ننھے منے سپیشل بچوں پر سرکاری اہلکاروں کا تشدد


جمعے کا دن ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر ویڈیو چل رہی ہے جس میں گلبرگ لاہور میں واقع ”گورنمنٹ گنگ محل سکول آف سپیشل ایجوکیشن برائے متاثرہ سماعت طلبہ“ کے سپیشل بچوں کی بس کا اندرونی منظر دکھایا جا رہا ہے۔ بچے سکول سے واپس گھر جا رہے ہیں۔ ایک ننھا سا بچہ، بمشکل بارہ برس کی عمر کا، بس کی چھت پر لگے ڈنڈے سے لٹکا ہوا خوف سے چیخ رہا ہے۔ اسے حافظ عثمان نامی سرکاری اہلکار، جس کی ذمہ داری ان بچوں کو بخیر و عافیت گھر اور سکول پہنچانا ہے، کسی شرارت کی سزا دے رہا ہے اور اس پر تشدد کر رہا ہے۔ اہلکار حافظ عثمان خوفزدہ بچے پر ہنس رہا ہے۔ لیکن وہ بچے کے شور سے تنگ آ رہا ہے۔ وہ بچے کے حلق میں ہاتھ ڈال کر اسے خاموش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

پھر اگلے منظر میں وہ بچہ اس عالم میں الٹا لٹکا دکھائی دیتا ہے کہ اس کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں خوف سے اس کا کیا حال ہوا ہو گا۔ اس عمر کے صحت مند بچے کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے تو وہ بے تحاشا خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ اس بولنے سننے سے قاصر سپیشل بچے کا تو نہ جانے دہشت سے کیا حال ہوا ہو گا۔ ان بچوں کے سوچنے سمجھنے کا اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔ نہ جانے کتنے برس وہ اس خوف کے عالم میں جیے گا۔

ویڈیو کے آخری حصے میں اکرم نامی ایک دوسرا اہلکار دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایک دوسرے بچے کو ڈرا دھمکا رہا ہے۔ یہ دوسرا بچہ خوف سے اپنی سیٹ پر جم چکا ہے۔ وہ ہاتھوں سے اشارے کر رہا ہے کہ وہ اپنے والدین کو یہ سب بتا دے گا۔ اکرم اسے دھمکی دیتا ہے کہ اس نے شکایت کی تو اس کی پٹائی کی جائے گی۔ بچہ خوفزدہ ہے مگر اکرم مطمئن نہیں۔ وہ اسے تھپڑ لگا دیتا ہے اور ڈراتا دھمکاتا ہے۔ ”تم اپنے باپ کو کیا بتاؤ گے؟ “ اکرم کہتا ہے۔

ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر چلتی ہے۔ گنگ محل سکول کا پرنسپل ان دونوں اہلکاروں کا معطل کرتا ہے اور بچوں کے والدین سے رابطہ کرتا ہے جو اسے بتاتے ہیں کہ بچوں نے پہلے بھی ایسی شکایت کی تھی۔ پولیس میں رپورٹ درج کی جاتی ہے۔ اور اب خبر چل رہی ہے کہ مجسڑیٹ صاحب کو مطلع کیا گیا ہے کہ دونوں پارٹیوں میں راضی نامہ ہو گیا ہے۔ پولیس نے سات روزہ ریمانڈ مانگا تھا مگر ماڈل ٹاؤن کچہری میں مجسٹریٹ صاحب نے دونوں اہلکاروں کو ایک روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے اور پیر کے دن یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ راضی نامہ قبول کر لیا جائے اور ان اہلکاروں کو چھوڑ دیا جائے یا نہ۔ حالانکہ دونوں اہلکار دوران تفتیش اپنا جرم قبول کر چکے ہیں اور انہوں نے تاویل پیش کی ہے کہ وہ بچوں کو شرارتوں سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

حیرت سی حیرت ہے۔ راضی نامہ؟ والدین کا اس میں کیا رول ہے؟ یہ سرکار کا معاملہ ہے یا والدین کا؟ سرکاری ادارے کی بس میں سرکاری اہلکار ان معصوم بچوں کو ایک سرکاری امانت کے طور پر لے کر جا رہے ہیں، سرکاری تحویل میں ایسے بچوں پر تشدد کیا جا رہا ہے جو عام بچوں جتنی صلاحیت بھی نہیں رکھتے کہ گھر یا سکول جا کر اپنے بڑوں کو ظلم کی تفصیل بتا دیں، اور ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ والدین کے راضی نامے پر ان سرکاری اہلکاروں کو چھوڑا جا سکتا ہے؟ کیا سرکار انہیں صرف چھوڑ دے گی یا انہیں اس بہترین کارکردگی پر بونس بھی دے گی؟

ہر بچے کا تحفظ، سب سے پہلے حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ والدین سے پہلے ریاست کے بچے ہیں۔ عام بچوں پر ایسا تشدد ناقابل برداشت ہے اور یہاں بولنے سننے سے معذور بچوں کے ساتھ یہ بربریت کی جا رہی ہے اور ملزم کل راضی خوشی اپنے گھر اور ممکنہ طور پر سرکاری ملازمت پر واپس جا سکتے ہیں۔

جب مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کے وزیر داخلہ احسن اقبال ہم سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ”کیا ہم ایک بنانا ریپبلک میں رہ رہے ہیں“، تو یہ ویڈیو دیکھ کر مسلم لیگ ن کی صوبائی اور وفاقی حکومت کو یہی جواب دیا جا سکتا ہے کہ ”جی ہاں، ہم آپ کی حکومت میں ایک بنانا ریپبلک میں رہ رہے ہیں“۔ اگر حکومت اپنے بچوں، خاص طور پر سپیشل بچوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے، تو یہ حکومت کہلائے جانے کے قابل نہیں ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar