پاکستان کی بن بیاہی مائیں اور ناجائز بچے کچھ کہتے ہیں -2


(پاکستان کی بن بیاہی مائیں اور ناجائز بچے کچھ کہتے ہیں -1)

ان کلینکس میں زیر علاج خواتین کی بہت قلیل تعداد شادی شدہ ہوتی ہے جو کسی معقول وجہ سے حمل سے چھٹکارا چاہتی ہیں۔ اکثریت غیر شادی شدہ کم عمر لڑکیوں کی ہوتی ہے جن کے لیے یہ عزت سے بڑھ کر جان کا مسئلہ بن گیا ہوتا ہے۔ 2012 میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان میں سالانہ اسقاط حمل کی تعداد قریبا 25 لاکھ تھی اور ان میں سے 99 فی صد مشکوک حالات میں کیے گئے۔ یعنی صرف ایک سال میں 25 لاکھ جانیں مخصوص وجوہات کی بنا پر پہلا سانس لینے سے پہلے ہی ختم کر دی گئیں۔ 15 سال سے زیادہ عمر کی ہر ہزار عورتوں یا لڑکیوں میں یہ شرح 50 تھی۔ جبکہ یہی شرح 2002 میں 27 فی ہزار تھی۔ یہ تحقیق معروف ادارے پاپولیشن کونسل کے زیر انتظام ہوئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اکثر اوقات یہ اسقاط حمل خفیہ کلینکس میں غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں سرانجام پائے۔ 15 سال سے زائد عمر کی خواتین میں غیر ارادی حمل کی تعداد 1912 میں 93 فی ہزار تھی۔ ان میں سے 54 فی صد نے ”مخصوص“ وجوہات کی بنا پر اسقاط حمل کو ترجیح دی۔

2014 میں ہونے والی ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ہر سال ہزاروں بچے پیدائش کے فوراً بعد قتل کر دیے جاتے ہیں تاکہ خاندان کی عزت اور نام پر حرف نہ آئے اور ظاہر ہے کہ حدود کے مقدمے سے بھی جان بخشی رہے۔ 2014 میں ایدھی فاونڈیشن نے صحافیوں کو بتایا کہ صرف پچھلے ایک برس میں بڑے شہروں کی کچرا کنڈیوں سے ملنے والے نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ جو بچے نامعلوم مقامات پر دفن کر دیے گئے، ان کا اندازہ لگانا قریبا ناممکن تھا۔ مہذب دنیا میں بن بیاہی مائیں تو ملتی ہیں پر کچرا کنڈی سے آوارہ کتوں کی نوچی بچوں کی لاشیں نہیں ملتی۔ وجہ دونوں حادثات کی ایک ہے پر جرم کون سا زیادہ بڑا ہے، یہ سمجھنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے بھلا۔ ایدھی فاونڈیشن کے ہی ترجمان کے مطابق نوزائیدہ بچوں کے قتل کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔ ایدھی سینٹر کے ایک کارکن نے ٹوٹے لہجے میں ایسی نوزائیدہ لاشوں کا ذکر کیا جنہیں جلایا گیا تھا۔ پھانسی دی گئی تھی یا پھر ان کے ٹکڑے کر دیے گئے تھے۔ اکثر لاشوں کا کچھ حصہ آوارہ جانور کھا چکے تھے۔

اس میں سب سے دلخراش واقعہ وہ تھا جس میں ایک ماں نے اپنا بچہ مسجد کی سیڑھیوں پر چھوڑ دیا تاکہ وہاں سے کوئی اسے اپنا لے مگرمسجد امام نے فیصلہ کیا کہ بچہ نطفہ حرام ہے اور اس کے فتوی کے مطابق مسجد کے عین سامنے ایک ننھی سی ہمکتی جان کو نمازیوں نے پتھر مار کر سنگسار کر دیا۔ اگر آپ صاحب اولاد ہیں تو اپنے بچے کے پہلے دن کو یاد کیجیے پھر سوچیے کہ کتنی ضربوں میں اس کی جان نکلی ہو گی اور کس کرب سے نکلی ہو گی۔ اس ماں کا بھی سوچیے جو ہماری اخلاقی اور قانونی بندشوں سے ہار کر اپنا جگر گوشہ ایک نئی زندگی کی آس میں در خدا پر چھوڑ کر گئی ہو گی اور پھر کسی دیوار کے کونے سے اس نے اپنی جان کے ٹکڑے کا دماغ ایک پتھر لگنے سے باہر آتا دیکھا ہو گا۔ پر کوئی مذہبی رہنما کبھی یہ بات کرتا نظر نہیں آئے گا۔ اخلاقی اقدار کی موت کا نوحہ پڑھنے والے انسانی جان کو اتنا اہم نہیں جانتے کہ اس کے زیاں پر دو لفظ ضائع کر سکیں۔

اسی ایدھی فاونڈیشن کے تین سو سے زائد مراکز پر وہ جھولے نصب ہیں جہاں رات کی تاریکی میں ”حرام کاری“ کے نتیجے میں جنم لینے والے بچے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ بابا ایدھی اب نہیں رہے پر بائیس ہزار سے زائد بچوں کی ولدیت کے خانے میں ان کا نام درج ہے۔ یہ وہی طرز عمل ہے جس پر ہمارے شعلہ بیاں مذہبی علماء نے انہیں مردود ٹھہرایا کہ ان کے نزدیک نطفہ حرام کو پالنا اور اسے اپنا نام دینا گناہ ہے پر اسے سنگسار کر دینا عین جائز ہے۔ سوچیے یہ علماء ایک ایسی ماں یا ایسے باپ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے جو اپنے ”ناجائز“ بچے کو اپنے سینے سے لگانے کی تمنا رکھے اس بچے کو اپنا نام دینے کی کوشش کریں گے۔ بتائیے تعزیرات پاکستان کے تحت ایسے والدین کو کیا نرم ترین ”سزا“ ملے گی۔ جس ملک میں ایک شخص کا نام بائیس ہزار بچوں کے والد کے طور پر درج کرانا پڑے وہاں یہ سمجھنا کہ خفیہ جنسی تعلقات مغرب کے آزادانہ جنسی تعلقات سے کسی بھی طرح کم ہیں، پرلے درجے کی خود فریبی ہے۔

ہمارے ایک معروف رہنما پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی ایک مبینہ ناجائز اولاد کو تسلیم کریں۔ فرض کریں کہ وہ ناجائز اولاد واقعی ان کی ہے اور ایک دن ان کی شفقت پدری جوش مارے اور وہ اسے اپنانے کا اعلان کریں۔ آپ جانتے ہیں اگلے دن کیا ہو گا۔ ان کی تحسین نہیں ہو گی۔ ایک تو ان کا سیاسی کیرئیر وفات پا جائے گا اور دوسرا وہ حدود آرڈیننس کے تحت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ مہذب دنیا کے کسی شخص کو آپ یہ ”منطقی“ نتیجہ سنائیں تو شاید وہ آپ کو فاتر العقل اور آپ کی مقننہ کو ذہنی معذور گرداننے میں ایک لمحہ نہ لگائے لیکن ملک میں کسی کی جرات نہیں کہ وہ ان قوانین پر بات کر سکے۔ کوئی ایسا سوچے بھی تو مذہبی جماعتیں جنہوں نے آج تک ایک بھی نوزائیدہ لاش کا ” نوٹس“ نہیں لیا وہ فورا ” اسلام خطرے میں ہے“ کا پرچم کھول لیں گی اور سب ٹھنڈے پیٹوں کان لپیٹ کر چپ کر جائیں گے۔ ضیا صاحب کے حدود آرڈیننس اور ہمارے خود ساختہ اور شاید احمقانہ اخلاقی معیار روزانہ سینکڑوں بچوں کی لاشوں پر اور مستحکم ہوئے جاتے ہیں۔ پتہ نہیں ابھی اس عفریت کو اور کتنا خون پینا ہے۔

صفیہ بی بی کا مقدمہ یاد ہے کسی کو۔ ایک تیرہ سالہ نابینا بچی کو اس کے مالک اور مالک کے بیٹے نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ چونکہ چار گواہ نہیں تھے اس لیے امیر جماعت اسلامی جناب منور حسن کے نظریے کے تناظر میں بچی خاموش رہی۔ کچھ ماہ بعد پتہ لگا کہ بچی حاملہ ہے۔ اب یہ تو ثابت ہو گیا کہ اس نے زنا کیا ہے ( بالرضا اور بالجبر کی تفریق کو گولی ماریے) پر چار گواہان کی غیر موجودگی میں مالک اور اس کے بیٹے پر فرد جرم عائد کرنا ناممکن تھا تو انہیں تو کچھ نہ کہا گیا حتی کہ ان کے خلاف پرچہ بھی نہیں کاٹا گیا پر 13 سالہ نابینا صفیہ بی بی کو تین سال قید بامشقت اور 15 کوڑوں کی سزا سنا دی گئی تاکہ عوام کی اخلاقی تربیت ہو جائے کہ ” زنا“ کتنی بری چیز ہے اور ظاہر کہ لوگوں کو کان ہو گئے۔ اب کوئی اعتراف کر کے دکھائے۔ شادی کے بندھن سے باہر بچے کو تو دور، اپنے بڑھے ہوئے پیٹ پر ہی پیار سے ہاتھ پھیرے تو سہی۔

کیا ہم بالکل ہی عقل سے پیدل ہیں۔ اپنے بچوں کی تربیت کیجیے۔ بیٹوں کی بھی۔ بیٹیوں کی بھی۔ انہیں درست غلط میں فرق سکھائیے۔ سیکس ایجوکیشن کو نصاب کا حصہ بنائیے تاکہ جنس ایک مضمون کے طور پر سمجھا جا سکے۔ اس سے جڑی اچھائیاں اور برائیاں آپ تعلیم کے ذریعے نہیں بتائیں گے تو کھوجنے والے چور دروازوں سے کھوجیں گے۔ نتیجہ کیا ہو گا، کیا بتانے کی ضرورت ہے۔ شادی کے بندھن سے باہر کے جنسی تعلقات تین ہزار سال پہلے بھی حقیقت تھے اور اب بھی ہیں۔ ان کو سزا اور جزا کے ترازو میں تولتے رہے تو سزا اس زندگی کو ملے گی جو فرشتوں سی معصوم ہے۔ بالرضا اور بالجبر میں فرق واضح کیجیے۔ بالجبر ایک بھیانک جرم ہے اور اس کی سزا عبرت ناک ہونی چاہیے۔ دنیا اب ڈی این اے تجزیے اور فارنزک شہادتوں پر ایسے جرائم کا فیصلہ کرتی ہے، چار گواہ نہیں ڈھونڈتی۔ بالرضا جرم نہیں ہے۔ اسے جرم ٹھہرانے پر اصرار کریں گے تو لاکھوں معصوم جانوں کا خون اپنی گردن پر رکھیں گے۔ بن بیاہی ماں اور بن بیاہا باپ قبول ہیں کہ ایک نوزائیدہ کا قتل، فیصلہ کر لیجیے۔ پر لگتا یہی ہے کہ اس موازنے سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ اور اخلاقی اقدار کا ڈھونگ رچانا بند کیجیے۔ معاشرے کی اخلاقیات اس کے چہرے پر رقم ہوتی ہے۔ لگتا ہے ہم نے اپنے آئینے توڑ ڈالے ہیں۔ کہیں کبھی کوئی شکستہ آئینے کا ٹکڑا مل جائے تو آنکھوں سے پٹی اتار کر اس میں جھانکیے گا۔ اپنا عکس آپ کو پسند نہیں آئے گا۔ (ختم شد)


پہلا حصہ:

(پاکستان کی بن بیاہی مائیں اور ناجائز بچے کچھ کہتے ہیں -1)

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad