سیکس سے میرا پہلا تعارف


مجھے زندگی میں پہلی بار ایک میگزین ’’سکھی گھر‘‘ پڑھ کر یہ پتہ چلا تھا کہ بچے کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ میگزین وزارتِ بہبودِ آبادی کی جانب سے شائع کیا گیا تھا اور اس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ بچے دو ہی اچھے اور اس بارے میں کافی ڈھکے چھپے انداز میں بات کی گئی تھی۔

اس رسالے میں لوگوں کو نصیحت کی گئی تھی کہ ’’ وقفہ بہت ضروری ہے‘‘۔ میں تب تقریباَ دس سال کا تھا اور مجھے اب بھی یاد ہے کہ جس آسودہ حال فیملی کا نقشہ اُس میگزین میں کھینچا گیا تھا اُس میں ماں ، باپ اور اُن کے دو صحت مند بچے ایک چولھے کے گرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ اب مجھے لگا کہ بچے پیدا کرنے کے لئیے چولھے کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانا پڑتا ہے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے ہونے والی مردم شماری کے عبوری نتائج دیکھیں تو پتہ لگتا ہے کہ شائد پاکستان کے لوگ سکھی گھر کا کچھ غلط مطلب لے گئے ہیں۔آج پاکستان کی آبادی207 ملین سے بھی زیادہ ہے جو 1998میں ہونے والی آخری مردم شماری کے مقابلے میں 57% زیادہ ہے۔ پاکستان دنیا میں کثیر آبادی رکھنے والا پانچواں بڑا ملک ہے۔

عالمِ طبعیات پرویز ہود بھائی کے مطابق اگر آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو 150سال بعد پاکستان میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں رہے گی۔ حکومتی سہولیات اور قدرتی وسائل کے لئیے گنجان آبادی ایک بڑا دباؤ ہے۔ ابھی دیکھ لیں دنیا کا ہر وہ آٹھواں بچہ جو سکول نہیں جاتا اُس کا تعلق پاکستان سے ہے۔

میں نے یہ سکھی گھر رسالہ تقریباَ 40 سال پہلے پڑھا تھا لیکن آج بھی ہم بچوں کی پیدائش کے بارے میں بات کرتے ہوے اُتنا ہی گھبراتے ہیں جتنا تب گھبراتے تھے۔ ہم یہ تو کہتے ہیں کہ آبادی بہت بڑھ گئی ہے لیکن آبادی کو کنٹرول کیسے کرنا ہے اس بارے میں ہم کوئی بات نہیں کرتے۔ اب آبادی کو کنٹرول کرنے کے بارے میں بات کرنے کے لئے سیکس کے بارے میں بات کرنی پڑے گی اور ہم سیکس کے بارے میں ٹی وی، ریڈیو، پارلیمنٹ یا پنچائتوں میں تو بات نہیں کر سکتے نا۔ اور کنڈوم کے بارے میں اشتہارات پر تو پہلے ہی پابندی ہے۔ ہاں کبھی کبھی تھوڑی ہمت کر کے آن لائن کلینک کی طرح کے ٹی وی شو شروع کئیے جاتے ہیں جن میں جنسی صحت کے مسائل پر تو بات ہو سکتی ہے لیکن سیکس پر نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیکس کا لفظ ادا کرتے ہی سیکس ہو جائے گی۔ حد تو یہ ہے کہ جس سے ہم سیکس کر رہے ہوتے ہیں اُس سے بھی ہم اس بارے میں بات نہیں کرتے۔

پاکستانی حکومت کواس عام خیال کہ حمل میں رکاوٹ ڈالنا غیر اسلامی فعل ہے، کی روک تھام کے لئیے مذہبی لوگوں کی مدد بھی لینی چاہئیے تھی۔ جیسے پہلے لوگوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ پولیو ویکسین اصل میں پاکستانیوں کو بانجھ بنانے کی ایک امریکی سازش ہے۔لیکن پھر حکومت نے عوام کی آگاہی کے لئیے مولویوں کو ٹی وی پر بلایا جنہوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح مولوی یہ بھی سمجھا سکتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو اپنے شرعی اور قانونی ساتھی کے ساتھ مکمل جنسی تعلق کا پورا اختیار دیا ہے لیکن ا س کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کنڈوم یا مانع حمل گولی کا استعمال نہیں کر سکتے۔

پاکستان کو اس سلسلے میں اپنے سابقہ بھائی بنگلہ دیش سے ہی کوئی سبق سیکھ لینا چاہئیے تھا۔ جب بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ہوا تھا تب پاکستان کی آبادی بنگلہ دیش سے کم تھی اور اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی 163ملین ہے جو کہ پاکستان سے44ملین کم ہے۔ اس کے حصول کے لئیے بنگلہ دیش نے گھر گھر جا کر عورتوں کو پیدائش میں وقفہ رکھنے کے بارے میں سمجھایا۔ بنگلہ دیش کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے عورتوں کی رہنمائی ضروری ہے کہ وہ بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لئے کیا کر سکتی ہیں۔ ہم سے پاکستان میں عورتوں کی تولیدی صحت کے بارے میں تو بات ہوتی نہیں تو اُن کی سیکس لائف کے بارے میں کیسے بات کریں۔۔

تو پاکستانیوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ خود ہی اس کا کوئی حل نکال لیں گے۔ اب کچھ کو لگتا ہے کہ بچے اللہ کی طرف سے عطا ہوتے ہیں تو یہ تو اللہ کو ہی ناراض کرنے والی بات ہو گی کہ حمل کی روک تھام کی جائے۔ ہر بچہ ایک منہ اور دو ہاتھوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اس لئیے غریبوں کا تو یہ ماننا ہے کہ جتنے ہاتھ ہوں گے اُتنا روزگار آئے گا اور اس لئے وہ اپنے بچوں کو پانچ یا چھ سال کی عمر میں ہی کام پر لگا دیتے ہیں۔ اب حکومت کی توجّہ تو ویسے ہی غریبوں کی طرف کم ہوتی ہے اس لئیے وہ بچوں پر بچے پیدا کرتے رہتے ہیں کہ کوئی بچہ تو اُن کے حالات کو سدھار کر اُن کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا۔

جبکہ مڈل کلاس میں بچہ ایک خرچہ سمجھا جاتا ہے۔ مڈل کلاس لوگوں کی ایک نظر اپنے بینک بیلنس پر اور ایک نظر اپنے بچوں کے مستقبل پر ہوتی ہے۔ اُن کو یہ سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ جو اُن سے غریب ہے اُس کے بچے اُن سے زیادہ کیوں ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ بچوں کو پیدا کرنا اُن کو کھلانا اور پھر اُن کو کام پر لگانے کے علاوہ غریبوں کے پاس اپنے حالات اچھے کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور جو غریب ہے وہ دو بچوں کے ساتھ بھی غریب بھی رہے گا اور شائد جنسی تعلق ہی اُن کی واحد تفریح ہے۔

مڈل کلاس کے پنڈت غریبوں کو سمجھاتے ہیں کہ بھئی اگر تمھارے بچے تھوڑے ہوتے تو شائد تمھاری زندگی اتنی مشکل نا ہوتی وہ خود یہ نہیں سوچتے کہ وہ خوش اس لئے ہیں کیونکہ اُن کے پاس پیسہ ہے ( چاہے چوری کا یا کمایا ہوا)، جس سے اُن کے بچے پرائیوٹ ہسپتال میں پیدا ہوتے ہیں، پرائیوٹ سکول میں پڑھتے ہیں اور پرائیوٹ کلب میں اُن کی سالگرہیں منائی جاتی ہیں۔ جب وہ غریب کو مشورہ دے رہے ہوتے ہیں کہ بچے تھوڑے پیدا کرو۔ یہ مشورہ بھی وہ اس لئے دے رہے ہوتے ہیں کہ کہیں غریب کا کوئی بچہ ان کے بچے کے حصّے کا پانی یا ہوا نا استعمال کر لے۔

بچے دو ہوں یا بیس اپنے والدین کو تو وہ پیارے ہی ہوتے ہیں۔ کچھ مردوں کو ایسا لگتا ہے کہ شائد زیادہ بچے پیدا کر کے وہ مسلم اُّمت میں ا ضافہ کر رہے ہیں۔ ہر سال ایک احمقانہ خبر چلتی ہے کہ کسی آدمی کے بیس یا تیس بچے ہیں اور اور وہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ تو خدا کاہی کام کر رہا ہے تو کوئی اُن کی چار یا چھ بیویوں سے پوچھے جن سے وہ تیس بچے پیدا ہوتے ہیں اُن کو چولھے کے پاس بیٹھ کر اتنے لوگوں کا کھانا بنانے میں کتنی خوشی محسوس ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).