میں ‘قادیانی’ ہوں… And I plead guilty


ہمارا نام آپ کے نزدیک ‘قادیانی’ ہے اور اگر آپ کو قاف منقوط اس لفظ میں استعمال کرتے ہوئے اسلام کی نظریاتی دیواروں پر کوئی ہلکی سی خراش محسوس ہو تو بھلے ‘مرزائی’ کہہ لیں ہمیں کوئی فرق نہیں کیونکہ ہم نہ تو قادیانی ہیں اور نہ ہی مرزائی۔ ہماری ساری عمر آپ لوگوں سے کفر و زندقہ نیز غداری کی اسناد لیتے گزری کہ اب ہماری اپنی پڑھائی کی اسناد اس ملبے تلے دبی پڑی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ کافی عرصے سے ایک ہی جگہ نوکری کر رہے ہیں ورنہ کہیں اپنی پڑھائی کی اسناد کی بجائے ایسی ڈگریوں کی حامل اسناد کی نقل بھیج دیتے جن کا نوکری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تو کتنا برا لگتا نا جیسا کہ کافر، کافر، دنیا کا غلیظ ترین کافر، یہود و نصاری سے بدتر کافر وغیرہ وغیرہ۔ پھر انٹرویو میں یہی کہتا کہ ‘جی میرا پینتیس سال کا کافر ہونے کا تجربہ ہے، کوئی عام سا کافر نہیں بلکہ شیعہ سے بھی بدتر کافر’۔

پرسوں ایک دوست کا فون آیا، گو کہ وہ بھی کافر ہی ہیں مگر کیونکہ سرکاری طور پر ان کے کفر پر ابھی تک مہر تصدیق نہیں لگی اس لئے فی الحال سرکاری طور پر مسلمان ہیں۔ خیر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، ان کو سرکاری طور پر کافر قرار نہ بھی دیں تو کیا، ہماری قوم نے ان کو مار مار کے ہی ختم کر دینا ہے۔ کہنے لگے یار کیپٹین صفدر نے ہماری آنکھیں کھول دیں ہیں، اب تم جیسوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹا بھی دیا جائے گا اور آئندہ سے کلیدی عہدوں پر تعیناتی بھی نہیں ہوگی۔ ہم نے کہا کہ اس کا مقصد صرف فوج اور سرکاری ادارے ہیں۔ کہنے لگے کہ تم چاہتے ہو کہ تم پرائیویٹ اداروں کے کلیدی عہدوں پر آ کر ملک کے قیمتی راز ملک دشمنوں کو بیچ سکو۔ ہم تو یہ سن کر مہبوت ہو کر رہ گئے، ہماری غداری کا یہ پہلو تو ہمارے بھی ذہن میں نہیں تھا۔

یہ تو شکر ہے ہم توہین کی دنیاوی سزا کے قائل نہیں ہیں ورنہ جتنی توہین ہم نے اپنے عقائد و اکابر کی سہی ہے کوئی سو دو سو بندہ تو ہم نے ہی مار کر اپنی جنت کما لینی تھی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ ربوہ والی جنت کمانی تھی، تو ہمارا جواب یہ ہوگا کہ وہ تو ہم کما چکے،

“ایں کفر” را بہ جان برابر خریدہ ایم

جاں دادہ ایم و جنت دیگر خریدہ ایم

یہاں تو آپ کی جنت کا ذکر ہے (اس ضمن میں حوروں کی خوبصورتی کی تفصیل کیلئے مولانا طارق جمیل صاحب سے رابطہ کریں)۔ ویسے بھی اس وقت پاکستان میں سب سے آسان کام ہزارہ کو مارنا اور احمدی کی مذہبی دل آزاری ہے جس پر کسی کی آنکھ نہیں پھڑکتی بلکہ سب اس کو شیرِ مادر کی طرح حلال سمجھتے ہیں۔

منکر نکیر بے چاروں نے ہم سے کیا سوال پوچھنا ہیں، ہم سے تو سرکاری مسلمان ایسے ایسے سوال پوچھ چکے کہ منکر نکیر کے سوالات کی تیاری کی ہزارہا بار پریکٹس ہو چکی ہے۔ کچھ تو واقعی ہم سے منکر نکیر بن کر سوال کرتے ہیں۔ شروع کرتے ہیں من ربک، ما دینک اور من نبیک سے۔ جب ہم سب سوالوں کا جواب دے چکتے ہیں تو اچانک منکر نکیر والی متجسس طبیعت کہیں رفو چکر ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ مولویانہ ہٹ دھرمی لے لیتی ہے۔ ہمارے سارے جوابات کو غلط قرار دے کر منفی نمبر دے دئے جاتے ہیں اور آخر کار جہنم کا پروانہ ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیا جاتا ہے۔ اگر ہم بھولے سے بھی یہ کہہ دیں کہ حضور اللہ آپ سے پوچھ کر یہ فیصلے تھوڑی کرے گا تو وہ ہماری طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے ہم اپنی اماں کو دیکھتے تھے جب وہ بتاتی تھیں کہ بینگن پکائے ہیں۔

شغل اس وقت لگے گا جب اصلی والے منکر نکیر ہماری قبر پر سوال کرنے آئیں گے تو اگر ان کے ہاتھ میں پاکستان کا آئین ہوا تو ہم ان کے سوالات سے پہلے ہی کہہ دیں گے کہ می لارڈ، I plead guilty ۔ کیونکہ آئین کی دوسری ترمیم طے شدہ امور میں سے ہے جس کو چھیڑا تو کیا زیر بحث بھی نہیں لایا جا سکتا۔ تو اب ہم قبر میں کیا بحث کے دروازے کھولیں، نا کردہ و طے شدہ گناہ ہی اپنے سر لے لیں گے۔

احمدی ہونے کا ایک فائدہ ہے کہ فرقوں کی آپس کی کشمکش، طعن و تشنیع اور مولویوں کی حرکات سے تنگ آ کر آپ کو شرمندہ سا ہو کر یہ نہیں کہنا پڑتا کہ ‘میرا کوئی فرقہ نہیں میں تو صرف مسلمان ہوں’۔

بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ہماری قبر میں جانا ہے ورنہ ایسا بھی کیا مسئلہ کہ سو سال ہو گئے ہر سال ہمارے تابوت میں ہی آخری کیل ٹھونکا جاتا ہے۔ اب تو ہمارے تابوت میں کیلوں کی جگہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ بس، آخر میں اتنی سے درخواست ہے، اس تابوت کو اب دفنا دیں اور اپنی سیاسی و مذہبی لڑائیاں اپنے ‘ویڑھے’ میں لڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).