پنجاب نہیں جاؤں گی


خلیل الرحمن قمر کا نام پڑھتے ہی ان کے بہت سے ڈرامے یاد آنے لگتے ہیں۔ گذشتہ بیس بائیس برس میں خلیل الرحمن قمر پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کا ایک اہم نام بن چکے ہیں۔ پیارے افضل، بوٹا فرام ٹوبا ٹیک سنگھ، صدقے تمہارے، ذرا یاد کر، دلی کے بانکے اور کئی دوسرے سپر ہٹ ڈرامے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ فلم چونکہ بن ہی کم رہی ہے تو لکھنے والے بھی کم ہیں۔ قسط وار ڈرامہ جہاں کسی پلاٹ کو پھیلانے کا نام ہے وہیں فلم میں اسے سمرائز کر دیا جاتا ہے۔ تو فلم بنیادی طور پہ چند شاٹس میں بہت کچھ کہہ جانے کا نام ہے۔ ڈرامہ بنت مانگتا ہے، فلم سیکوئنس کا دماغ مانگتی ہے۔ ڈرامہ کھینچنا پڑتا ہے تو فلم بار بار کسنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے آدمی کے لیے اس راستے پر آنا آسان ہے لیکن ڈرامہ لکھتے لکھتے اس گلی کا رخ کرنا بعض اوقات جان کا عذاب بن جاتا ہے۔

اس فلم کے پہلے ہاف میں وقت بالکل ضائع نہیں کیا گیا۔ شروع کے دس پندرہ منٹ میں اہم کرداروں کا تعارف مکمل ہو چکا تھا جو آگے بڑھتی ہوئی کہانی کو تھامنے میں مددگار رہا۔ کنٹینیوٹی (تسلسل) بہترین تھی، عرفان اس سے پہلے بھی کامیاب فلموں کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں، ان کا تجربہ بول رہا تھا۔ مہوش حیات اور ہمایوں سعید کی شکل میں ایک عمدہ کیمیسٹری سکرین پہ نظر آتی ہے۔

پنجاب نہیں جاؤں گی سے پہلے خلیل الرحمن قمر نے “قرض” اور “کوئی تجھ سا کہاں” نامی دو فلموں کے سکرپٹ بھی لکھے تھے۔ موجودہ سکرپٹ بتاتا ہے کہ لکھاری وقت کے ساتھ ایوالو ہوا ہے۔ بہت سے فلم رائٹر کمرشل فلم میں اس وجہ سے کامیاب نہیں ہو پاتے کیونکہ ذہنوں پر جمی سنجیدہ سینیما کی پڑھائی انہیں بہت کچھ کرنے سے روکتی ہے۔ یہاں ایسا کچھ احساس نہیں ہوتا۔ ایک ہلکی پھلکی فلم جو کوئی بھی تفریح چاہنے والا سکون سے دیکھ سکتا ہے۔ پہلا ہاف اسے بیٹھنے پہ مجبور کرتا ہے تو دوسرے ہاف میں وہ اپنی مرضی سے بیٹھ ہی جاتا ہے، ہاں کبھی کبھی گھڑی کی طرف نظر ضرور دوڑاتا ہے۔

ہر پاکستانی فلم کی طرح یہاں بھی ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس خالصتاً فلم کے اداکار موجود نہیں ہیں۔ جو چہرے ٹی وی پہ نظر آتے ہیں وہی بڑی سکرین پر دیکھے جائیں تو گھر کے سے ماحول کا احساس ہوتا ہے، گھر ہی بیٹھنا ہوتا تو سینیما کیوں آتے بھائی؟ تو اسی وجہ سے باہر نکلنے والے بہت سے لوگ یہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ بڑی سکرین پر ڈرامہ دیکھ کے آئے ہیں۔

سینیمیٹوگرافی (عکس بندی) میں پورا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ لانگ شاٹ فلم کے حساب سے بنایا جائے۔ پنجاب کی رہتل کے بہت سے اچھے سین فلم میں شامل ہیں، بہت جگہ باریکیوں کا خیال نظر آتا ہے، سیٹ ڈیزائننگ میں اچھا خاصا خرچہ ہوا ہے۔ کہیں بھی ایسا نہیں لگتا کہ پہلے سے موجود سیٹس پر کام چلانے کی کوشش کی گئی ہو، جو ہمارے یہاں ایک روایت بن چکا ہے۔ بعض لوکیشنز پہ تو باقاعدہ پیار آتا ہے کہ یار یہ بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔

آئی ایم ڈی بی پہ 8.4 رینکنگ (جو بذات خود ایک اہم بات ہے) والی اس پاکستانی فلم کا پلاٹ چوہدری فواد کھگہ اور امل کے گرد گھومتا ہے، وہ دونوں آپس میں کزن ہیں۔ کھگہ فیصل آباد سے ہے اور باہر سے پڑھی لکھی امل کراچی سے تعلق رکھتی ہے۔ امل پہلے سے اپنے ایک دوست کی محبت میں گرفتار ہے جو لندن سے آتا ہے۔ فرسٹ ہاف کے دوران ہمیں فواد کھگہ مسلسل اس کوشش میں نظر آتا ہے کہ وہ کسی طرح امل کا دل جیت لے۔ باقی پھر اگلے ہاف میں امل کیا کرتی ہے یہ فلم میں دیکھنا پڑے گا، بہرحال ہمایوں سعید کی ڈائریکٹر ندیم بیگ کے ساتھ یہ ایک اور اچھی فلم ہے۔

ایک چیز جو ہم لوگ بچپن میں سوچتے تھے کم از کم وہ گلہ اس فلم کو دیکھ کر نہیں رہا۔ “ایسی لڑکیاں کہاں ہوتی ہیں یار؟” مطلب حد سے زیادہ فینسی کپڑوں میں لدی پھندی، چٹاخ پٹاخ میک اپ کیے طباق سے چہرے والی ہیروئنیں جو ہر وقت کود پھاند میں بزی نظر آتی تھیں، وہ معاملہ اس فلم میں نہیں ہے۔ مہوش حیات، عروہ حسین اور دوسری خواتین نارمل کپڑوں اور اچھے میک اپ میں نظر آئیں۔ گاؤں کے سین کہانی کی ڈیمانڈ تھے، اگرچہ اس طرح پانی صرف تھر میں ہی بھرا جا سکتا ہے لیکن فلم میں سب چلتا ہے۔ دیپک پروانی کو ڈریس ڈیزائنینگ دینا ایک بہتر فیصلہ تھا۔ کچھ گانوں میں البتہ ایسا لگا کہ یہاں وارڈروب زیادہ بہتر ہو سکتا تھا صرف اس لیے کہ ہمارا ڈرامہ اور فلم ایک دوسرے سے الگ نظر آ سکیں۔

احمد علی بٹ ایک بہت اچھے اداکار ہیں، کامک رولز میں ہمیشہ جان ڈال دیتے ہیں لیکن ڈانس میں ان کو مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ سنجے دت یا امیتابھ بھارتی سینیما کی مجبوری تھے، کیریکٹر / سیکنڈ لیڈ ایکٹر کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا، یا تو اسے ڈانس والے سین ملنا بند ہو جاتے ہیں اور یا پھر وہ ڈانس سیکھ جاتا ہے۔ احمد علی بٹ کے فیشل ایکسپریشنز غضب کے تھے بس تھوڑی لچک چاہئیے۔ اسی طرح کچھ گانوں میں اگر ایکسٹراز کم کر کے زیادہ فوکس ان کی جسمانی حرکات کو مزید ہم آہنگ کرنے پر کیا جاتا تو مزید پرفیکشن لائی جا سکتی تھی۔ عروہ حسین کا ڈانس نمبر اور ان کا رانچی میک اپ اپنی جگہ بہترین تھا۔

ہمارے یہاں پیرلل سینیما کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، ابھی تو ہماری کمرشل فلموں کو اتنی سکرین نہیں ملتی کہ وہ اپنے خرچے نکال سکیں، پیرلل سینیما روایت کا تسلسل مانگتا ہے۔ ادھر تو ہر دو ماہ بعد پالیسی میں نئی پخیں لگی ہوتی ہیں۔ لہذا آرٹ فلموں اور سنجیدہ سینیما کے شائقین سے گزارش ہے کہ یا تو کمرشل فلموں سے دور رہیں اور یا پھر دیکھنے جائیں تو وہ والی عینک گھر اتار کے جائیں۔ اچھی بھلی کمرشل فلم کا بیڑہ اکثر وہ ریویو غرق کرتے ہیں جن کے لکھنے والے ہر فلم میں ستیہ جیت رے یا وڈی ایلن کی سی مہارت دیکھنا چاہتے ہیں۔ عرض یہ ہے بھائی کہ جو فلم کریٹیکس کو پسند آ جائے وہ بزنس بہت ہی کم کرتی ہے۔ یہ دنیا کا مانا ہوا انڈرگراؤنڈ اصول ہے۔

نوید شہزاد، صبا حمید اور سہیل احمد کی اداکاری حسب توقع لاجواب تھی۔ کہیں کہیں سہیل احمد کو دیکھ کر ان کے ٹی آئرن اور گارڈر والے اشتہار تک یاد آتے رہے۔

فلم کی موسیقی بالکل ویسی ہے جیسی آج کل نوجوان سننا چاہتے ہیں۔ اس پہ کوئی کمپرومائز نہیں کیا گیا بلکہ ان قیود میں رہتے ہوئے بہت عمدہ گانے بنائے گئے ہیں۔

کسی فلم کے ہٹ ہو جانے میں بہت اہم رول بعض اوقات اس کے پنچز کا ہوتا ہے۔ “ہیلپ می دردانہ” ایک عمدہ پنچ تھا۔ روائتی پھکڑ پن کی جگہ وڈیراشاہی پر کیا گیا مزاح اچھا تاثر دیتا ہے۔

ڈیپتھ آف فیلڈ بعض جگہ بہت اچھی نظر آئی۔ بیشتر سینز میں پس منظر، پیش منظر اور فوکسڈ ایلیمینٹ کا دھیان رکھا گیا ہے۔ بہت عرصے بعد یوں محسوس ہوا جیسے پاکستان میں فلم کو سنجیدہ لیا جا رہا ہے۔

کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب نہیں جاؤں گی پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی ہے۔ تیس کروڑ سے زیادہ کا بزنس کرنے والی یہ چوتھی پاکستانی فلم ہے۔ اس سے پہلے اتنا بزنس صرف “وار”، “بن روئے” اور ” جوانی پھر نہیں آنی” نے کیا تھا۔ افق لامحدود ہے، فلم ابھی لگی ہے، ایک بار دیکھنا بنتا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain