ملک ٹام اینڈ جیری سیریز کے تحت نہیں آئین کے تابع چلتا ہے


حالات شاندار ہیں۔ ملٹی سکرین کمپلیکس میں ہر شو ہاؤس فل، ہر کہانی ایکشن تھرلر سسپنس۔ تھیٹر نمبر ون میں امریکہ، افغانستان اور بھارت بمقابلہ پاکستان، تھیٹر نمبر ٹو میں دہشت گردی بمقابلہ پاکستانی ریاست، تھیٹر نمبر تین میں نواز شریف و عمران خان بمقابلہ عدلیہ، تھیٹر نمبر چار میں آئی ایس پی آر، تحریکِ انصاف، الیکٹرونک میڈیا بمقابلہ خاقان حکومت و ہمنوا، تھیٹر نمبر پانچ میں حزبِ اختلاف بمقابلہ حزبِ اختلاف اور تھیٹر نمبر چھ میں شریف خاندان بمقابلہ شریف خاندان و نثار علی وغیرہ۔

ہر کہانی میں کوئی موڑ اگرچہ کسی کردار سے پوشیدہ بھی نہیں مگر کسی کردار کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلا موڑ کون سا ہے۔ ہر کردار سب کچھ اور سب کو جاننے کا دعویدار ہے مگر کوئی کردار خود کو نہیں جانتا۔

ایڈیٹنگ ایسی کمال کہ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس سین میں کون کب ولن سے ہیرو اور پھر کامیڈین بن کے دوبارہ ولن یا ہیرو کا روپ دھار لے۔ کوریو گرافی اتنی شاندار کہ کسی بھی آئٹم سانگ میں مرکزی کردار اچانک سے ایکسٹرا بن جاتے ہیں اور ایکسٹرا سب کچھ پھلانگتے ہوئے مرکزی کرداروں میں تبدیل ہو کر پھر ایکسٹرا کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔

یہ ایک ایسی ریاست کی تھرلر فلم ہے جو بیک وقت خود سے اور دنیا سے نبرد آزما ہے۔ حسن انتظام اس قدر انہونا کہ ایک ہی کردار دو دو تین تین اداکار نبھا رہے ہیں۔ مثلاً آئی ایس پی آر کے پاس خارجہ، خزانہ داخلہ و مداخلہ کے قلمدان ہیں، وزیرِ داخلہ عملاً وزیرِ ڈانٹ ڈپٹ و احتجاج میں بدل چکے ہیں۔ ایجنسیاں جعفر جن بنی ہوئی ہیں۔ ہر چند کہ ہیں پر نہیں ہیں۔ وزیرِ خارجہ امریکی ڈیسک بجا رہے ہیں اور سپاہ سالار بھارت، افغان، ایران ڈیسک کے معائنے پر ہیں۔ اس بیچ دفترِ خارجہ اس ٹینس میچ کا وہ بے بس امپائر ہے جو کبھی گردن شمالاً گھماتا ہے کبھی جنوباً۔

سنا ہے معیشت بھی قسمت کی طرح اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ مگر وزیرِ خزانہ کو نہیں معلوم کہ کل عدالت میں پیش ہونا ہے یا عالمی بینک کے روبرو۔
اور کیا چاہیے؟ تین تین قائدِ حزبِ اختلاف ہیں ( خورشید شاہ، عمران خان اور نواز شریف)۔
عدلیہ اپنا کام بھی کر رہی ہے اور احتسابی اداروں کی بے بی سٹنگ کا بوجھ بھی کاندھوں پر ہے۔
الیکشن کمیشن ہر صبح کام شروع کرنے سے پہلے فال نکالتا ہے کہ آج وہ کتنا بے بس اور کتنا با اختیار ہے۔

پارلیمنٹ جتنی آزاد و خود مختار اب ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ کس رکنِ اسمبلی کو کب کس اجلاس میں کتنی دیر کے لیے شریک ہونا ہے، کس بل کو پڑھے بغیر منظور کروانے کے لیے ہاتھ اٹھانا ہے اور کب کسی اہم بل کو پڑھے بغیر مسترد کرنا ہے اور اپنے ہی منظور کردہ بل کی کیوں مخالفت کرنی ہے، فلور پر تقریر کرتے ہوئے کس درجے کی زبان استعمال ہو گی۔ یہ تمام امور ہر رکنِ اسمبلی خود طے کر رہا ہے۔

نوبت بہ ایں جا رسید کہ چیرمین سینیٹ کو بھی احتجاجاً اپنے ہی ایوان سے واک آؤٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اسپیکر کی بس اتنی چل رہی ہے جتنی مادام تساؤ کے عجائب گھر میں کھڑے کسی مومی مجسمے کی۔

پر خدا کا شکر ہے کہ ان تمام کرداروں کو قومی و عوامی مفاد جان سے زیادہ عزیز ہے، کسی کو ہوسِ اقتدار نہیں، ہر کوئی ریاست اور اس کے انتظام کے بارے میں فکر مند ہے، ہر کوئی شاندار مستقبل کا خواہاں ہے اور ہر کوئی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔ ان سب کرداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ بھی گزارا نہیں اور ایک دوسرے کے بغیر بھی گذارہ نہیں۔

ویسے تو یہ حالات ایک دن میں معمول پر آ سکتے ہیں اگر صرف ایک اجتماعی عہد کر لیا جائے کہ اس ملک کو ٹام اینڈ جیری سیریز کے تحت نہیں آئین کے تابع چلانا ہے۔
مگر حالات اگر خدانخواستہ معمول پر آ گئے تو روزِ حشر اقبال کو کیا منہ دکھائیں گے۔
پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).