کارٹون اور ہندی زبان بولتے پاکستانی بچے


جب آگ اپنےدامن تک پہنچتی ہے تب ہی احساس ہوتا ہے۔ جب اپنے گھر سے تہزیب کا جنازہ نکلتا ہے تب خیال آتا ہے کہ معاشرے میں کیا بگاڑ پیدا ہوچکا ہے، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔
ہم کتنے عرصے سے اس بات کے لیے کہہ رہے ہیں کہ پڑوسی ملک کے چینلز، ان کے پروگرام اس میں دکھائی جانے والی رسومات، ان کی زبان دھیرے دھیرے ہمارے بچوں کے معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہورہی ہے۔ شادی میں ہونے والی نکاح کی تقریب میں بچہ پوچھتا ہے مما اب پھیرے کب ہوں گے یا رات کو سوتے وقت شب بخیر کے بجائے شبھ راتری کہتا ہے تو حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہم نے معصوم ذہنوں میں یہ الفاظ ان پروگراموں اور کارٹونوں کی زبان کے ذریعے پہنچائیں ہیں جو پڑوسی ملک کے ہیں۔

ایک زمانہ تھا ایک چینل تھا اور پانچ منٹ کا کارٹون پروگرام آتا تھا صبح اور شام کے وقت اور بچے سب کام چھوڑ کر ٹی وی کے آگےبیٹھ جاتے تھے پوپائے کو پالک کھا کر طاقتور بنتےدیکھنا، ٹام کے پیچھے جیری، بگس بنی کو گاجر کھاتے دیکھنا لطف دیتا تھا، کارٹون تو میوزک کے اتار چڑھاؤ سے سمجھ آجاتے تھے، زبان کا استعمال زیادہ تر نہیں ہوتا تھا اس وقت تصویری اثر زیادہ ہوتا تھا زبان سمجھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ دھیرے دھیرے ترقی ہوئی کارٹون ڈبنگ کرکے دکھائے جانے لگے اب زیادہ لطف آنے لگا کیونکہ زبان سمجھ میں آرہی تھی کہ کارٹونز کریکٹرز کیا بات کر رہے ہیں، چونکہ زیادہ تر کارٹونز ہندی زبان میں ڈب ہوتے ہیں تو بچے بہت سے الفاظ نادانستہ طور پر سیکھتے چلے گئے مثلاً نمستے، شبھ راتری، جے ہو، چھوٹا بھیم، شکتی، اگنی، وغیرہ وغیرہ۔ ہماری محترم وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگ زیب صاحبہ نے پاکستان میں بچوں کے ٹی وی چینل نہ ہونے اور قومی زبان میں کارٹونز کو نہ دکھائے جانے کے مضمرات سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے ہاں پیش آنے والے واقعہ سے آگاہ کیا کہ ان کا چھ سالہ بیٹا ان سے پوچھتا ہے کہ ”یہ اگنی کیا ہوتا ہے؟ اور اگنی اس کے سپنے میں آتا ہے“۔ انھوں نے فرمایا پانچ سال کی عمر سے بچوں کی ذہنی نشونما ہونے لگتی ہے۔ ہمسایہ ملک کی زبان میں کارٹونز بچوں کے ذہنوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ اس کا حل نکالنا چاہیے۔ محترم وزیر مملکت صاحبہ آپ اطلاعات و نشریات کی وزیر ہیں آپ سے بہتر اس کا حل کون نکال سکتا ہے۔ آپ کو ایسے اقدامات کرنے پڑیں گے جس سے آپ کے بیٹے سمیت اس ملک کے کروڑں بچے فائدہ اٹھا سکیں اور ان کی نشوونما اپنے ملک کی زبان میں ہو اور ان کے ذہن غیر ملکی زبان سے متاثر نہ ہوں۔

بچوں کے لیے پاکستان میں کام نہیں ہورہا ہے کوئی ایک چینل بھی بچوں کے لیے نہیں بنایا گیا، بچے غیر ملکی کارٹون چینل ان کی زبان میں ہی دیکھتے ہیں۔ غیر ملکی چینلز پر ڈبنگ کا بہت سارا کام پاکستان میں ہورہا ہے اور وہ ان کے کہنے پر ہی ہندی زبان میں ڈبنگ کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے چینلز ہیں۔ ترکش ڈرامے جو پاکستان میں دکھائے جاتے ہیں وہ اردو میں ڈب ہو سکتے ہیں تو پھر کارٹونز کیوں نہیں ہو سکتے۔ صرف ایک چینل ہے جس پہ اردو زبان میں کارٹون ”جان کی باتیں“ آتا ہے اور بچے اس کو شوق سے دیکھتے ہیں۔ اتنے بے حساب چینلز ہیں اگر ایک چینل بچوں کے لیے کھول دیا جائے اور وہاں بچوں کی دلچسپیاں ہوں اور کارٹونز کی زبان اردو ہو تو بچے بڑے شوق سے دیکھیں گے اور غیر ملکی زبان کا اثر بھی زائل ہوجائے گا۔

یہ کام اگر وزیر مملکت صاحبہ ذاتی دلچسپی لے کر کروائیں تو ان کے بیٹے کے ساتھ ساتھ لاکھوں بچوں کا بھلا ہوگا۔ ہمیں پاکستان کے بچوں کا مستقبل محفوظ کرنا ہے تو بچوں کے لیے اردو ڈبنگ کے کارٹون اور فلمیں بنانی ہوں گی تاکہ بچے ایک محفوظ تفریح سے محظوظ ہو سکیں۔ یہ بہت بری بات ہے کہ وزریر مملکت صاحبہ نے یہ بات محسوس کی اور زیر بحث لائیں اب ایسے اقدامات بھی کریں جن سے، ہزاروں مائیں ان کی احسان مند ہو جائیں جو اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر آپ کی طرح کرتی ہیں۔ بہت سے ٹی وی چینلز کے مالکان بھی اس طرف توجہ دیں اور بچوں کے لیے ایک چینل کھولیں چاہے اس سے بالکل منافع نہ ہو لیکن قوم کے بچوں کو تو فائدہ ہو گا اس نیک کام کرنے مین دیر نہ کریں، ملک وقوم کی بھی ذمہ داری آپ لوگوں پر ہے بعد میں سوچیے گا کہ ”دیر ہو گئی“ ۔ اب بھی وقت ہاتھ میں ہے عملی اقدام کریں اور بچوں کا مستقبل سنواریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).