آغا سراج درانی کی فل وڈیو، ایک من گندم اور ایک گدھا


اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے ووٹ کے لیے نا زیبا الفاظ کی سندھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر شدید تنقید جاری ہے ۔ دوسری طرف آغا سراج درانی کے حق میں لکھنے والے لکھاری بلاگر اور ہم درد ان کی فل وڈیو میڈیا پر چلا کر آغا سراج درانی کے حق میں راہ ہموار کر رہے ہیں کہ آغا صاحب نے تو اس بندے سے معافی مانگ لی تھی اور اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ووٹ کی سیاست نہیں کرتے اور صرف ذات برادری اور بھائی چارے کی بات کرتے ہیں اس لیے انہوں نے اس مکمل وڈیو میں بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ ووٹ پر وہ پیشاب کرتے ہیں کیوں کہ وہ ووٹ کی سیاست نہیں کرتے ہیں۔ آغا سراج درانی کے حق میں بولنے والوں کا بیانیہ یہ ہے کہ جس بندے کو آغا صاحب نے کہا تھا اس نے مسکرا کے آغا صاحب کو معاف کیا ہے تو پھر دوسرے لوگ کیوں نہیں معاف کر رہے ہیں۔ اس وڈیو لیک کی ساری ذمہ داری حسب معمول سندھ کی قوم پرست جماعتوں پر ڈالی جا رہی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس واقعے کو آغا صاحب کے خلاف سامراج کی سازش قرار دے کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرح سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کی قیادت سے آغا سراج درانی کے استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ جنگ امیر اور غریب کی ہے۔ کسی دور میں سندھ کے سردار ایک عام سندھی جس کو وہ (سماٹ) کہتے ہیں اس کے خون بہا کے بدلے ایک من گندم یا گدھا دیا کرتے تھے اب بھی وہی سندھ میں فضا قائم ہے۔ یہ سردار، وڈیرے، جاگیردار چاہے وہ بلوچ ہوں یا سندھی (سماٹ) ہوں ان کا قبلہ ایک ہی ہے چاہے وہ پیپلز پارٹی کے ہوں یا پھر( ن) لیگ یا (ق) لیگ یا فنگشنل لیگ کے یا تحریک انصاف یا پھر کسی اور پارٹی کے ان کی ذہنیت ایک ہی ہے یہ ایک عام آدمی کو، اپنے ووٹر کو دبا کے رکھنے کے عادی ہیں۔ ایک عام انسان کی حیثیت ان کے نظر میں ایک کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں ہے۔

یہ سردار، وڈیرے، جاگیردار حاکمیت اور اپنے آپ کو افضل و اعلیٰ سمجھنے کی گھٹی پی کر بڑے ہوئے ہوتے ہیں چاہے یہ آکسفورڈ سے پڑھ کر آئیں یا پھر کیمبرج سے۔ جیسے ہی یہ اپنے ملک واپس آ جاتے ہیں یہ فوراً ہی چنگیز خان بن کر عام عوام کو روندنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج بھی لاڑکانہ کے ملاح لڑکے کی لاش غائب ہے جس نے اس وقت کے ایک پیپلز پارٹی کے اونڑ سردار کی لڑکی سے پیار کی بھول کی تھی اور اس کے بعد اس لڑکے کو گھر والوں نے خود اپنے لڑکے کو اونڑ سردار کے حوالے کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس لڑکے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کتوں کو کھلا دیا گیا تھا۔ اور یہ وہی لاڑکانہ ہے کہ جب لیاقت جتوئی سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اس کے بھانجے نے ایک بھٹو ٹھیکیدار کی لڑکی کو چھیڑا اس کی مذمت پر الٹا جتوئی خاندان نے اس بھٹو ٹھیکیدار کو ہی مار ڈالا اور ابھی تک اس معاملے کا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یاد رہی اونڑ خاندان اور جتوئی خاندان آج کل تحریک انصاف میں شامل ہو کے سندھ میں تبدیلی کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں۔

بدنام زمانہ شاہ رخ جتوئی ہو یا تانیہ خاصخیلی کا قاتل خانو ںوہانی، ان جیسے ہزاروں رہزن قاتل جو ہوا کے رخ کے ساتھ سیاسی پارٹیاں بدلتے ہیں ان کے لیے ایک ووٹر یا ایک عام انسان کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے یہ دن دہاڑے بستیوں کی بسیتیاں اجاڑ دیتے ہیں ان کے کریڈٹ میں ایسے بے گناہ قتل شامل ہیں جن کو زمیں بوس یا دریا برد کر دیا گیا ہے۔ بھلا ان کے خلاف کون بولنے کی جراُت کرے گا اور کس کی مجال کہ وڈیرے سرکار کی زمین پر رہ کر بغاوت کرے اور ووٹ کسی اور کو دینے کی جراُت کرے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ سردار، وڈیرہ اور جاگیردار چاہے کہیں کا بھی ہو اس کی نظر میں ایک عام انسان کی جان کی قیمت ایک من گندم یا ایک گدھے کی علاوہ کچھ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).