عورتوں کے حوالے سے بدلتے ہوئے رویے


انسانی معاشرہ ساکت و جامد نہیں ہوتا بلکہ اس میں مسلسل تبدیلی اور ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ تہذیب، اخلاقیات، اقدار، رویے بھی پرانے نہیں رہتے۔ یہ تبدیلیاں عموماً سست روی سے اور دبے پاؤں رونما ہوتی ہیں۔ اندازہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب کوئی پرانی تصویر نگاہ کے سامنے لہرا جائے، پرانے اخبار پر نظر پڑ جائے یا کسی ایسے ادیب کی نگارشات تک رسائی ہو جائے جسے اپنے دور کی عکاسی میں ملکہ حاصل رہا ہو۔ چارلس ڈکنس کے مشہور ناول آلیور ٹوئسٹ کو ایک بار پھر پڑھتے ہوئے مجھے ایسا ہی محسوس ہوا۔ کہانی کا سب سے بدنام کردار بل سائکس جب اپنی آشنا نینسی کوانتہائی ہولناک طریقے سے قتل کرتا ہے تو ڈکنس صرف ایک ظالم ولن کا مکروہ چہرہ سامنے نہیں لاتا بلکہ اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتا ہے کہ انیسویں صدی کے برطانوی سماج میں عورت کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی اور بیویوں پر شوہروں کا تشدد ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ وہ بھی اس وقت جب راج سنگھاسن پر ایک خاتون یعنی ملکہ وکٹوریہ براجمان تھیں۔

کوئی ڈیڑھ پونے دو سو سال قبل جب دنیا کا پہلا صنعتی انقلاب برطانیہ ہی میں بپا ہوا تو اس نے پورے معاشرتی ڈھانچہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ آبادی کا بڑا حصہ گاؤں دیہات سے نکل کر شہروں میں آ بسا۔ اسّی فیصد لوگ صنعتی مزدور بن گئے کیا عورت کیا بچے سب معاشی چکی میں پسنے لگے۔ چھوٹے چھوٹے تنگ مکانوں میں جانوروں کی طرح ٹھنسے ہوئے لوگ، پرانی جاگیردارانہ روایات اور مشکل حالاتِ زیست میں خاوند کے ہاتھ پٹنا گویا عورت کا مقدر ہی بن گیا۔ قانون کے کان  صرف وہی درد ناک چیخیں سن سکتے تھے جو موت کے گھاٹ اتاری گئی یا موت کے دروازے تک پہنچی ہوئی عورت کے منہ سے نکلی ہوں۔ بیوی کو دھمکیاں، طمانچے، گھونسے، دھات چڑھے جوتوں سے لاتیں، سخت سردی میں کم کپڑوں میں رات بھر گھر سے نکال دینا، کھانا بند کردینا یہ سب ریاست کی نظر میں ‘میاں بیوی کا ذاتی معاملہ’ سمجھا جاتا تھا۔

وہ ذاتی معاملات جن کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاسکتا تھا میں بیوی کے دانت یا جبڑا توڑ دینا، ناک یا کان کاٹ دینا، آنکھ پھوڑ ڈالنا، پسلیاں، انگلیاں، بازو یا ٹانگ کی ہڈیاں توڑ دینا، پیٹ پر بالخصوص دورانِ حمل کودنا، مکان کی اوپری کھڑکی سے باہر اچھال دینا، آتش دان کی راکھ کریدنے والی سلاخ سے ادھیڑ کر رکھ دینا، بال سے کھینچھتے ہوئے بستر سے نکال کر اس کا سر زمین پر پٹخنا، ہتھوڑے سے پٹائی وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ اس خوفناک اور غیر انسانی سلوک کا جواز شوہروں کے پاس یہ ہوتا کہ بیگم صاحبہ جو کسی فیکٹری میں دس بارہ گھنٹے ملازمت کرتی ہیں اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نظر انداز کرتی ہیں، میری مرضی کے خلاف چلتی  ہیں، میں اس روز شراب کے نشے میں دھت تھا وغیرہ وغیرہ۔ پٹتی وہ عورتیں بھی تھیں جو نوکری نہیں کرتی تھیں۔

ان جرائم کی سزا انتہائی نرم تھی۔ عدالت کی طرف سے شوہر کو تھوڑی بہت جھڑکیاں، چند شلنگ، زیادہ سے زیادہ پانچ پاؤنڈ، جرمانہ غیر ادائیگی پر نرم قید۔ یہ جرمانہ بھی خود کمانے والی خاتون کو ادا کرنا پڑتا۔ گھریلو عورت تو شوہر کی شکایت کے بعد اس کے جیل جانے کی صورت میں اپنے بچوں کے ساتھ فاقوں کا شکار بنتی۔ ہاں اگر اس بہیمانہ تشدد کے نتیجے میں کوئی عورت مر ہی جاتی تو شوہر پر قتلِ غیر ارادی (مین سلاٹر) کا مقدمہ بنتا جس کی زیادہ سے زیادہ سزا بارہ ماہ نرم قید تھی۔ یاد رہے کہ اس وقت بھیڑ چوری کی سزا دس سال جیل تھی۔ عدالت کے مجسٹریٹ اور مرچ مسالہ لگا کر خبر چھاپنے والے اخبار نویس دونوں کا رویہ بیویوں کے حق میں کوئی بہت زیادہ ہمدردانہ نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ دونوں کا تعلق درمیانہ طبقے سے ہوتا تھا اس لیے اس بات کی خوب خوب تشہیر کی جاتی تھی کہ یہ مزدور طبقے کا اندازِ زندگی ہے جو بد تمیز اور گنوار ہیں۔

وکٹورین دور میں مڈل کلاس میں عورت اور مرد کے اپنے اپنے دائرہء کار تھے۔ مرد مردانگی اور بہادری کا مظہر، کمانے کا ذمہ دار اور گھر کا سربراہ تھا۔ عورت کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ایک ‘معزز’ گھرانے میں شادی ہوجانا تھا۔ اس سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ سلائی کڑھائی کا شوق رکھتی ہو، پیانو یا وائلن بجا لیتی ہو، تھوڑا بہت گا بھی سکتی ہو اور گھر کے نصف درجن نوکرچاکروں کی نگرانی کرسکتی ہو۔ دانشورانہ بحثوں اور دماغی کام  سے حتی الامکان دور رہتی ہو۔ اس معاملے میں ملکہ وکٹوریہ کی اپنی ذاتِ والا صفات ایک آئیڈیل تھی۔ وہ ہمہ وقت اپنے نو بچوں میں گھری رہتیں۔ عورتوں کے حقِ رائے دہی کو ایک غیر فطری، سازشی اور احمقانہ مطالبہ قرار دیتی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ آزادی نسواں کی طلبگار خواتین کی چابک سے اچھی خاصی ٹھکائی لگائی جائے-

برطانوی معاشرہ میں اس جبر و تشدد کی یہ کہہ کر تائید کی جاتی تھی کہ شوہر کو بیوی پر ہاتھ اٹھانے کا حق بالکل حاصل ہے کیونکہ اس کا مقصد بیوی کی’اصلاح’ کرنا ہوتا ہے یا پھر بیوی نے اس کے سامنے زبان چلائی ہوگی، اس کو تنگ کردیا ہوگا، یا شاید نا فرمانی کی ہو۔ چرچ کا وہی رویہ تھا جو ہمیشہ سے رہا ہے انہوں نے بیویوں کی پٹائی کو شوہر کا وہ حق قرار دیا جو اسے خود خدا نے ودیعت کیا ہے!

انیسویں صدی ہی میں عورت کے ساتھ حیوانی سلوک کی داستانوں سے ہونے والی قومی رسوائی اور حقوقِ نسواں کی جارحانہ تحریک کے نتیجے میں تین اہم ترین قانونی اصلاحات کی گئیں جس نے آگے چل کر برطانوی معاشرہ پر لگے اس داغ کو کافی حد تک دھو ڈالا۔ 1857ء میں شادی ایکٹ کے تحت نکاح و تنسیخِ نکاح کے اختیارات کلیسا سے لے لئے گئے اور بوقتِ ضرورت طلاق میں آسانی پیدا کی گئی۔ یہ وہی قانون تھا جس کا اطلاق ہندوستان سمیت تمام برطانوی نوآبادیات پر بھی کیا گیا۔

1853 ء میں سنگین حملہ ایکٹ متعارف کیا گیا جس کے تحت پرتشدد شوہروں پر زیادہ سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ 1870ء میں شادی شدہ عورت کی جائیداد کا ایکٹ بنا۔ اس سے قبل شادی کے بعد عورت کی موروثی جائیداد خودبخود اس کے شوہر کی ملکیت ہو جاتی تھی جس سے وہ اسے بے دخل کر سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس ایکٹ کے بعد مڈل کلاس کی خواتین کی طرف سے بھی شوہروں پر مار پٹائی کے مقدمے سامنے آنے لگے۔

قانون سازی کا یہ عمل پھر جاری و ساری ہی رہا۔ 1922ء میں وراثت کے قانون کے تحت مرد اور عورت کو ترکہ میں برابر کا حصہ دار بنا دیا گیا 1923ء میں شادی ایکٹ میں ترمیم کرکے دونوں جنسوں کو طلاق کا یکساں حق بھی تفویض کر دیا گیا۔ 1929ء میں پرائیوی کونسل نے کینیڈا میں چلنے والے ایک مقدمے میں جس میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا عورت بھی مرد کی طرح ایک جیتی جاگتی شخصیت ہے میں فیصلہ دیتے ہوئے عورت کو برابر کا انسان تسلیم کرلیا۔

معاشرے میں آنے والی ان بتدریج تبدیلیوں نے بظاہر غیر محسوس انداز ہی میں سہی بڑے دیرپا اثرات مرتب کئے۔ آج حقوقِ نسواں سے آگہی اور ان حقوق کا احترام پوری دنیا میں ایک بنیادی انسانی قدر بن چکا ہے- لیکن یہ حقوق نا کسی دانشور کے ذہنِ رسا کی زرخیزی کا تحفہ ہیں نا ہی کسی رحمدل اور خدا ترس بادشاہ کی دین بلکہ یہ صنعتی معاشی نظام سے پیدا ہونے والی مشکلات اور ان سے بیدار ہونے والے شعور کا نتیجہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments