں جنگیں لڑنے کا شوق ہمیشہ سے رہا۔ 65 برس کی مدت میں 4 چھوٹی بڑی جنگیں، جبر الٹر اور کارگل ایڈونچر۔ دہشت گردی کے عفریت کو ہم سرخوشی کے عالم میں اپنی سرحدوں کے اندر کھینچ لائے۔ گزشتہ برسوں کے دوران چالیس سے پچاس ہزار شہریوں اور فوجیوں کی شہادتیں، ان گنت بستیوں کی تباہی، لاکھوں لوگوں کی اپنے گھروں اور اپنے ذریعۂ روزگار سے محرومی اور ملکی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہمارامقدرہوا۔‘‘

جمہوریت پسند پاکستانیوں سے زیادہ کون اس بات پر خوش ہوگا کہ 2008 میں پیپلز پارٹی کی جو منتخب حکومت برسر اقتدار آئی اس نے خدا خدا کرکے اپنی مدت پوری کی اور 2013میں دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔ہمارے لیے یہ ایک تاریخی واقعہ تھا‘ لیکن ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس جمہوری دور کا بستر لپٹنے کے لیے ایک ایسا ناٹک رچایا گیا جس کو چند مقتدر حلقوں کی آشیرباد حاصل تھی۔2014 سے احتساب اور انصاف کے نام پر جو ہوا اور ہورہا ہے، اس نے ہر جمہوریت دوست کو ہراساں کردیا ہے۔

مختلف حلقوں کی طرف سے سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ ’’میرے عزیز ہم وطنوں‘‘ کا راگ سننے میں گھنٹہ گھڑی کی دیر رہ گئی ہے۔ کچھ دبنگ اور سرہنگ سیاستدان جو نہ صرف عقل کل ہیں بلکہ ایک ایسی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں جس پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ ’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘۔ وہ نقارے پر چوٹ مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملک کو تمام خطرات سے بجانے کے لیے وردی پوش کو آنا ہی ہوگا۔

آخر دال میں کچھ تو کالا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کو یہ کہنا پڑا کہ ملک میں جمہوریت فلم کے انٹرول کی طرح آتی ہے۔ پارلیمان وفاق کی شہ رگ ہے جو ہر 10 برس بعد کاٹ دی جاتی ہے اور پھر اشرافیہ کی فلم چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی وفاق کانپ رہا ہے۔ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ نہ اداروں کو مضبوط ہونے دیا گیا اور نہ آئین کی حکمرانی کو یقینی بنایا گیا۔

آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس وقت کچھ لوگوں کو انصاف کا وہ لبادہ، بہت بھلا لگ رہا ہے، جس کی بکل میں ملک سے گند صاف کرنے والوں اور انصاف کرنے والوں سب ہی کی سمائی ہوئی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ آج کی چور، لٹیری اور نااہل پارلیمان کو تاریخ کے کوڑے دان پر پھینک کر راولپنڈی کی فیکٹری میں تیار ہونے والے ’پاک‘ ڈٹرجنٹ سے دھلے ہوئے، جنٹ صاحبان لائے جائیں گے اور وہ 3 برس تک اس پاک سرزمین پر حکمرانی کریں گے اور 3 برس کو 13 برس کی مدت عطا کرنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے، بکل میں چھپے ہوئے انصاف کرنے والے اگر کسی ناکتخدا کی طرح شرمائے لجائے گھونگھٹ کاڑھے بیٹھے ہوں، تو یہ مرحلے آپ سے آپ طے ہوجاتے ہیں۔

ہمارے یہاں آمریت اور جمہوریت کے درمیان جو طویل کشمکش جاری ہے اس میں وہ ’گھس بیٹھیے‘ بے حد اہمیت رکھتے ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں میں ’یار وفادار‘ کی طرح موجود رہتے ہیں اور جب ہوا پلٹتی ہے تو مسکراتے ہوئے چند پند سود منہ کے طور پر بیانات دیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ کس کس سے لڑائی مول نہیں لینی چاہیے۔

2018 کے انتخابات میں ابھی کئی مہینے باقی ہیں لیکن یہ بات بڑی حد تک طے نظر آتی ہے کہ ہمارے غیر سیاسی ایکٹرز کو اب دہشت گردی کے خلاف ’’ڈومور‘‘ اور جمہوریت کو پٹری سے اتارنے کے حوالے سے ’’نو مور‘‘ کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).