قانون کے باغی کون؟


ہمارا مجموعی احوال یہ ہے، کہ ہم کسی کو ایمان دار سمجھنے کو تیار نہیں ہیں، کسی پر بھروسا نہیں۔ کوئی محکمہ، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے لیے یقین سے کہا جاسکے کہ یہاں سب کچھ ویسا ہوتا ہے جیسا ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ بار بار کی اکھاڑ بچھاڑ نے ریاستی اداروں کی بنیادوں کو شکستہ کیا ہے؛ ہم قائد اعظم کے بنائے ہوئے ملک کا ایک حصہ کھوچکے ہیں۔ ادارے ریت سیمنٹ پتھر تو ہوتے نہیں، کہ انھیں توڑ پھوڑ کے بار بار بنایا جاسکے، تو اداروں کی مضبوطی کیا ہوتی ہے؟ ادارے ریاست کے متعین کیے گئے اصولوں کے تحت اپنے دائرہ کار میں رہتے کام کریں تو ان کا اعتبار قائم ہوتا ہے، وہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ان اداروں کو مضبوط نہیں سمجھنا چاہیے، جو اپنی حدود سے تجاوز کریں، ایسا کرکے وہ اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں، بظاہر مضبوط کہلاتے ہیں درحقیقت کم زور ہوتے ہیں۔ ماضی میں جھانکیے تو مختلف موقعوں پر افواج پاکستان کے مہم جووں نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے سیاسی معاملات میں دخل اندازی کی، جس نے نہ صرف یہ کہ ملک کو، عوام کو، بلکہ افواج پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاست کے میدان میں ذرا سی ہلچل ہو، چند مفاد پرست حلقے جی ایچ کیو کی طرف دیکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ فخر کی نہیں افسوس کی بات ہے، کہ ایسے حلقے آئین و قانون کی بساط لپیٹنے کے لیے طاقت کے استعمال کو جائز سمجھتے ہیں۔ اصولوں کو چھوڑ دینے والے اپنا اعتبار کیسے قائم کریں، معتبر کیوں کر کہلائیں۔

آج کا انسان ترقی کرتے یہیں تک پہنچا ہے، کہ عوام کی حکومت قائم کرنے کا موجود نظام دریافت کیا، جسے ”جمہوری نظام“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جمہوری نظام میں کئی خامیاں ہیں، لیکن سمجھا جاتا ہے کہ معلوم نظاموں میں جمہوری نظام ہی بہترین ہے، فی الحال اس سے افضل کوئی نظام دریافت نہیں ہوا، جو شہری کو اقتدار میں شریک رکھے۔ جمہوری نظام میں ریاست کو کئی انتخاب حلقوں میں تقسیم کرکے وہاں کے عوام کو اپنا نمایندہ منتخب کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہ جمہوریت محض انتخاب کروا دینے کا نام نہیں۔ پاکستانی جمہوریت کیسی ہے، کیسی نہیں؛ اس کے لیے پاکستانی عوام کی طرف دیکھنا ہوگا؛ اس کی تربیت کرنا ہوگی۔ عوام کہیں کے بھی ہوں، ان کی اجتماعی دانش پر بھروسا کرنا، احترام کرنا چاہیے۔ ایک تاثر یہ بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے، کہ سیاست دان بدعنوان ہوتے ہیں۔ یہ تاثر ایک دو روز میں تو بنا نہیں۔ مارشل لائی حکومتوں نے چن چن کے ان بدنام سیاست دانوں کو پرموٹ کیا، جنھوں نے ان کی غیر آئینی حکومت کو ”حلال“ کرنے کا عہد کیا۔ آئین توڑنے والے اپنے ادارے کی عزت داؤ پر لگاچکے ہوتے ہیں، اب وہ کسی اور ادارے کی ساکھ کیسے رہنے دیں۔

جناب شیخ رشید ایک بار نہیں، کئی بار ببانگ دُہل کہتے آئے ہیں، کہ بتائیے کون سا سیاست دان ہے، جو فوج کی نرسری سے نہیں نکلا؟ ایک طرف تو یہ کہا جائے اور دوسری طرف یہی شیخ رشید صاحب فوج کی آمد کی ”خوش خبری“ دیتے ہوئے پائے جائیں، اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے۔ اگر شیخ صاحب کی یہ بات درست مان لی جائے تو جب جب یہ کہا جاتا ہو، کہ سیاست دان بدعنوان ہیں، اس کا یہی مطلب لیا جانا چاہیے کہ فوج نے بدعنوان سیاست دانوں کو پروان چڑھایا۔ سب کا تو نہیں معلوم لیکن حال ہی میں نا اہل قرار دیے جانے والے وزیراعظم نواز شریف اور دیگر جماعتوں پر یہ الزام لگایا جاتا رہا، کہ انھوں نے 88ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے آئی ایس آئی سے رشوت لی۔ یعنی غیر آئینی کام میں فوج کے معاون بنے۔ اصغر خان یہ مقدمہ سپریم کورٹ لے گئے؛ سولہ برس بعد معزز عدالت نے فیصلہ سنادیا، جس میں جنرل (رِٹائرڈ) اسلم بیگ، اور اسد دُرانی کے خلاف کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی، اور کہا کہ تحقیق کی جائے کس کس نے رقم وصول کی تا کہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ قانون کی حکمرانی کا خواب کیا ہوا؟ اس مقدمے کے فیصلے کا نتیجہ؟ خاموشی!

سیاست دان کی قوت عوام ہیں۔ ان کی بدن پر نہ وردی ہوتی ہے، نہ سینے پر تمغے لگے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو پچیس سیکنڈ کی سزا سنائی تھی، کہ انھوں نے عدالت کے حکم کی تعمیل نہیں کی، سو اپنے عہدے سے سبک دوش ہوئے، نا اہل قرار پائے۔ جیسا کہ کہا گیا ادارے تبھی مضبوط ہوتے ہیں، جب قانون کے دائروں میں‌ رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیں۔ ورنہ جگ ہنسائی ہوتی ہے؛ ادارے اپنا اعتبار کھو دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف پر پاناما اسکینڈل کے نام پر دھول اڑائی گئی۔ پاناما میں سے جو ظاہر ہونا ہے، وہ ہو رہے گا، ابھی تک عدالت میں یہی ثابت کیا جاسکا کہ وہ اقامہ کے حامل تھے، وہ جس کمپنی میں ملازم تھے، انھوں نے وہاں سے تنخواہ نہ لی؛ بلیک ڈکشنری کو جھاڑا گیا، وہاں لکھا تھا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیراعظم صادق و آمین نہیں ہیں۔ عدلیہ کے فیصلے پر تعمیل کرتے بنی، عہدہ چھوڑنا پڑا۔ ظاہر ہے اس فیصلے سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ مبینہ طور پر ملک کے سب سے طاقت ور شخص کو محض عدلیہ کے ایک فیصلے نے برطرف کر دکھایا؛ یوں انصاف فراہم کرنے والے ادارے کی شان بڑھی۔ دو وزرائے اعظم کے خلاف عدلیہ کے فیصلوں کا احترام تو دیکھ ہی لیا؛ دوسری طرف یہ دیکھیے کہ 2012ء میں اصغر خان کیس کا فیصلہ سنایا گیا، پانچ سال ہونے کو آئے، عدالت سوال کرنے سے معذور ہے، کہ اس حکم کی تعمیل کیوں نہ کی گئی۔ کیا اصغر خان کیس پر دیے گئے فیصلے پر عدالت وزیر دفاع، وزیراعظم سے سوال نہیں کرسکتی کہ انھوں نے عمل درآمد کیوں نہ کروایا؟

اب یہ منظر دیکھیے۔ نیوز چینل پر بیٹھے سیاسی اداکاروں کو ہر دم یہ کہنے سے فرصت نہیں ملتی کہ حکومت ”تصادم“ کی راہ ہم وار کر رہی ہے، پھر یہ اگر مارشل لا آیا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی؛ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ حکومت اداروں کو اپنی حدود میں رہنے کا کہے تو یہ تصادم کیسے ہوا؟ ہم سیاست دانوں پر تنقید کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ آئین و قوانین کی کتاب لہرا کے کہتے ہیں، کہ ان کا کون سا اقدام اس متصادم ہے، اور کون سا نہیں۔ تنقید تو یہی ہونی چاہیے۔ جہاں اصول کی، میرٹ کی دھجیاں اڑائی جائیں، وہاں آواز اٹھانا بنتا ہے۔ تصور کرلیا جائے کہ آئین و قوانین کچھ نہیں ہوتے تو تنقید کا پیمانہ کیا ہوگا؟ اسی آئین و قوانین کے پیمانے پر ہم اداروں کے کارکردگی کو جانچیں گے، کہ کون سا ادارہ اپنی حدودو سے تجاوز کر رہا ہے، کون اپنی دائرہ کار میں رہتے اپنا فرض نبھا رہا ہے۔ کوئی اس لیے مقدس تو نہیں ہوجاتا کہ اس نے سرکار کی دی ہوئی وردی پہن لی ہے۔ تقدیس اسی کی ہے جو قانون کا احترام کرتا ہو۔ وزیر داخلہ کہتے ہیں، ریاست کے اندر ریاست نہیں بنانے دی جائے گی، تو اس لیے کہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقع ملا ہے، یک طرفہ پروپگنڈا اتنا موثر نہیں رہا، جتنا کبھی تھا؛ اس ماحول میں یہ کہنا کہ صرف عوام کے منتخب نمایندے بدعنوان ہیں، زیادہ کارگر نسخہ نہیں ہے۔ اصول تو یہ ہونا چاہیے جس کا جرم عدالت سے ثابت نہیں، اسے مجرم نہ کہا جائے۔ جس کا جرم عدالت میں ثابت ہوا، سزا دی گئی اسی سے تغرض ہو۔ عدالت کے فیصلوں کا اوپر ذکر ہوا، دو فیصلے جو منتخب وزرائے اعظم کے خلاف جاتے تھے، چار و ناچار انھیں قبول کیا گیا، اور اصغر خان کیس؟ خاموشی کی طویل تر دیوار چین!

آئین کے تحت پارلیمان سپریم ہے؛ آئین و قوانین کے گیت گانے والوں کو ”پارلیمان“ کی خیر مانگنی چاہیے۔ وہاں کا یہ نقشہ ہے، کہ وہ جماعتیں جو اپوزیشن میں بیٹھی ہیں، انھیں جلدی ہے کہ یہ حکومت جائے تو ان کی باری آنے کی راہ نکلے۔ گلی محلے کی کرکٹ ٹیمیں آپس میں میچ کھیلتی ہوں، ایک ٹیم کم اسکور پر آوٹ ہوجائے تو مخالف ٹیم سے کہا جاتا ہے، ہم ہار گئے تم جیتے؛ آو نیا میچ شروع کرتے ہیں۔ یار لوگوں نے الیکشن کو بھی گلی محلے کے کرکٹ میچ سمجھ رکھا ہے؛ ہار گئے تو اگلے الیکشن کی دہائی دینے لگے۔ اس کے لیے ایمپائر کی مدد بھی لینا پڑی تو مباح ہے۔ وہ جماعتیں جو حکومت میں نہیں ہیں، انھیں جلدی ہے کہ یہ حکومت جائے تاکہ ان کی باری کی کوئی صورت پیدا ہو۔ یہ کوئی سمجھنے کو تیار نہیں کہ آیندہ انتخابات میں بھی باری نہ آئی، تو پھر کیا ہوگا؟ کچھ یہ آس امید لگائے بیٹھے ہیں، کہ ایمپائر ان کے ساتھ ہے، برتری انھی کی ہوگی، ورنہ یہ تو ہے ہی کہ ہارنے والے جیتنے والے کو بدعنوان کہیں گے۔

اس حکومت کے چار سال کیسے گزرے! اس سے پہلے پانچ سال مکمل کرنے والی حکومت کیا کارکردگی رہی؟ اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیجیے۔ اس سے بھی پہلے فوجی نیم فوجی حکومتوں نے ملک کو کیا دیا، وہ ڈراونے خواب کے مانند ہے۔ کراچی سے ہر روز اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس لاشوں کی خبریں آتی تھیں، بارہ مئی جیسے خونیں سانحوں نے جنم لیا۔ اب دیکھیے کیا احوال ہے؛ ملکی نظام بہتری کی طرف جارہا ہے یا نہیں؟ یہ پاکستان مسلم لیگ نون کی کام یابی نہیں ہے۔ یہ جمہوری عمل کے تسلسل کا نتیجہ ہے۔ خودکش حملوں میں کمی آئی یہ رِکارڈ پر ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوئی، لیکن بہت حد تک قابو پالیا گیا ہے۔ ریل ویز کی حالت پہلے سے خاصی بہتر ہوئی ہے۔ ایسے ہی دیگر ادارے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں سب کچھ اچھا ہے، شفاف ہے؛ بالکل بھی نہیں؛ جو خامیاں ہیں ان پر انگلی اٹھائی جاتی رہنی چاہیے؛ یہ آمریت تو نہیں کہ مقتدرہ پر انگلی اٹھائی جائے تو جوابا ملک کی بنیادیں ہل جانے کا شور مچایا جاتا ہے۔ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، سفر طویل ہے، مارشل لا کی راہ سے ہوکے گزر جانے کی روایت ختم ہوجانی چاہیے۔ افہام و تفہیم سے مسائل حل ہوں گے، افہام و تفہیم کا راستہ پارلیمان کی گلی سے ہوکے جاتا ہے۔ عوام مت بھولیں کہ ان کی طاقت پارلیمان ہے کوئی اور ادارہ نہیں؛ اسی طرح پارلیمان یہ مت فراموش کرے، اس کی طاقت عوام ہیں، کوئی اور ادارہ نہیں۔ عوام کو انصاف، روزگار، احساس تحفظ دے کر، ان کی عزت نفس بحال کرکے ہی پارلیمان کو توانا کیا جاسکتا ہے۔ یہ مان کے کہ ماضی میں فوج آئین و قانون سے تجاوز کرتے ایسے اقدام کرتی رہی ہے، جس سے اس ادارے کا اعتبار مجروح ہوا، چند مفاد پرست اقتدار حاصل کرنے کے لیے فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں، یقینا یہ وہ ہیں جو عوام کے ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں نہیں آسکتے، تبھی تو غیر آئینی اقدام کے لیے فضا سازگار کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ باغی وہ ہیں جو قانون توڑنے پر اکساتے ہیں، باغی وہ ہیں جو آئین کا احترام نہیں کرتے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran